افغان ٹرانزٹ ٹریڈمعاہدہ کا مجرمانہ استعمال ،ڈیرھ ارب ڈالر سالانہ کا مال سمگل ہوکر پاکستان پہنچ جاتا ہے 

افغان ٹرانزٹ ٹریڈمعاہدہ کا مجرمانہ استعمال ،ڈیرھ ارب ڈالر سالانہ کا مال ...
افغان ٹرانزٹ ٹریڈمعاہدہ کا مجرمانہ استعمال ،ڈیرھ ارب ڈالر سالانہ کا مال سمگل ہوکر پاکستان پہنچ جاتا ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(رپورٹ: صبغت اللہ چودھری) جرائم پیشہ عناصر کی طرف سے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے منفی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ روکا نہیں جاسکا ۔ افغانستان اپنی ضروریات سے کئی گنا زیادہ مال منگواتا ہے جس کا 95فیصد حصہ سمگل ہو کر پاکستان میں ہی فروخت ہوتا ہے جس میں کسٹم سمیت پاکستان کے دیگر ذمہ دار اداروں کے اہلکار بھی مبینہ طور پر ملوث ہیں یہ سمگلنگ پاکستان کی اپنی معیشت کو تباہ کر رہی ہے اور پاکستانی صنعت کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں مل رہا۔دنیا میں اس وقت 32 ممالک لینڈ لاک ہیں یعنی ان کے پاس بندر گاہ نہیں وہ تجارتی سامان ٹرانزٹ معاہدے کے تحت منگواتے ہیں۔ بھارت نیپال کو ٹرانزٹ کی سہولت دیتا ہے لیکن اس کے لئے نیپال سے ہر سال ڈیمانڈ لے لی جاتی ہے اور ڈیمانڈ کے مطابق اسے مال دیا جاتا ہے ۔ افغانستان ایسے وقت میں الیکٹرانکس کا سامان منگواتا رہا جب وہاں بجلی ہی نہیں تھی۔طالبان کے دور میں ٹی وی ریڈیو وغیرہ پر پابندی کے باوجود ہزاروں ٹی وی سیٹ آتے رہے حتٰی کہ وہ کیمیکل منگوائے گئے جو ہیروئین کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ افغانستان میں لوگوں کی اکثریت سبز چائے پینے والوں کی ہے جبکہ اربوں کی کالی چائے افغانستان کے نام پر منگوائی جا رہی ہے۔ معاہدے سے سمگلنگ میں کمی کی بجائے اتنا اضافہ ہوا کہ ہر طرف سمگل شدہ اشیاءکی ریل پیل ہو گئی۔ افغانستان کی جانب سے پاکستان کو اس سہولت کے بدلے وسطی ایشیائی ریاستوں تک راہداری کی سہولت دینے سے پاکستانی معیشت اور تجارت پر کوئی قابل ذکر مثبت اثر نہیں پڑ رہا۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا جو مال(تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ) اس وقت سمگل ہو کر پاکستان واپس آتا ہے یاملی بھگت سے مال افغانستان لیجایا ہی نہیں جاتا یہ صورتحال ہی ملکی صنعتوں اور کاروبار کے لئے نہایت مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہے ۔افغانستان آج تک اپنا انڈسٹریل سٹرکچر نہیں بنا سکا۔ نائن الیون کے بعد آج بھی افغانستان میں 50صنعتی یونٹ بھی نہیں ہیں۔ خیبر پختونخوا کی بزنس کمیونٹی افغانستان میں صنعتیں لگانے کیلئے تیار ہے لیکن افغانستان اس بات پر بھی راضی نہیں ہے۔50سال پہلے جب صرف لنڈی کوتل میں سمگل شدہ مال فروخت ہوتا تھا اور لوگ بمشکل ایک سوٹ کا کپڑا بندوبستی علاقے میں لا سکتے تھے لیکن سمگل شدہ مال لنڈی کوتل سے ہوتا ہوا باڑہ، کارخانو مارکیٹ ،نوشہرہ ،ر شکئی اور اسلام آباد سے ہوتے ہوئے کراچی تک پہنچ گیا۔قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ سمگل شدہ مال فروخت کرنے اور ٹیکس چوری کرنے والوں پر جب چور راستے بند کئے جائیں تو ان کے احتجاج پر بھی حکومت اپنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔افغانستان کیلئے دیگر ممالک سے آیا مال دو راستوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے ایک صوبہ خیبر پختونخوا میں طورخم اور دوسرا کوئٹہ میں چمن کے راستے ٹرانزٹ کی جاتی ہے۔کراچی سے پشاور تک ٹرانزٹ ٹریڈ کا مال پشاور کیلئے کراچی سے بذریعہ ریل پہنچایا جاتا ہے جس سے پاکستان ریلوے کا محکمہ سالانہ ڈیڑھ سے 3ارب روپے کما رہا ہے۔ریلوے کے علاوہ افغانستان کیلئے مال این ایل سی کے ذریعے بھی پشاور تک پہنچایا جاتا ہے۔ ریلوے کی ایک ویگن (بوگی) پر 22ٹن تک مال لادا جا سکتا ہے جس کا کراچی سے پشاور تک کرایہ 48ہزار روپے بنتا ہے جبکہ این ایل سی کا کرایہ 75ہزار روپے تک ہے فرق اتنا ہے کہ ریلوے کے ذریعے مال پشاور تک تاخیر سے پہنچتا ہے جبکہ این ایل سی کے ذریعے مال جو کنٹینرز اور ٹرکوں کے ذریعے پشاور تک پہنچایا جاتا ہے وہ ریلوے کی نسبت کم وقت میں پہنچتا ہے۔پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ 1965ءمیں جنیوا کنونشن کے تحت عمل میں لایا گیا۔جس کے تحت پاکستان افغانستان کو اپنی بندر گاہ یعنی کراچی سے طور خم تک راہداری کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے مطابق ٹرانزٹ کا تمام مال ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہوتاہے لہٰذا حکومت پاکستان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا لیکن اس ٹرانزٹ کے ذریعے فریٹ کی سہولیات کی مد میں پاکستان ریلوے سالانہ 3 ارب روپے کما رہا ہے اس کے علاوہ صرف کراچی میں 3 ہزار کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ کام کر رہے ہیں اور ہر ایجنٹ کے پاس 15سے 20افراد پر مشتمل عملہ ہے جبکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ( کے پی ٹی) پر کرینز اوردیگر بھاری مشینری پر کام کرنے والے مزدورں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کی تعداد 300ہے۔ 60بارڈ ر ایجنٹ ہیں ان میں سے ہر ایک کے پاس بھی 10سے 15افراد پر مشتمل عملہ ہے جس میں 8افراد ان فاروڈنگ ایجنٹس کے دفاتر میں 4 ڈرائی پورٹ 2 ائیر پورٹ اور 4 طور خم بارڈر پر خدمات انجام دیتے ہیں ان ہزاروں افراد کا روزگار افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے وابستہ ہے۔

مزید :

اسلام آباد -