زماجاناناں مڑبہ می کے

زماجاناناں مڑبہ می کے
 زماجاناناں مڑبہ می کے
کیپشن: tariq mateen

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پی ٹی آئی نے جو میڈیم سائز جلسہ مہینے سے اوپر لگا کر کیا اس کے مقابلے میں ڈبل ایکس ایل جلسہ ایم کیو ایم چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے کے نوٹس پر کردیا کرتی ہے ۔ ایکس ایس سائز کا جلسہ ق لیگ یونائیٹڈ اسٹیٹس آف گجرات میں جبکہ ایل سائز کا جلسہ جماعت اسلامی کسی بھی شہر میں کردیا کرتی ہے۔ ن لیگ پنجاب کے کسی بھی شہر میں ایکسٹرا لارج جلسے، خیبر پختونخواہ میں لارج جلسے اور سندھ میں کارنر میٹنگز کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ مولانا ڈیروی ول کشمیری ول ڈیزلوی بھی کچھ شہروں میں سائز ایم جلسے کرلیا کرتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی بوجوہ کچھ عرصے سے جلسے دینے میں کڑک ہے لیکن اس موازنے کا مقصد پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کی مقناطیسی صلاحیت کا تقابلی جائزہ لینا ہرگز ہرگز نہیں ۔ ایم کیو ایم جن دو شہروں میں عظیم الشان جلسے کرسکتی ہے وہاں ایم کیو ایم کی طاقت کسی بھی جماعت سے کہیں زیادہ ہے۔ ن لیگ پنجاب میں ہٹ ہے اور ق لیگ گجرات میں ۔ جماعت اسلامی جلسوں اور انسانی زینجروں کی کامیابی میں ماہر ہے مگر اس کامیابی کو وہ انتخابی کامیابی میں تبدیل نہیں کرپاتی ۔ جلسے تو علامہ مولانا طاہر القادری بھی کیا کرتے ہیں مگر ان کا جلسہ ہوتا کیوں ہے میں کبھی سمجھ نہیں پایا اور نہ ہی سمجھنا چاہتا ہوں ۔

 گیارہ مئی کا جلسہ کیسا تھا یہ موضوع جلسے کی ٹائمنگ ،اس کے مقاصد اور ان مقاصد سے کہیں زیادہ اس جلسے کے بارے میں پاکستان تحریک الزام کے بلند و بانگ دعووں کے باعث اگلے کچھ دن تو زندہ رہے گا ۔عمران خان کے اس جلسے کے بارے میں حکومت کہتی ہے کہ سونامی بوڑھی ہوگئی ہے اور جلسے کے شرکاءکی تعداد بیس ہزار کے قریب تھی ۔ کچھ آزاد ذرائع اسے ڈھائی سے تین لاکھ اور کچھ تیس سے پینتیس ہزار قرار دیتے ہیں۔ مختلف آزاد ذرائع میں اتنا کھلا تضاد خود ایک لطیفہ ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے درجہ دوم کے کچھ لیڈرز نے خود مجھے بتا یا کہ پچاس ہزار لوگ تو تھے (درجہ اول کے لیڈروں تک میری رسائی نہیں بالکل اسی طرح جس طرح درجہ اول کے سیب تک ایک غریب کی رسائی نہیں ہوا کرتی )۔اب پچاس ہزار کے جلسے کو سونامی کہنا کتنا مناسب ہے فیصلہ آپ خود کرلیں۔اس جلسے کو عوام تک پہنچانے کے لیے تعاون کیا تھا جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ نے جبکہ دیگر اشتراک میں شامل تھے ” وہ “۔ اس تمام طاقت کے ساتھ جلسے کو ایک طاقت ہونا چاہیے تھا مگر عمران خان کے ابتدائی کلمات ” آپ نے مری عزت رکھ لی “ بتا گئے کہ خود خان صاحب کا یقین کتنا متزلزل تھا ۔میری ذاتی رائے میں شرکاءکی تعداد کے لحاظ سے یہ جلسہ ایک میڈیم سائز جلسہ تھا جس کا الاسٹک دونوں ہاتھوں میں پھنسا کر کھینچ کے دکھایا گیا کہ یہ دیکھو یہ ”ا  ت  ن ا “ بڑا ہے ۔ بہرحال زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جلسے میں اہم بات کیا تھی ؟ تو اہم بات یہ ہے کہ جلسے میں اہم بات کوئی نہیں تھی ۔ عمران خان کی تقریر میں جو باتیں تھیں وہ یا تو اسٹینڈرڈ باتیں تھیں یا پرانی باتیں تھیں ۔ اسٹینڈرڈ باتیں کرنا بہت آسان ہے مثلا کسی بھی کرکٹ میچ سے پہلے دونوں کپتان یہ کہتے ہیں کہ ہم جیت کا عزم لے کر میدان میں اتریں گے یا یہ کہ ہم مثبت کھیل کھیلیں گے اور یہ بھی کہ مد مقابل کو آسان نہیں لیں گے ۔ اسٹینڈرڈ باتوں میں خان صاحب نے فرمایا کہ آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے ۔ الیکشن فری اینڈ فیئر ہونا چاہیے (خان صاحب کے جلسے دیکھ کر تو فیئر اینڈ لولی ہوجایا کرتا ہے )۔ خان صاحب نے اپنی اسٹینڈرڈ باتوں میں یہ بھی فرمادیا کہ صاف شفاف الیکشن سے جمہوریت مضبوط ہوا کرتی ہے ۔ ان اسٹینڈرڈ باتوں سے نہ تواختلاف ممکن ہے اور نہ ہی کوئی اختلاف کرے گا ۔ اب ذکر خان صاحب کی پرانی باتوں کا تو خان صاحب نے ایک بار پھر وہی ساز چھیڑا کہ:
 نیوٹرل امپائر کے ساتھ کھیلنا سیکھو ۔
 دھاندلی ہوئی ۔
 جنون نہیں روک سکتے ۔
دونمبری سے اسمبلی میں آنے والے شریف کیسے بن سکتے ہیں ۔
جن کا اپنا پیسہ باہر ہو وہ سرمایہ کاری کیسے لائیں گے۔
چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق ۔
ڈر کس بات ہے ۔
پینتیس پنکچر ۔
دھاندلی کا پتہ لگاو¿ ۔
ہر در پہ دستک دی اور ایسا ہی بہت کچھ جو خان صاحب کہتے آرہے ہیں ۔

