سبق
اگر یہ ریاست اپنے آشفتہ مزاجوں کی خبر نہ لے گی تو یہ اپنے گیسو بھی سنوار نہ سکے گی۔ یوں لگتا ہے کہ صولت مرزا کی پھانسی کا پنہاں سبق بھی ضائع جائے گا۔ صولت کی بیوی نے اپنے محبوب شوہر سے آخری ملاقات کی اور روتی رہی۔ اُس کی آنکھ سے آنسو کبھی تھمیں گے، شاید نہیں۔ نسیان کا خدائی وردان اُس کی بیوی کے لئے نہیں،مگر صولت ہمارے نظام کی آخری ہچکی کی کہانی سناتا ہے۔ کوئی دھیان دے گا۔ داغ نے کہاتھاکہ:
تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے
یہ دو بیویوں کی اپنے اپنے شوہروں سے بے پناہ محبت کی کہانی ہے جو اس گلے سڑے نظام میں اپنی اپنی زندگیاں جیتی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے کے برعکس۔۔۔ مگر ایک دوسرے جیسی۔ شاید اِسے افسانے میں ڈھلنا ہے۔ کسی سوفوکلیز کی ڈرامے کے اندوہناک المئے کا روپ لینا ہے۔ یہ کئی کہانیوں کی ایک کہانی ہے۔یہ کرچی کرچی کراچی کا ماجرا ہے۔ یہ بہتے آنسوؤں کا نہ تھمنے والا سیلاب ہے۔ جس کے آگے انسانی جذبوں کا آخری بند بھی کھل جاتا ہے ۔ بقول کسے:
کرچیاں اُٹھانے میں وقت بیت جاتا ہے
درد جیت جاتا ہے
کوئی کراچی کے سمندر پر جاکر چیخ کر پوچھے، ہر بار ایسا ہی کیوں ہوتا ہے؟ درد کیوں جیت جاتا ہے۔ کیا زندگی المیوں سے زندگی پاتی ہے؟کہیں کچھ خطرناک ہو رہا ہے۔ کوئی جاگتا کیوں نہیں؟ کیا کوئی جانتا ہے کہ صولت مرزا کون ہے؟ یہ جنرل مشرف کا عہدِ سیاہ تھا جس میں یہ خاکسار حوالۂ زنداں ہوا۔ جب اُسے کراچی سینٹرل جیل کی ایک بیرک لے جایا گیا تو وہاں اچانک کچھ لوگوں کی بہت چہل پہل شروع ہوئی۔خوف کی چادر تنی ہوئی تھی اور کوئی سرگوشی میں بھی یہ بتانے پر تیار نہ تھا کہ یہ بے چینی کیوں ہے؟پھر رات کے کسی پہر ایک جاگتے ہوئے قیدی نے پہلو بدلتے ہوئے کہا کہ آپ کی آمد پر برابر میں قیدایک شخص نے استفسار یہ کیا ہے کہ اِنہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ وہ قیدی کوئی اور نہیں صولت مرزا تھا۔اُنہیں اور اُن کے ساتھیوں کوجیل میں جاری سرگرمیوں کے حوالے سے ایک اندیشہ ہوا تھا کہ شاید کوئی صحافی اندرونی حالات سے آگاہی کے لئے خود کو جیل کی نذر کر بیٹھا ہے۔ ایک پریشانی کا اضافہ اور ہوا جب اس قلم کے مزدور کو جیل کی زندگی کے پہلے تجربے کی بنا پر پہلے سے قید ایم کیو ایم (حقیقی) کے رہنما آفاق احمد نے ازراہِ ہمدردی مچھروں سے نمٹنے کے لئے مچھر کش دوا اور کچھ سامان بھیج دیا۔ صولت مرزا کی جیل پر حکومت تھی اور وہ ہر ہر حرکت کی پل پل خبر رکھتا تھا۔ اخبار نویس کویہ صورتِ حال پریشان کن سے زیادہ دلچسپ محسوس ہوئی، مگر غلط فہمی کا بوجھ اُٹھا کر جیل میں دن کو رات نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ صولت مرزا کو صبح سویرے ایک پیغام بھیجاکہ کیا وہ اس اخبار نویس کو کچھ وقت ملنے کے لئے عنایت کر سکیں گے۔ اندیشوں کے گرداب میں پہلی ملاقات پر یہ حیرت ہوئی کہ وہ اس خاکسار سے آگاہ اور اس کی تحریروں سے متعارف تھاجو کراچی کے خوف ناک حالات میں زندگی کو داؤ پر لگا کر لکھی جاتی رہیں۔ کچھ تحریروں کی واقعاتی نشاندہی اُس نے مزے لے لے کر کی، مگر پھر جیل حکام کی طرف سے قیدی کا ٹھکانہ بدل دیا گیا۔ اب صولت مرز ا کی زندگی میں جھانکنے کا تجسّس بیدار ہوا اور یہ عمل وہیں جیل سے شروع ہوا۔
