آئین کی منظوری سے قبل ہی دستور سازاسمبلی تحلیل

معروف دانشور چیف ایڈیٹر، روزنامہ ”پاکستان“ محترم مجیب الرحمن شامی نیسٹیزن کونسل آف پاکستان کے تھنک ٹینک کی ماہانہ میٹنگ میں بطور مہمان سپیکر، ”پاکستان کیا چاہتا ہے؟“ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب 24اکتوبر 1954ء کو اسمبلی توڑی گئی۔ اس وقت اسمبلی میں آئین پر کام ہو رہا تھا۔ قیاس تھا کہ دو تین دن بعد ہی وطن عزیز کا پہلا آئین منظوری کے بعد نافذ العمل ہو جائے گا۔ یہ کام 27 اکتوبر کو ہونا تھا مگر تین روز قبل ہی اسمبلی توڑ دی گئی۔
گورنر جنرل نے دفاعی عدالت میں اپیل کر دی۔ بدقسمتی سے اْس کے سربراہ جسٹس محمد منیر تھے۔ جسٹس منیر شدید مخمصے میں پھنس گئے۔ ایک طرف آئین‘انصاف اور اْن کا علمبردار مولوی تمیزالدین تھا اور دوسری طرف اْن کا قرابت دار سربراہ مملکت۔فیصلہ کرنے اور مولوی صاحب کے روزِ روشن کی طرح واضح موقف کو تسلیم کرنے (جس کی سندھ ہائی کورٹ توثیق کر چکی تھی)کی بجائے یہ Rulingدی کہ عدالت کے سامنے جو مقدمہ پیش ہوا اُس میں Issues قانونی نہیں بلکہ سیاسی ہیں اس لئے بہتر ہوگا کہ فریقین آپس میں سمجھوتہ کر لیں اور مولوی صاحب اپنی درخواست واپس لے لیں۔ مولوی صاحب نے سمجھوتے کی ایک ہی شرط پیش کی کہ گورنر جنرل اپنا فرمان واپس لے اور آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بلائے جبکہ اسمبلی آئین سازی نہ کرے گی اور گورنر جنرل مقررہ معیاد کے اندر نئی اسمبلی کے اراکین کا اجلاس بلائیں جو آئین بنائے۔ یہ شرط ملک غلام محمد کیلئے قابلِ قبول نہ تھی۔ مجبوراً سپریم کورٹ کو مولوی صاحب کے حق میں دیے گئے فیصلے کے خلاف گورنر جنرل کی اپیل سننی پڑی۔ فیڈرل کورٹ کے جج صاحبان کی اکثریت نے اپیل منظور کر لی۔ اس طرح آنے والے چار مارشل لاء کا راستہ کھل گیا۔
جناب مجیب الرحمن شامی نے بتایا کہ جب پاکستان بنا تو یہاں کانگرس کے بر عکس تجربہ کار سیاستدانوں کی کمی تھی۔مسلم لیگ کی تنظیم مثالی نہیں تھی۔ مسلم لیگ تحریک کی صورت میں اٹھی پاکستان بن گیا۔ہماری لیڈرشپ ویسی صلاحیت نہیں رکھتی تھی جو دور اندیش ہو۔بھارت کو بنی بنائی سٹیٹ مل گئی پرائم منسٹر انڈیا پنڈت نہرو نے ماؤنٹ بیٹن کے تسلسل کو قائم رکھا۔ پاکستان کو نئی سٹیٹ کا سٹرکچر از سر نو قائم کرنا تھا،جس سے سول سروس اچھی طرح عہدہ برآ ہوئی۔ چودھری محمد علی اور ان کے رفقاء تربیت یافتہ تھے جنہوں نے بنیادی سٹرکچر کھڑا کرنے میں اچھا کردار ادا کیا۔
ابتداً میجر جنرل سکندر مرزاصدر بنے،پھر جنرل ایوب اور پھر جنرل یحییٰ، جن کے دور حکومت میں پاکستان دو لخت ہوا اور مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ اداروں کی کشمکش آج بھی مسلسل جاری ہے۔جمہوری ملکوں میں ایسا نہیں ہوتاکہ جہاں چار لوگ اکٹھے ہوں یہ بحث شروع ہو جائے کہ ملک کا کیا بنے گا؟ حکومت کا کیا بنے گا؟