 تقریر میں چند نئی باتیں بھی تھیں جیسے کہ ہر ہفتے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج ہوگا ۔اس احتجاج کا مقصد کیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کا کام الیکشن کرانا تھا وہ ہوچکے اب یہ ادارہ اپنی تشکیل نو خود تو کرنے سے رہا ۔ نہ ہی ایک چلتے ہوئے سسٹم میں یہ ادارہ نئے عام انتخابات کی تاریخ دینے کا مجاز ہے ۔ اس کے استعفوں کا مطالبہ تو وہ بھی ایسے پورا نہیں ہوگا ۔
 ایک نسبتاً نئی بات یہ بھی کہ احتجاجی تحریک کا آغاز ہوگیا اور آخری حد تک جاو¿ں گا تحریک کے آغاز کے بعد آخری حد کیا ہوا کرتی ہے ۔ عدالت میں دی گئی درخواست جلسے میں آکر مطالبہ بن جائے تو کیا ہوا کرتا ہے ۔ایسے عزائم کا انجام ”اختتام “ ہوا کرتا ہے ۔ اگر کشتیاں جلادی جائیں تو نتیجہ مکمل ڈوبنا یا مکمل ڈبونا ہوا کرتا ہے تو کوئی تیسرا نتیجہ ممکن نہیں ۔ مگر کشتیا ں جلانے والے کچھ اور ہوا کرتے ہیں سرپھرے اور نتائج کی پروا نہ کرنے والے لیکن خان صاحب مصلحت پسند جنونی ہیں ۔ خان صاحب نے اس سے پہلے بھی بہت کچھ صرف کہا ہے کیا نہیں ہے ۔ انہوں نے پی ٹی آئی ورکرز سے زہرہ حسین کے قتل کے بعد کئی وعدے کیے ۔ پورا ایک بھی نہیں کیا ۔اسپتال کے بستر پر موجود خان صاحب نے قتل کے چند لمحوں بعد ایم کیو ایم کے رہ نما الطاف حسین کو اس کا براہ راست ذمے دار قرار دے دیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ آخری حد تک جائیں گے ۔ کہاں تک گئے کیا بیان کرنا ۔اس سے پہلے بھی خان صاحب نے الطاف حسین کے خلاف ایک بین الاقوامی محاذ کھولا تھا ۔ جسے انہوں نے کھلا ہی چھوڑ دیا ۔ خان صاحب نے خیبرپختونخوا کے عوام سے کئی وعدے کیے اور اب کے پی کے کہہ رہا ہے ” زما جاناناں مڑبہ می کے “ ۔ ایک بار پھر خان صاحب نے میر شکیل الرحمان کے خلاف دبئی تک جانے کا اعلان کیا ہے اور وہ کریں گے کیا ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہم سبھی واقف ہیں ۔ خان صاحب نے اپنی جماعت کو جمہوری بنانے کا اعلان کیا اور شفاف انٹرا پارٹی الیکشن کا اعلان بھی اور اس کے بعد خود بار بار روتے رہے کہ ایسا نہیں ہوسکا جگہ جگہ پارٹی پر قبضہ ہوگیا ۔خان صاحب نے انتخابات کو مانا دھاندلی کو نہیں بالکل اسی طرح انہوں نے اپنی جماعت میں بھی دھاندلی کو نہیں مانا انتخابات کو مان لیا سب کچھ ویسے ہی چل رہا ہے اور خان صاحب کی پی ٹی آئی کی طرح پاکستان میں بھی سب کچھ ویسے ہی چلتا رہے گا کیونکہ خاں صاحب اکسٹھ سال کے بچے ہیں اور بچے شور بہت کرتے ہیں ۔  ٭

مزید :

کالم -