کینیا میں پُرتشدد کارروائیاں

کینیا مشرقی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے۔ یہ بھی اکثر افریقی ممالک کی طرح کثیرالقومیتی اور کثیراللسانی ملک ہے۔ یہاں کی آبادی کا تناسب وہی شخص جان سکتا ہے جو خود کینیا میں رہ کر حالات کا جائزہ لے۔ سرکاری اور مغربی اداروں کے اعداد وشمار خاصے متنازعہ معلوم ہوتے ہیں۔ ملک کی کل آبادی2009ء کی مردم شماری میں تین کروڑ، چھیاسی لاکھ دس ہزار ستانوے ریکارڈ کی گئی۔ اس وقت آبادی کا تخمینہ اضافۂ آبادی کے حساب سے ساڑھے چار کروڑ سے زائد لگایا جاتا ہے۔ عیسائی آبادی (تمام عیسائی فرقوں کو شامل کرکے) چالیس سے پینتالیس فیصد ہے۔ مسلمان پچیس سے تیس فیصد کے درمیان ہیں، جبکہ باقی آبادی قدیم افریقی مذاہب، روایت پرست، بت پرست یا لامذہب قبائل پر مشتمل ہے۔ مشنری ادارے اور مغربی این جی اوز مسلمانوں کے علاوہ تمام آبادیوں کو عیسائی شمار کرلیتے ہیں۔ کینیا 1963ء میں برطانوی استعمار سے آزاد ہوا تھا۔ یہ آٹھ صوبوں پر مشتمل ہے۔ ساحلی پٹی اور سمندری جزائر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اسی طرح شمال مشرقی صوبہ کم وبیش 90فیصد مسلم آبادی پر مشتمل ہے۔ مشرقی صوبے میں بھی مسلمان عیسائیوں سے نسبتاً زیادہ ہیں۔ صومالیہ کے ساتھ ملحقہ شمالی صوبے میں مسلمان صومالی الاصل ہیں۔ اس صوبے کا دارالحکومت گریسا(Garissa) ہے۔
2؍اپریل2015ء جمعرات کے دن گریسا میں سرکاری یونیورسٹی کے گریسا کالج ہاسٹل پر صومالیہ میں برسرپیکار عسکری تنظیم الشباب نے طلبہ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 147افراد مارے گئے۔ ان میں اکثریت طلبہ کی تھی ،جبکہ سٹاف اور الگ عملے کے لوگ بھی شامل تھے۔ یہ سب نہایت سفّاکی اور بے دردی سے ہلاک کردیئے گئے۔ ایک بہت تشویشناک بات یہ تھی کہ حملہ آوروں نے ہاسٹل پر قبضہ کرکے پہلے اعلان کیا کہ مسلمان طلبہ الگ ہوجائیں۔ انھیں حکم دیا گیا کہ وہ بھاگ جائیں۔ پھر باقی ماندہ طلبہ اور عملے پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ نیروبی سے نکلنے والے مسلمانوں کے ہفت روزہ ترجمان ’’فرائیڈے بلٹن‘‘ شمارہ نمبر623 مورخہ10 اپریل کے مطابق کینیا کی مسلمان آبادی اور مسلم تنظیموں نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور اسے ایک گہری سازش قرار دیا۔ نیروبی کی مرکزی جامع مسجد کے امام، شیخ جمعہ امیر اور مسلمان رہنما شیخ سُبقی نے مقتولین کے خاندانوں سے اظہار تعزیت بھی کیا اور متاثرہ خاندانوں میں امداد بھی تقسیم کی۔ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ کینیا میں تمام مذاہب کے لوگ آپس میں امن وامان سے رہتے ہیں۔ ہمیں اس سازش کو سمجھنا اور آپس میں دست وگریبان ہونے کی بجائے ایک دوسرے کے ممدومعاون اور محافظ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
الشباب نے اس تازہ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس سے قبل 1998ء میں امریکن سفارت خانے پر بھی حملہ ہوا تھا جس میں کئی لوگ مارے گئے تھے۔ اس حملے میں کون ملوث تھے؟ یہ تو ثابت نہیں ہوسکا، مگر الزام مقامی مسلمانوں پر ہی لگا تھا،جس کے بعد بہت سے نوجوانوں کو سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ گذشتہ سال کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے ایک متمول محلے ویسٹ لینڈ میں ویسٹ گیٹ شاپنگ سنٹر پر اچانک حملہ کرکے دن دیہاڑے 70 گاہکوں اور دکانداروں کو قتل کردیا گیا تھا، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے میں تمام حملہ آور بھی سیکیورٹی اداروں کی کارروائی میں مارے گئے تھے۔ دس بارہ سال سے صومالیہ میں حکومت کے ساتھ الشباب کی جھڑپیں اور جنگیں ہوتی رہتی ہیں۔ الشباب کے لوگ اپنا تعلق القاعدہ سے جوڑتے ہیں۔ کینیا اور صومالیہ کی حکومتیں آپس میں ایک دوسرے سے دوستانہ تعلقات رکھتی ہیں۔ ان واقعات سے بحیثیت مجموعی کینیا میں سرگرم عمل اسلامی تنظیموں اور اداروں کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہی واقعات کو بنیاد بنا کر بہت بے گناہ مسلمان علماء،سکالر اور دیگر شخصیات کے خلاف کارروائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں فورتھ شیڈول کی طرح کینیا میں بھی اسی طرح کے قواعد وضوابط استعمال ہوتے ہیں۔
