صوبوں کا وفاق کے خلاف دھرنا بری رسم
ہر چیز کا ایک وقت ہو تا ہے۔ ہر فیشن کا ایک دور ہو تا ہے۔ جب کسی بری چیز کا بھی فیشن چل پڑے تو سب ویسا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی انسانی نفسیات ہے۔ لمبی قمیضوں کا فیشن۔ کھلے کپڑوں کا فیشن۔ تنگ کپڑوں کا فیشن۔ اپنے وقت پر سب چلتا ہے۔ بہت سال پہلے کی بات ہے کہ مجھے آواری ہوٹلز کے مالک بہرام ڈی آواری کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ یہ وہ وقت تھا جب لاہور میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل نے اپنا نیا بلاک بنا یاتھا۔ اور اس کا بہت شور تھا۔ نئے انداز کی لفٹ ۔ کمرے۔ غرض ہر طرف پرل کانٹی نینٹل کا شور تھا۔ میں نے بہرام ڈی آواری سے پوچھا کہ آپ کے پاس بھی جگہ ہے آپ پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے ہوٹل کا نیا ونگ کیوں نہیں بناتے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ۔ اس وقت پی سی کا وقت ہے۔ اسے اپنا وقت انجوائے کرنے دو۔ اس کے بعد ہمارا وقت بھی آئے گا۔ جب آپ کسی کا وقت خراب نہیں کرو گے تو کوئی آپ کا وقت خراب نہیں کرے گا۔
پاکستان میں اس وقت دھرنوں کا وقت ہے۔ ہر کوئی اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دے رہا ہے۔ ڈاکٹرز دھرنا دیتے ہیں۔ ٹیچرز دھرنا دیتے ہیں۔ اب دیکھیں ڈاکٹرز اور ٹیچرز دونوں پڑھالکھا طبقہ ہیں لیکن وہ بھی دھرنا دیتے ہیں۔ پارلیمنٹرینز بھی دھرنا دیتے ہیں ۔ پاکستان میں اس وقت دھرنوں کا فیشن ہے۔ اس سے قبل 90 کی دہائی ہڑتالوں کی دہائی تھی۔ جب بھی کسی سیاسی جماعت نے کوئی بات منوانی ہوتی تھی یا طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو تا تھا تو وہ ہڑتال کی کال دیتی تھی۔ جتنی ہڑتال کامیاب ہوتی اتنی ہی طاقت سمجھی جاتی تھی۔ اسی طرح پھر پہیہ جام ہڑتال کا بھی فیشن آیا اور سیاسی جماعتوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے پہیہ جام ہڑتالوں کی کال دینا شروع کر دی۔ لیکن پھر یہ فیشن بھی ختم ہو گیا ۔ اور اب دھرنوں کا فیشن آگیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے سرکٹ میں دھرنوں کی فلم ہٹ جا رہی ہے۔ جس مرضی قسم کی دھرنوں کی فلم بنائیں ہٹ ہو گی۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے وفاقی حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اس کا قطعی طور پر برا نہیں منا نا چاہئے۔ کیونکہ بڑے بزرگوں نے بتا یا ہے کہ آپ آج جو بوئیں گے وہی کل کاٹیں گے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ گندم بوئیں اور گنا کا شت ہو جائے۔ اسی طرح یہ اعزاز بھی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے سابقہ دور حکومت میں وفاقی حکومت کے خلاف لوڈ شیڈنگ پر احتجاج شروع کیا تھا۔ مینا ر پاکستان پر احتجاجی کیمپ لگا یا تھا۔صوبہ بھر میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ میاں شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف ان ریلیوں کی قیادت کی اس طرح کھلم کھلا پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت پر یہ مقدمہ قائم کیا گیا کہ وہ لوڈ شیڈنگ میں پنجاب کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے۔ لیکن میاں شہباز شریف کسی حد تک پنجاب کے عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب بھی ہو گئے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ بہر حال اب باری تحریک انصاف کی ہے ۔ قدرت نے پیپلزپارٹی کو تو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ ن لیگ کو اس کا جواب دیتی۔ لیکن تحریک انصاف کو یہ موقع ضرور دے دیا ہے۔ پاکستان چار صوبوں کی ایک فیڈرشین ہے۔ پنجاب بڑا صوبہ ہے۔ اس کے اتنے بڑے ہونے پر پہلے ہی چھوٹے صوبوں کو تحفظات ہیں لیکن پھر بھی پنجاب کو بڑا بھائی کہا جا تا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ چھوٹے بڑوں کی نقل کرتے ہیں۔ ان کی عادات اور ان کا سٹائل کاپی کرتے ہیں۔ اس لئے مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کو آج پرویز خٹک پر تنقید کرنے سے پہلے یہ خیال کرنا ہو گا کہ یہ رسم انہوں نے شروع کی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ غلط رسم ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی کی جا نی چاہئے۔ اس سے پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر امیج خراب ہو تا ہے کہ یہاں ایک حکومت دوسری حکومت کے خلاف دھرنا دیتی ہے۔ لیکن یہ سب تب بھی تھا جب میاں شہباز شریف ایسا کر رہے تھے۔ بہر حال یہ رسم پاکستان کے مفاد میں نہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے والی قوتوں کے پاس ایک بہانہ ہمیشہ رہا ہے کہ جمہوریت چل نہیں رہی تھی۔ اس لئے اس کو ختم کرنا پڑا۔ جمہوری حکومتوں کو جمہوری روایات اور اقدار کی خود حفاظت کرنا ہو گی۔ ان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کے لئے یہ کام کوئی اور نہیں کرے گا۔ جہاں مطالبہ کرنے والے کو جمہوری اقدار کے اندر رہنا ہو گا وہاں مطالبہ تسلیم کرنے والی قوت کو ابھی اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ وہ ہٹ دھرمی نہ کرے ۔ کیونکہ اس سے جمہوریت کو نقصان ہو گا۔ کاش وزیر اعلیٰ پرویز خٹک دھرنے کا اعلان ہی نہ کرتے۔ بات اس نوبت تک نہ پہنچتی۔ کاش وفاقی حکومت دھرنے سے پہلے مذاکرات کر لیتی۔ نہ جانے دھرنے کے ہونے کا کیوں انتظار کیا گیا۔ یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ وفاقی حکومت اور پرویز خٹک کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے۔ اللہ کرے کہ یہ کامیاب رہیں ۔ اور دوبارہ دھرنے کی نوبت نہ آئے کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ ہم سب کو اپنے سیاسی مفادات سے زیادہ قومی مفاد کو عزیز رکھنا چاہئے۔ اسی میں جمہوریت کی بقا ء ہے۔