(احمد رضا پنجابی)
کلچر کا نام جب بھی لیا جاتا ہے لوگ اس کے معنی پوچھتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو یہاں کے کلچر بارے بہت کم بتایا اور پڑھایا گیا ہے۔ عام بندے کے ذہن میں کلچر کا نام بس لکھنوی قسم کا ڈانس ہے۔
کسی قوم کے رہنے سہنے کے انداز، روایات اور وہ دکھ سکھ جن میں وہ قوم اپنی زندگی جیتی ہے یہ اس قوم کا کلچر کہلائے گا۔
دنیا میں کئی قومیں آباد ہیں، ان قوموں نے اپنے رہن سہن کا جو طریقہ اپنایا وہ ان کا کلچر کہلایا۔ دنیا کے مختلف خطوں کی ثقافتوں میں کہیں نہ کہیں مماثلت اس لئے نظر آتی ہے کہ دنیا کا ہر انسان خوش رہنے اور اپنا سروائیول ڈھونڈنے میں ایک سی سوچ رکھتا ہے۔
پنجاب دنیا کا قدیم ترین خطہ ہے اور خطہ بھی وہ جو پانچ ہزار سال پہلے آج کی جدید دنیا کا مقابلہ کرتا تھا۔ ہڑپہ کے آثار یہاں کے انسانی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر ہم انڈس سولائزیشن کی بات کریں، گندھارا کی بات کریں یا ان سے پہلے تو یہاں کے کلچر میں امن پسندی کا پہلو اس لئے ملے گا کہ یہاں کی مٹی انتہا کی ذرخیز ہے جو اتنا غلہ پیدا کرتی آئی ہے کہ یہاں کے انسان کو لوٹ مار کے لئے باہر کی دنیا کو تہس نہس نہیں کرنا پڑا۔ دنیا پہ پنجاب کی امن پسندی ابھی تک آشکار نہیں ہوئی اور نہ پنجابیوں نے کبھی اس رخ سے اپنے اپ پہ فخر کیا۔
پنجاب اپنا عظیم کلچر رکھتا ہے جس پہ ہر پنجابی کو فخر ہونا چاہیئے مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے پنجاب پہ قبضہ کے بعد گورے نے ایک خاص مائنڈ سیٹ کے تحت یہاں کے باسیوں کو ان کے اپنے ہونے سے نفرت سکھائی۔ یہاں کے ہیروز کو نصاب اور بندوق کے ذریعے ڈکیٹ ثابت کروایا۔ پنجابیوں کو اپنے جس کلچر پہ فخر کرنا چاہیئے تھا وہ اسی سے نفرت کرنے لگ گئے۔
1947 کی تقسیم کے بعد کے پنجابی کی تربیت بھی ریاست کی جانب سے اسی ڈھنگ میں کی گئی جو طریقہ واردات یہاں گورا چھوڑ گیا تھا۔ وہی آزمایا جاتا رہا۔ اسی لئے عام پنجابی کے سامنے جب سندھی کلچر کی بات کی جائے تو وہ خوش ہوتا ہے اسے اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ پنجاب بھر میں سندھی ٹوپی اور اجرک آپ کو کہیں نہ کہیں دیکھنے میں ضرور ملتی ہے۔
پنجاب پنجابی کے حقوق کے لئے سرگرم تنظیم پنجابی پرچار اور پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان نے آج کے پنجابیوں کو اپنے کلچر سے روشناس کرانے کے لئے دسمبر 2019 میں پنجاب کا شاندار کلچر ڈے منانے کا فیصلہ کیا جسے پنجاب بھر کے پنجابی سے محبت کرنے والے دوستوں نے بےحد سراہا۔ سبھی کے مشورے سے دیسی پنجابی سال کے مہینے چیتر کی پہلی تاریخ کو پنجاب کلچر ڈے منانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ پنجاب سرکار کے کلچرل اداروں کے لوگوں سے بھی سرکاری سطح پہ یہ دن منانے کی درخواست کی گئی۔ پیلاک اور الحمراء آرٹس کونسل کے ساتھ ساتھ سیکرٹری کلچر راجہ جہانگیر نے بھی سراہا۔ اس وقت کے پنجاب کے کلچرل منسٹر خیال احمد کاسترو کی ذاتی دلچسپی سے پہلی چیتر 14 مارچ کو پنجاب بھر میں سرکاری سطح پہ یہ دن منایا گیا۔ پنجابی پرچار، پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان اور پنجاب ہاؤس کی کاوشوں سے پنجابیوں نے پہلی بار اپنا کلچر ڈے منایا۔ پہلی بار دیکھا گیا جو رنگ عوامی سطح پہ تھا پنجاب حکومت اسی میں رنگ رہی تھی۔ اس وقت کے منسٹر ہائر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں پنجابی پرچار کے صدر احمد رضا پنجابی کے ساتھ پنجاب کلچر ڈے منوانے کو ہر جگہ موجود ہوتے۔
کورونا کے خوف کے باوجود پنجاب کلچر ڈے پچھلے تین سال جوش و خروش سے منایا جاتا آ رہا ہے۔ اس دن نہ صرف پنجاب بھر کے بڑے بیوروکریٹس اور اعلیٰ پولیس افسران پنجابی پگ، لاچے اور کھسے میں سرکاری کام نپٹا تے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی پنجابی کلچر ڈے عظیم الشان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ یہی وہ دن ہے جس نے پنجاب کی اس پگ کو دوبارہ سے عزت بخشی جو گورے نے تحقیر کا نشان بنا دیا تھا۔ اسی دن کی بدولت پنجاب کو معلوم ہوا ڈھول بھنگڑے، گدے جھمر، لڈی اور دوسرے لوک ناچ ہمارے ہیں۔ فطرتی رنگوں کی خوبصورتیاں ہماری ہیں، انسانی سانجھ ہماری بنیاد ہے، برابری ہمارا حسن ہے، عورت کی عزت اور احترام پنجابی ذہن کی خوشی ہے۔ سبھی لوگوں کا سانجھا احترام ہماری صوفی ریت ہے۔ ونڈ کے کھانا ہمارا کلچر ہے۔ دوسروں کے لئے غلہ اگانا ہماری ترقی ہے۔ اپنی ذات سے آگے لوکائی کا سوچنا ہماری روایت ہے۔ نفرت ظلم جبر اور کسی کا حق کھانا ہمارے خون میں شامل نہیں۔ ہم ٹیکسلا یونیورسٹی کے وارث ہیں جس نے دنیا بھر کو تعلیم کی بنیاد پہ آگے بڑھنے کی سوچ دی ہم ہڑپیئن سولائزیشن کا حوالہ ہیں جن کو کسی بندے مار ہتھیار کا معلوم تک نہ تھا۔۔
آج دنیا بھر کے لوگ پنجابی کلچر ڈے منا رہے ہیں۔ سبھی پنجابیوں کو آپ کا کلچر مبارک ہو۔ آپ اپنے کلچر کو سمجھیں جانیں اور بھرپور طریقے سے اپنائیں دنیا آپ پہ فخر کرے گی
پنجابی کلچر ڈے مبارک ہو