سنگین نتائج 

         سنگین نتائج 
         سنگین نتائج 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  فروٹ لینے والے نے دکاندار سے گلا سڑا پھل دینے کا شکوہ کیا تو دکاندار نادم ہونے کی بجائے کہتا ہے کہ جناب میرے ساتھ بھی دھاندلی ہوئی ہے۔ایک لڑکے کے والد نے اس کا رشتہ امیر گھرانے میں کردیا شادی کی پہلی رات جب لڑکے نے گھونگھٹ اٹھایا تو بھاگا ہوا اپنے دوستوں کے پاس پہنچا اور اشکبار آنکھوں سے گویا ہوا کہ میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔

ہماری بیگم صاحبہ کچن میں مصروف تھیں بڑے بیٹے نے کام میں مداخلت کی تو بیگم صاحبہ برہم ہوتے کہنے لگیں جب کوئی میری بات نہیں مانتا تو مجھے بہت برا لگتا ہے بیگم صاحبہ کے اس انکشاف کے بعد میں گہری سوچ میں پڑ گیا اور ایک لہر سی میرے جسم میں دوڑ گئی کہ میں نے تو آج تک بیگم صاحبہ کی کتنی ہی باتیں نہیں مانیں نہ جانے بیگم ان باتوں کا بدلہ اچانک کس روز لے لیں گی۔ہمارے سیاستدان بھی کسی کی نہیں مانتے اور پھر اچانک ان سے بدلہ لے لیا جاتا ہے جب ان سے بدلہ لیا جائے تو یہ کہتے ہیں یہ آمریت ہے جمہوریت پہ شب خون مارا گیا ہے۔

آپ سوچئیے!اس وقت ملک میں جو حالات ہیں کیا 71ء کے حالات اس مختلف تھے یا آج اکہتر سے حالات مختلف ہیں؟ 71ء میں دشمن نے ہمارے سیاستدانوں کی عاقبت نا اندیشیوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں دو لخت کردیا تھا۔

بخدا!جماعتوں میں بٹے ہمارے نادان شہری آج ملک کے خلاف ایسی باتیں کررہے ہیں کہ خدا خیر کرے۔ہمارے سکول کے زمانے کے ایک ٹیچر سکول کے بچوں سے کہتے کہ سکول کے بعد انکے پاس بھی ٹیوشن پڑھنے آیا جائے ورنہ نتائج اچھے نہ ہونگے آج دھاندلی کا شور کرنے والے سیاستدان بھی سکول ماسٹر سی ضد کررہے ہیں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے والے سوچتے نہیں کہ یہ ملک کن لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا جسکے خلاف یہ ہرزہ سرائی کرتے ہیں اور یہ ملک ان سیاستدانوں کی جاگیر بھی نہیں جسے انہوں نے سمجھ رکھا ہے۔

بے نظیر بھٹو بیرون ملک تھیں صحافی نے ان سے سردار فارووق لغاری کے بارے پوچھا کہ آپ نے انہیں صدر بنایا اور انہوں نے آپکی حکومت کو چلتا کیا تو بے نظیر صاحبہ نے کہا فاروق لغاری کا یہ قد نہیں تھا کہ انہیں صدر بنایا جاتا ہمارے کچھ سیاستدان بھی اس قد کے نہیں کہ عنان سلطنت انکے حوالے کی جائے اقتدار سنبھالنا حکومت چلانا بڑے حوصلے بڑی دانش کی بات ہوتی ہے کسی منقتم مزاج شخص کو تخت شاہی پر بٹھا دینا ظلم ہے۔

سیاست ایک سنجیدہ عمل ہے کوئی کھیل کا میدان نہیں کہ کسی کھیلنے کودنے والے کو آپ ایک ایٹمی قوت کا سربراہ بنا دیں لیکن صد افسوس کہ ہمارے بعض سیاستدانوں نے اسے کھیل ہی سمجھ لیا ہے کہ جس میں ہارنے پر بعض کھلاڑی غصے میں اپنی ہی چیزیں توڑ دیتے ہیں اور جیت ہار کے اس کھیل میں کھلاڑی عجب ذہنی حالت کا شکار رہتا ہے۔

حکمران تو ایسے ہوتے ہیں کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی رعایا کے احوال جاننے کو نکلتے اور کسی کو دکھ درد میں مبتلا دیکھتے تو اسکا مداوا کرتے نہ صرف مداوا کرتے بلکہ وہ فکر کرتے کہ انکی رعایا کس حال میں ہے ہماری اسلامی تاریخ تو ایسے حکمرانوں سے بھری پڑی ہے جنکی حکمرانی میں لوگ چین کی نیند سوتے اور حکمران جاگتے۔

