بہتر ہو گا کہ بچے کی اس کہانی کو ”گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ“ میں شامل کیا جائے.... یہ1979ءکی بات ہے کہ پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین کے عہدے کے لئے انتخابات ہو رہے تھے۔ یہ ماہ ستمبر تھا ،ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، زمین پر کیچڑ تھا اور اس طرح خطرناک پھسلن موجود تھی، سارے پنجاب کے وکلاءکے نمائندے ہر سال ایک سال کے لئے اپنا وائس چیئرمین منتخب کرتے ہیں، اِس انتخاب میں خود مَیں بھی حصہ لے رہا تھا، چنانچہ پورے پنجاب میں انتخابی مہم چلا رکھی تھی۔ اٹک اور راولپنڈی سے ہو کر براستہ ڈسکہ سیالکوٹ واپس لاہور آ رہا تھا۔ میرا واحد بیٹا فرخ افراسیاب اور بیٹی فوقیہ میرے ساتھ کار میں محو سفر تھے، بیٹے کی عمر سات آٹھ سال، جبکہ بیٹی مشکل سے پانچ سال کی ہو گی۔ یہ دونوں بچے اپنی خالہ بیگم میجر جنرل (سابق) سعید اختر کے گھر ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ واپسی پر یہ دونوں بچے میرے ساتھ چل پڑے۔ نئی ٹیوٹا کرولا کار ڈرائیور چلا رہا تھا۔ مَیں ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا، دونوں بچے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وزیر آباد سے تھوڑی دُور آگے پہنچے تو کچی سڑک شروع ہو گئی۔ آگے ایک پُل تھا۔ پُل سے آگے آئے تو ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی تھی۔ بدقسمتی سے تیز رفتاری کی وجہ سے گاڑی کچے راستے سے پھسل کر بائیں جانب ایک درخت سے جا ٹکرائی۔ سوائے انجن کے تمام گاڑی بُری طرح تباہ ہو گئی تھی۔ ڈرائیور اور مَیں دونوں شدید زخمی ہو کر بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔ یہ علاقہ غیر آباد تھا۔ دُور دُور تک آبادی کا کوئی نشان نہ تھا،اِسی طرح کچی سڑک کی وجہ سے کوئی آمدورفت نہیں تھی، خوش قسمتی سے دونوں بچے صحیح سلامت پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ بیٹی فوقیہ نے زور زور سے رونا شروع کر دیا، جبکہ بیٹا اُس کو تسلی دینے میں مصروف تھا۔ بیٹے فرخ افراسیاب نے بڑی بہادری اور عقل مندی سے ڈرائیونگ سیٹ کو سنبھال لیا۔ ہم دونوں زخمیوں کو اپنی اپنی جگہوں پر بٹھا دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ تھی کہ سات، آٹھ سال کا بچہ تباہ شدہ کار کو چلا رہا تھا۔ وہ ہمیں موت کے منُہ سے بچا کر ڈسکہ تک لے آیا۔ مجھے سخت سردی لگی ہوئی تھی، مجھے ضربات کی وجہ سے تیز بخار ہو گیا۔ پتہ چلا کہ میرے دائیں بازو کی نرم ہڈی ٹوٹ چکی تھی، اس سے سخت درد محسوس ہو رہا تھا۔ ڈسکہ پہنچ کر کسی اور کی گاڑی پر لاہور آ گئے۔
خدا کی قدرت دیکھئے کہ یہ وہی بچہ فرخ تھا ، جس کو مَیں گاڑی چلانے سے سخت منع کرتا تھا، مگر وہ مجھ سے چوری چوری گاڑی چلانا سیکھ چکا تھا۔ اگر وہ ڈرائیونگ نہ جانتا ہوتا تو میری اور میرے ڈرائیور کی موت یقینی تھی۔کیا یہ بہترنہیں ہو گا کہ ہم اپنے ابتدائی تعلیمی اداروں سے ”سب کو ڈرائیونگ لازمی سکھائی جائے“۔ یہ موجودہ دور کی بہت بڑی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ آپ بھی حیران ہوں گے کہ مجھے ڈرائیونگ کی بات کیسے یاد آ گئی، افسوس کہ مَیںڈرائیونگ آج تک نہیں سیکھ سکا ہوں۔ مجھے ڈرائیونگ سیکھنے کی تمنا ضرور ہے۔ آخر یہ تمنا بھی پوری ہو گی۔ 35سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی میرے بائیں بازو کی کلائی کا درد اچانک جاگ اُٹھاہے۔ مَیں نے دوائی لگوا کر کلائی پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ یہ35سال پرانا حادثے کا واقعہ پٹی باندھنے سے دوبارہ نظروں کے سامنے آ گیا ہے۔ درد کی شدت موجود ہے۔ بائیں بازو کی چوٹ کوئی خفیہ نکل آئی ہے۔ ظاہری طور پر اِس طرح کا مجھے کوئی زخم نہ آیا تھا۔ ”اسلام تو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بجائی گویا اس نے سارے جہان کو بچا لیا“۔
یہ وہی بچہ ہے، جو آج شادی شدہ ہوکر تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ بنا ہوا ہے، اُس کے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ بیٹا ابراہیم افراسیاب ”سوہلی ہل“ برطانیہ کے سکول میں پڑھ رہا ہے، کیا حکومت برطانیہ اپنے ہی ایک بہادر شہری”افراسیاب“ کو بہادری کے عوض جس کا مختصر سا ذکر اوپر ہوا ہے، بہادری کا سب سے بڑا اعزاز دینے پر غور کرے گی؟ سچ سچ ہوتا ہے چاہے اس کا سو سال بعد ہی علم کیوں نہ ہو؟ مَیں سپریم کورٹ آف پاکستان کا سابق جج ہوں۔ توقع ہے کہ میری بات اور درخواست پر ضرور غور ہو گا۔ لازمی ہو گا کہ ہمارا اپنا سفارت خانہ پہلے حرکت میں آئے، وہ حادثے سے متعلق پوری تحقیق کرے، پھر رپورٹ تیار کر کے برائے احکام حکومت وقت کے سامنے رکھے۔
خوشی ہے کہ آج کل ”پیپل فرینڈلی“ حکومت موجودہے، جس کے سربراہ مسٹر جسٹس میر ہزار خان کھوسو ہیں۔ توقع ہے کہ اس حادثے پر ضرور کوئی کارروائی کریں گے۔ اس وقت کے ایک بچے ”فرخ افراسیاب ولد جسٹس راجہ افراسیاب“ 478/4-III محمد علی جوہر ٹاون کی بہادری پر مبنی کارنامے کا نوٹس لیں گے اور اس کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازیں گے۔ مَیں بچوں کی دُنیا کے ایک تاریخی واقعہ کو منظر عام پر لایا ہوں۔ آگے اُس پر عمل کرنا یا نہ کرنا حکومت وقت کا کام ہو گا۔ یہ ایک خوشی کی بات ہے ”فرخ افراسیاب“ جیسے ذہین اور بہادر بچے سرزمین پاکستان میں پیدا ہوئے۔ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ زیادہ تر حادثات ناقص اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ تمام گاﺅں اور شہروں میں کشادہ اور پختہ سڑکوں کا جال بچھا دیا جائے۔ ایسا کرنے سے حادثات میں کمی ہو گی، عام لوگوں میں ”روڈلاز“ کا شعور اجاگر کیا جائے۔ وسیع پیمانے پر اس کام کو پاکستان کی تمام درس گاہوں سے شروع کیا جائے۔پاکستان ٹیلی ویژن کو اس کام کو پاکستان کی کامیابی کا ایک ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کام کل نہیں آج سے ہی شروع کیا جائے۔