کوئی نہیں جانتا کہ صولت مرزا وہ زندگی نہیں جی سکا جو وہ جینا چاہتا تھا ۔ جس زندگی کا خواب اُس نے اپنے’’ پیا ر‘‘کے ساتھ نہایت پیار سے دیکھا تھا۔اگر چہ زنداں میں ایک روز اُس سے سندھ کے تب کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ملاقات کی تھی۔ وہی مرزا جو آج کل اس طرح کلام کرتے ہیں جیسے گنگا نے اُن کے دامنِ تقدیس سے نچڑے ہوئے پانی سے پوترتا پائی ہو۔ذوالفقار مرزا اُن سے یہ چاہتے تھے کہ وہ اُن کے دستِ وقت پر بیعتِ شوق فرمالیں۔صولت مرزا نے تب کہا تھا کہ ’’وہ الطاف حسین کو دھوکا نہیں دے سکتا۔وہ میرا باپ ہے۔‘‘ وہی الطاف حسین جو اب فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے صولت کا نام تو سُن رکھا ہے، مگر اُس کو جانتے نہیں۔ ٹی وی اینکر کو معلوم نہ تھا۔ اگر معلوم ہوتا تو بھی گستاخی کا مرتکب نہ ہوتا کہ کیا وہ اُس صولت مرزا کو نہیں جانتے جس پر خود موصوف کے ساتھ شریکِ جرم کا الزام ہے،مگر صولت کا آدرش کچھ اور تھا۔وہ اپنے محلے کے ایک فوجی کی زندگی سے متاثر تھا۔ ایک میجر جسے دیکھ کر وہ اپنے مستقبل کی صورت گری کرنا چاہتا تھا۔اُس نے بآلاخر آئی ایس ایس بی(انٹر سروسز سیلکشن بورڈ) کا امتحان دیا۔ کرکٹ کا بے پناہ شوقین صولت مرزا تب زندگی سے بہت پیار کرتا تھا۔ اُس نے کالج سے بی کام کیا تھا اور شاندار کرکٹ بھی کھیلا کرتا۔ یہ وہی دن تھے جب اُسے آئی ایس ایس بی کے نتائج کا انتظار تھا،مگر ملک کے کسی اور حصے میں یہ ہوتا ہو گا، کراچی میں نہیں۔ یہاں آدمی اپنی مرضی سے ہمیشہ زندگی نہیں کر سکتا۔اُسے وہ زندگی بھی جینی پڑتی ہے جو لوگ اُس کے گرد حالات سے بُن دیتے ہیں۔
صولت مرزا کی اُمید بھری زندگی نے اندیشوں کے گرداب میں مایوسی کی چادر اوڑھنا شروع کی۔ اس میں سے کچھ بھی اس کے اختیار میں نہیں تھا۔ایک روز مقامی تھانے کی ایک گاڑی نے اُسے جا اُچکا۔ پھر کراچی کے جبر میں زندگی کرنے کا تھکا دینے والا عمل شروع ہوگیا۔ کچھ’’ جانے پہچانے‘‘لوگ آئے۔ کچھ جانے انجانے سوال کئے۔پھر صولت کے بھائی فرحت کے بارے میں پوچھا۔ صولت نے کہا کہ وہ مدت ہوئی گھر چھوڑ چکے۔ اب کوئی نہیں جانتا وہ کہاں رہتے ہیں؟ صولت سے کہا گیا کہ ’’ہمارے‘‘ لئے کام کرو۔ صولت نے کہا مجھ سے یہ حلف لیں کہ میں ایم کیو ایم کے لئے کبھی کام نہیں کروں گا، مگر میں کسی اور کے ساتھ بھی کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔ اس پربجائے حوصلہ افزائی کے، وہ تھانے کی ’’خاطر مدارات ‘‘ کا مستحق ٹہرا۔ اور پھر مارتے مارتے اُسے بس جلانے کے ایک مقدمے میں جیل بھیج دیا گیا۔ اس مار، نے اُس کے اندر کیا کیا مار دیا تھا کوئی نہیں جانتا۔ آئی ایس ایس بی کے نتائج کا انتظار کب ختم ہوا ، خو د اُسے بھی پتا نہ چلا۔اُس کا آدرش میجر کب اُس کے اندر مر گیا؟ کسی کو بھی پتا نہیں چلا۔اُس سے جب کبھی پوچھا گیا ، بس ایک دل پسیجنے والی مسکراہٹ اُس کا جواب ہوتی۔ اُس کا شوقِ کرکٹ بھی کہیں دم توڑگیا تھا۔بے پناہ اذیت کے ساتھ بے پناہ احساسِ ذلت اب اُس کی زندگی کا دائم زادِ راہ تھا۔