 آج اسرائیل نے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے فلسطینیوں کے قتل میں سبقت لے جانے کے جنون میں اسرائیلی وزیراعظم کسی عالمی دباؤ خوف۔ قانون۔قاعدے کو خاطر میں نہیں لارہا۔ امریکہ سلامتی کونسل میں تین بار جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرچکا ہے اور ہم کوئی عالمی کردار ادا کرنے کی بجائے آپس کی لڑائیوں میں پڑے ہیں۔

میں عمران خان کا سب سے بڑا ناقد ہوں لیکن کچھ حقائق اپنی جگہ ہیں عمرانی دور میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سفارت خانوں تک رسائی آسان تھی وہاں انکی بات سنی جاتی تھی انکے مسائل حل کئے جاتے تھے عمرانی دور میں ایسی خارجہ پالیسیاں وضع کی گئیں کہ اوورسیز پاکستانیز کے سفارتی معاملات آسان کردئیے گئے تھے مجھے اوورسیز پاکستانیز کے فونز آتے ہیں اگرچہ وہ عمرانی قافلے میں شامل بھی نہیں پھر بھی وہ عمرانی محبت کے اسیر نظر آتے ہیں جس کی وجہ سالہاسال سے سفارت خانوں میں پاکستانیوں کی دھری فائلیں کھلنے لگی تھیں ان کے کام ہونے لگے لیکن تحریکی اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی اوورسیز پاکستانیز کے کام پھر سے ٹھپ ہوگئے انکی مشکلات میں اضافہ ہوگیا حالانکہ پی ڈی ایم کی حکومت کو اوورسیز پاکستانیز کے لئے اس سے بہتر اقدامات کرنا چاہئیں تھے۔ کسی ملک کا سفیر اس ملک میں رہنے والے اپنے ہم وطنوں کا سرپرست ہوتا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ ایک نیک دل حکمران کی طرح وہ سفیر بھی اپنے ہم وطنوں کے مسائل جاننے کے لئے اپنے عالیشان دفتر سے نکلے اور مختلف مکاتب فکر سے وابستہ افراد کے مسائل جانے لیکن پاکستان کی تاریخ میں کسی سفیر کو ایسی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے شہریوں کے حالات جاننے کے لئے ان میں گھل مل کر بات چیت کرے انہیں اپنائیت کا احساس دلائے ہم نے بیرون ملک سفیروں کے ٹھاٹھ دیکھے ہیں انکے تو انداز ہی اور ہوتے ہیں۔ 

نواز شریف کی طرف ہمارا قلبی میلان اس لئے ہے کہ جیسے بھی تھا اس نے ایٹمی دھماکے کردئیے تھے۔ سی پیک کی عالمی سطح پر جس قدر مخالفت ہوئی سب جانتے ہیں اس کے باوجود سی پیک کا افتتاح ہوا بھارت گوادر سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے چاہ بہار جا پہنچا تھا لیکن نواز شریف کی اس وقت اندرونی بیرونی مداخلت کے باووجود سی پیک کا عمل روکا نہ گیا۔

 پاکستان میں اس وقت اتحادی حکومت کے ساتھ ہی چہ مگوئیاں ختم تو ہوگئی ہیں لیکن پاکستان کے حالات کو معمول پر لانا شہباز شریف اور زرداری صاحب کے لئے بڑا چیلینج ہوگا نواز شریف نے وزرات عظمی سے دستبردار ہو کر سیاسی بصیرت سے کام لیا ہے لیکن آزاد امیدوار جو سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ہیں ان کا کردار بھی اہم ہے کہ انہیں بھی قوم نے ہی منتخب کیا ہے اس لئے انہیں خاطر میں لانا بھی لازم ہے۔پاکستان اس وقت جس دوراہے پر کھڑا ہے اس کا ایک راستہ ترقی خوشحالی اور استحکام کی طرف جاتا ہے اور دوسرا راستہ زوال کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے اس لئے پاکستان کے لئے سب کو سوچنا ہوگا پاکستانیوں کے لئے سوچنا ہوگا وگرنہ عوام سیاستدانوں سے جس قدر بدگماں ہوچکے ہیں عوام کے ہاتھوں سیاستدانوں کے نتائج انتخابی نتائج سے بھی سنگین ہو سکتے ہیں 

مزید :

رائے -کالم -