گریسا کے اس واقعہ کے فوراً بعد کینیا کے صدر مسڑاوہورُو کنیاٹا (Uhuru Kenyatta) نے قوم کے نام اپنے خطاب میں مدارس اور مساجد کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس کے جواب میں مسلمان رہنماؤں نے فوری طور پر صدر کی اس رائے کی تردید کی۔ نیروبی کے مشہور وکیل اور جامع مسجد کمیٹی کے ممبر ابراہیم لتھومے نے ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں کہا کہ مساجد ومدارس میں تشدد کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ دراصل یہ حکومت اور اس کے اداروں کی نااہلی ہے کہ وہ حالات کا صحیح ادراک نہیں کرپاتے اور نہ بروقت خطرات کا تدارک کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ’’سپریم کونسل آف کینیا مسلمز‘‘ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ حسن اولے نادو نے بھی صدر کے خیالات کو اپنے ایک بیان میں مسترد کیا اور کہا کہ حکمرانوں کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنی سرکاری اور عوامی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں۔ ثبوت کے بغیر محض الزامات سے حالات درست ہونے کی بجائے مزید بگڑ سکتے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت گریسا اور اس صوبے کے دیگر علاقے مسلمان آبادی پر مشتمل ہیں۔ اسلامی تنظیم ینگ مسلم ایسوسی ایشن نے آزادی کے بعد ساٹھ عیسوی کے عشرے میں گریسا میں ایک بہت بڑا اسلامی مرکز قائم کیا تھا۔ الحمدللہ یہ اب بھی موجود ہے۔ اس مرکز میں یتیم بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ نظام تعلیم میں عصری اور جدید دونوں نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔ ہاسٹل میں مقیم طلبہ کے علاوہ بہت سے طالب علم اپنے گھروں یا رشتہ داروں کے پاس قیام پذیر ہوتے ہیں۔ چند سال قبل جب اس شہر میں سرکاری یونیورسٹی قائم ہوئی تو اس سے اس اسلامی مرکز کو بھی خاصی تقویت پہنچی۔ اس سے قبل یہاں سے میٹرک اور انٹر کرنے کے بعد طلبہ کو نیروبی، ممباسا، کسومو (Kisumu) یا دیگر بڑے شہروں کی طرف جانا پڑتا تھا، جو یہاں سے خاصے دور واقع ہیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران اسلامی مرکز گریسا اور اسلامک فاؤنڈیشن نیروبی کی طرف سے قائم کردہ دیگر شہروں میں تعلیمی اداروں سے نکلنے والے طلبہ سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اہم سرکاری اور سفارتی عہدوں پر فائز ہیں۔ یونیورسٹیوں میں مسلم یوتھ آرگنائزیشن بھی منظم انداز میں کام کررہی تھی۔ اس طرح کے پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں مسلم یوتھ کا کام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
گریسا کے واقعہ نے ملک بھر میں عمومی طور پر اور تعلیمی اداروں میں بالخصوص خوف وہراس کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس گھمبیرصورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نیروبی یونیورسٹی کے ایک ہوسٹل میں 11اور 12اپریل2015ء کی درمیانی شب، صبح صادق کے وقت ،یعنی مقامی وقت کے مطابق ساڑھے چار بجے ایک زبردست دھماکہ ہوا۔ ایک ڈارمیٹری میں اندھیرا چھا گیا۔ ہر طرف چیخ وپکار شروع ہوگئی۔ لڑکوں کے ہاسٹل کے علاوہ کچھ فاصلے پر لڑکیوں کے ہاسٹل میں بھی ہلچل مچ گئی، ہرجانب سے آوازیں آرہی تھیں کہ دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے، حالانکہ یہ بجلی کا کوئی نقص تھا، جس کی وجہ سے دھماکہ بھی ہوا اور بعض لائنوں کی بجلی غائب ہوگئی۔ اوپر کی منزلوں سے طلبہ نے اپنے کمروں اور بالکونیوں کی کھڑکیوں سے چھلانگیں لگانا شروع کردیں۔ اس کے نتیجے میں ایک طالب علم جاں بحق ہوگیا، جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔ پوری تیسری دنیا اس وقت آتش فشاں کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اس کے پیچھے بڑی طاقتوں اور ان کی ایجنسیوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے، مگر ترقی پذیر مسلم وغیرمسلم ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو خود اپنے حالات درست کرنے کی فکر کرنا ہوگی۔ محض دوسروں کو اس سب کچھ کا ذمہ دار قرار دینے سے حالات سدھر نہیں سکتے۔