تین ہفتے بعد جب وہ جیل سے رہا ہوا تو پھر دنیا نے کبھی اُس صولت مرزا کو نہیں دیکھا جو وہ تین ہفتے پہلے تھانے جانے سے پہلے تھا۔ پتا نہیں کیوں ہمیں یہ سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہے کہ الطاف حسین کے ہاتھوں کی جنبش سے جو دروبست بنتے ہیں ، اس کی گردش ، کوزہ اور چاک نظام کے جبر سے مہیا ہوتے ہیں۔ صولت کو صولت الطاف حسین نے نہیں ، اُس کے تھانہ انچارج نے بنایا تھا۔ اُن جانے پہچانے لوگوں نے بنایا تھا جو اُس سے وہی کام لینا چاہتے تھے ، جو بعد میں اُس کی جماعت نے اُس سے لئے۔اگر صولت ایسے لوگ یہ سوچیں کہ مجھے کسی کا خون ہی کرنا ہے تو ’’اِس‘‘ کے کہنے پر کرنے کے بجائے ’’اُس‘‘ کے کہنے پر کیوں نہ کروں؟ تو کیا غلط سوچتے ہیں؟ یہ دراصل کام بدلنے کی نہیں آقا بدلنے کی آزادی ہے۔ کام دونوں صورتوں میں ایک ہی کرنا ہے۔جیل سے نکلنے کے بعد صولت نے یہی سوچا تھا،مگر حالات کے جبر نے اُسے موت کے دھندوں اور زندگی کے پھندوں میں اُلجھا کر رکھ دیا۔ اُس کی مایوسی کا استعمال اُسے اُمید دلا دلا کر کیا گیا۔ اُس نے ایک بار پھر اِس گھمن گھیری سے نکلنے کی کوشش کی اور خاموشی سے ملک سے باہر چلا گیا تھا۔ اس دوران وہ رخصتی کی منتظر اپنی بیوی کے بیرونِ ملک سفری دستاویزات کی تیاریوں میں مشغول تھا۔ تب خبر ملی کہ اُس کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ اُس کی بیوی کی باقاعدہ رخصتی شادی کے انیس برسوں کے بعد بھی آج تک نہیں ہوسکی۔ ان دونوں کی ملاقات اگر کوئی ہے تو وہ جیل کے ایام میں ہیں۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اُس کی یادگار کی حفاظت اب اُس کی ماں اپنی گود میں کرتی ہے۔ یہ مسلسل المیوں میں پنپتی زندگی کی ایک غیر معمولی کہانی ہے۔صولت مرزا 124 مقدمات میں سے 123 مقدمات میں بری ہوا۔ وہ اُس ایک مقدمے میں بآلاخر اپنے انجام کو پہنچا جو ہر مجرم کا مقدر ہے۔ کہ جرم کے کسی بھی پسِ منظر کے باوجود ’’جرم‘‘ کاکوئی جواز کتابِ قانون میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آج مچھ جیل سے کراچی میں صولت مرزا کی لاش پہنچا دی گئی۔ اس لاش کا کوئی اور مقدر بھی تو ہوسکتا تھا۔ یہ کوئی کرکٹر اور کوئی میجربھی ہو سکتا تھا۔ وائے افسوس! یہاں کیسا معاشرہ تخلیق کردیا گیا ہے۔ یہاں ’’عزت‘‘ سے زندگی کرنے کے لئے مجرموں سے راہ رسم رکھنی پڑتی ہے۔ کراچی میں سب کچھ غلط ہو رہا ہے ۔ کوئی جاگتا کیوں نہیں؟ہر بار یہ درد ہی کیوں جیت جاتا ہے۔ کبھی سڑکوں پر ، کبھی تھانوں میں ، کبھی جعلی مقابلوں میں ، کبھی ستون دارپر نہ جانے کس کس طرح ہم لہو سے اپنی گزر اوقات کرتے ہیں۔ کلیم عاجز کی زندگی بھی ایسے ہی درد سے گزری تھی جس میں درد کے خاندان سے جرم کے محرکات کے مہین تعلق میں کئی مخفی کہانیاں انگڑائیاں لیتی تھیں، تب ہی تو اُنہوں نے کہا :
اُمید ایسی نہ تھی محفل کے اربابِ بصیرت سے
گناہ شمع کو بھی جرمِ پروانہ بنا دیں گے
ہائے!ریاست کو اپنے آشفتہ مزاجوں کی کوئی خبر ہی نہیں۔لہو کا دھندا جاری ہے تو لہو سے گزر اوقات بھی جاری ہے۔ ہر بار بس یہ درد ہی جیت جاتا ہے!