مارشل لاء دور میں سیاست میں فوج کی اتنی دخل اندازی نہیں تھی جتنی اب ہے۔بھارت میں دیکھیں، انتخاب ختم جھگڑے ختم۔حکومت بن جاتی ہے ہمارے ہاں انتخاب کے بعد دوسرے ہنگامے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ ہمارے وزیراعظم نے کہا ہے کہ بھارت سے آ گے نہ نکل جائیں تو میرا نام شہباز نہیں ہے۔ایجوکیشن پر جی۔ ڈی۔ پی کا صرف ڈیڑھ فی صد جبکہ بھارت سات فی صد خرچ کر رہا ہے۔ مقابلہ اس میں ہونا چاہیے۔ ہم ایجوکیشن پر انویسٹ نہیں کر رہے۔ ہمارے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے جبکہ بھارت کی سوا ارب آبادی کے ڈیڑھ کروڑ نہیں پڑھ رہے۔ سکول و تعلیم ہماری ترجیحات میں نہیں ہے۔ ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ کرائسز میں ہم سنبھل جاتے ہیں۔ اس پر آ ئی۔ ایم۔ایف والے بھی حیران ہیں۔پاکستان کا مستقبل، اداروں اور سیا ست دانوں کے رویوں پر منحصر ہے۔ تب ہی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
مستحسن رضوی، افتخار ملک، مولوی ذیشان، مزمل ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر انوار احمد بگوی صاحب کے سوالات کے جواب میں شامی صاحب نے کہا کہ سیاست دان اور ادارے آئین اور ضوابط کی پابندی کریں۔ ساز باز نہ کریں۔ نواز شریف کو تجویز دی تھی کہ آئین میں لکھوا دیں کہ سب سے سینئر ہی آرمی چیف بنے گا۔اس پر نواز شریف نے توجہ دی اور نہ عمران خان نے۔بھارت نے پہلے ہی دن سے یہ طے کر دیا تھا کہ سب سے سینئر ہی،آرمی چیف بنے گا، ایکٹینشن نہیں ہو گی۔ فوجی طاقت کے بل پر ملک کھڑا ہے۔ اس سے الجھے تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ہم ایجی ٹیشنز افورڈ نہیں کر سکتے۔اسلامی نظام کے بارے میں آپ کو معلوم ہے کہ قرارداد مقاصد کو پیش نظر رکھ کر، قانون سازی کی گئی تھی۔ تربیت کے ادارے بھی سیاست میں الجھ گئے ہیں۔ ہم بہتر مسلمان بنیں گے تو اسلامی نظام بھی آ جائے گا۔خلافت راشدہ میں بھی اتنے اسلامی قوانین نہیں بنے تھے، جتنے ہم نے بنا لیے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہو رہا ہم سب کرسیوں کے کھیل میں لگ گئے۔
تعلیمی اداروں کا رول بھی گڑبڑ ہے۔ہم سے پہلے زمانے میں چوتھی کے بعد انگریزی شروع ہوتی تھی، ہمارے زمانے میں چھٹی میں انگلش لازمی ہو جاتی تھی اور کام ٹھیک سے چل رہا تھا۔جنرل ضیاء دورمیں کہا گیا کہ ذریعہ تعلیم اردو میڈیم، مکمل طور پر کر دیا جائے گا۔ چیف کالج اور لارنس کالج کو استثنیٰ دیا گیا۔اس کی آڑ میں اللہ دے اور بندہ لے۔ اب او۔ اے لیول کے امتحا نی پرچے برطانیہ جاتے ہیں جہاں ان کی مارکنگ ہوتی ہے۔ اس طرح قیمتی زر مبادلہ کروڑوں ڈالر کی شکل میں ہم لٹارہے ہیں۔
1980ء تک انگلش میڈیم لوکل تھا۔بھارت میں 40 زبانوں کے باوجود مدراس سے کلکتہ تک ایجوکیشن سسٹم ایک لڑی میں پرو دیا گیا ہے۔ ہندی کمپلسری ہے۔ ہماری آبادی بے تحاشہ بڑھ رہی ہے اقتدار والے حکومت بچانا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن والے انہیں دھکا دیکر حکومت میں آنا چاہتے ہیں۔نئی نسل ان سکلڈ ہے ان کو ہنر مند بنانا چاہئے۔