نئی نسل کو شاید علم نہ ہو کہ پرانے وقتوں میں ریل کا سفر کیسا تکلیف دہ اور ہیجان انگیز ہواکرتا تھا جو مدتوں یاد رہتا تھاپھر بھی لوگ سفر کیلیے بیتاب رہتے تھے

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:66
سیکنڈ کلاس، (SEC)
پچھلے وقتوں کے تھرڈ کلاس کے ڈبے کو تھوڑا سا عزت کا نام اور مقام دے کر سیکنڈ کلاس کہنا شروع کر دیا گیا ہے تاکہ اس میں بیٹھنے والے مسافر بھی اپنے آپ کو درمیانے درجہ کا شہری سمجھ سکیں۔ یہ ایک عام سا ڈبہ ہوتا ہے جس میں نشستوں کی بکنگ نہ ہونے کی وجہ سے ٹھونس ٹھونس کر مسافر بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ پہلے آؤ،پہلے پاؤ کی بنیاد پر جلدی آنے والے مسافر نشستوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور تاخیر کردینے والوں یا راستے میں سے چڑھنے والوں کے مقدر میں فرشی نشستیں ہوتی ہیں جہاں وہ اپنا سامان رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ راہ داری سے گزر کر جانے والوں کو ان کے اْوپر سے پھلانگ کر آگے جانا پڑتا ہے۔
گاڑی کے ڈبوں کو ایک خاص ترتیب سے انجن کی ساتھ لگایا جاتا ہے اور ہر ڈبے پر مخصوص نمبر لگا دیا جاتا ہے۔ٹکٹوں پر ڈبہ نمبر لکھا ہوتا ہے اس لیے مسافر ادھر اْدھر بھٹکنے کے بجائے نمبر دیکھتے ہوئے اپنے مطلوبہ ڈبے تک جا پہنچتے ہیں۔ترقی یافتہ ملکوں میں پلیٹ فارم کے فرش پر سفید رنگ سے ایک چوکور نشان لگا کر اس پر بڑے بڑے حروف میں ڈبے کے نمبر ایک ترتیب سے لکھ دئیے جاتے ہیں، گاڑی آنے سے قبل ہی لوگ ٹکٹ پر لکھے گئے اپنے ڈبے کیمطابق سامان لے کر اس نمبر کے خانے کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور گاڑی جب آ کر اسٹیشن پر ٹھہرتی ہے تو ان مسافروں کی بوگی کا دروازہ عین ان کے سامنے آن کر رکتا ہے۔ اور اس کو بے جا ادھر اْدھر بھاگ دوڑ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔اب تو نئی نسل کو شاید علم بھی نہ ہو کہ پْرانے وقتوں میں ریل کا سفر کیسا تکلیف دہ اور ہیجان انگیز ہواکرتا تھا جو مدتوں بعد بھی یاد رہتا تھا۔ اتنی مشکلات کے باوجود لوگ ہمیشہ اس سفر کے لیے تیار بلکہ بیتاب رہتے تھے۔
کچھ اور ڈبے
مسافر ڈبوں کے علاوہ کچھ اور ڈبے بھی گاڑی کیساتھ لگائے جاتے تھے، ان کا تعلق مسافروں سے براہ راست نہ ہونے کے باوجود گاڑی سے ضرور ہوتا ہے ان میں چند ایک یہ ہوتے ہیں۔
پاور وین
ابتدائی دور میں جب ریل گاڑی چلی تھی تو مسافروں کے ڈبوں میں تیل کے لیمپ اور دئیے جلائے جاتے تھے۔ جو ڈبے میں بیٹھے لوگوں کو تھوڑی بہت روشنی مہیاکردیتے تھے۔ تاہم ان کی دیکھ بھال اور تیل بتی کی مسلسل فراہمی کوئی ایسا آسان کام بھی نہ تھا بہر حال جب تک برقی روشنی ڈبوں میں نہ پہنچی تھی تو یوں ہی گزارا چلتا رہا۔ اسی طرح جب ڈبوں میں مسافروں کا دم گھٹنے لگتا تو کھڑکیاں کھول دی جاتی تھیں جس سے جلتے بدن کو کچھ سکون تو مل جاتا تھا لیکن اس سے اتنی دھول مٹی اْڑ کر اندر آ جاتی تھی کہ اسٹیشن پر اْتر کر خود کو باقاعدہ شناخت کرنا اور کروانا پڑتا تھا، اورسامان پربھی پھونکیں مار مار کر یہ مٹی اْڑانا پڑتی تھی۔ سردیوں میں ٹھنڈی ہوا اور شدید گرمیوں میں لو کے تھپیڑیجان نکال دیتے تھے۔
اس دوران بجلی آن پہنچی اور محکمہ والوں نے باقائدگی سے اس کی فراہمی کا انتظام بھی کر لیا تھا۔ شروع میں گاڑی میں ایک جنریٹر لگا دیا جاتا تھا جس کو انجن کی شافٹ کیساتھ منسلک کر دیا جاتا اور اس کے ساتھ ہی ایک بڑی سی بیٹری بھی رکھ دی جاتی تھی جو ساتھ ساتھ مسلسل چارج ہوتی رہتی تھی اس جنریٹر سے گاڑی میں 12 وولٹ ڈی سی کا کرنٹ دوڑتا رہتا تھا۔ جس سے کم از کم روشنیاں اور پنکھے چلتے رہتے تھے۔ شروع میں مسئلہ یہ تھا کہ جیسے ہی انجن گاڑی سے علیٰحدہ ہوتا تو برقی رو بھی منقطع ہو جاتی تھی اور اس وقت تک ساری گاڑی میں اندھیرا چھایا رہتا جب تک کہ انجن دوبارہ آ کر نہ لگ جاتا۔ ورنہ پھرپلیٹ فارم پر کھڑی ہوئی گاڑی کے لیے وہیں اسٹیشن سے ہی بجلی اْدھار پکڑ کر کام چلا لیا جاتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