یہ بات اپنی جگہ سچائی پر مبنی ہے کہ دُنیا میں بچے بڑے بڑے کام نڈر ہو کر کامیابی سے سرانجام دیتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب افواج میں جوانوں کی کمی محسوس ہوئی، تو اس وقت ہٹلر نے خود بچوں پر مشتمل ایک بڑی فوج تشکیل دی تھی، جس کے کارنامے تاریخ عالم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ تو ایک انتہائی سوچ ہوا کرتی ہے۔ 1947ءکی جنگ آزادی میں کم عمر نوجوانوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ بذات خود مَیں 11،12سال کی عمر میں ہوتے ہوئے میرپور محاذ پر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ آزادی کی تحریک میں حصہ لینے چلا گیا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ صرف سپاہی بن کر ملک کی خدمات سرانجام دینا اور کہاں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ”سپریم کورٹ“ کا جج بن کر انصاف کا کام کرنا؟
ویسے تو میرے نزدیک یہ دونوں کام کسی بھی شہروی کے لئے ”افضل ترین“ ہیں۔ سپاہی تو رات کے اندھیروں میں بھی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ خوفناک جنگوں میں حصہ لے کر اپنے ملک کی حفاظت کرتا ہے۔1947ءمیں میری تعلیم ختم ہو چکی تھی، پاکستان میں داخل ہوتے ہی قسمت نے پلٹا کھایا اور مَیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ یہ قدرت کا میرے لئے ایک بڑا معجزہ تھا کہ چھوڑی ہوئی تعلیم کو دوبارہ کس طرح حاصل کرنا شروع کیا تھا۔ مختصر یہ کہ سکول جاتے بچوں کو دیکھ کر خود مجھے بھی سکول جانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ کتنے دُکھ اور افسوس کا مقام ہے آج بھی پاکستان کے دو تین کروڑ فرخ افراسیاب جیسے ذہین بچے تعلیم سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ یہ بچے آوارہ گردی کرتے ہیں، چوری چکاری کے چھوٹے بڑے کام بھی کرتے ہیں، ان بچوں سے گدا گری کا بھی عام کام لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اَن گنت ”قافیہ“ اس مکروہ کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ وقت تھا کہ قوم اِن تمام بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرتی، کیا یہ سب ہمارے اپنے بچے نہیں ہیں؟ قانون تو موجود ہے، مگر اس قانون پر عمل ہر گز نہیں ہو رہا ہے۔
محترم مسٹر جسٹس میر ہزار خان کھوسو وزیراعظم پاکستان اس طرف توجہ دیں اور قانون کی طاقت پر سکول سے باہر تمام بچوں کو سکولوں میں داخل کروا دیں۔ یہ اُن کا زندگی بھر کا سب سے بڑا کام ہو گا۔ قوم اُن کو ہمیشہ ہمیشہ کے اپنے محسن کے طور پر یاد رکھے گی۔ برصغیر کے تمام مسلمان آج بھی سر سید احمد خان کو انتہائی عزت و احترام سے یاد کرتے ہیں۔ تعلیم ہی تو اُن کی زندگی بھر کا مشن تھا۔ آپ اس چھوڑے ہوئے مشن کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچائیں۔ قوانین بنائیں اور ان پر عمل کریں، آنے والی تمام حکومتیں اُن قوانین پر عمل کریں گی، قومی بجٹ کا کم از کم 7فیصد صرف تعلیم کی مد پر خرچ کریں۔ اس قومی کام کا آغاز سرزمین بلوچستان سے شروع کریں۔ آئندہ پانچ سال میں100فیصد تعلیم کا ہدف حاصل کریں۔ ہمارے بیدار ہونے کا وقت آ گیا ہے ہمیں ”ملالہ یوسف زئی“ کے عظیم مشن پر چلنے کی ضرورت ہے، جو لوگ ملالہ کی مخالفت کرتے ہیں، وہ لوگ واقعی اندھیروں میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو اِن اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ٭