یار سلامت صحبت باقی

یار سلامت صحبت باقی
 یار سلامت صحبت باقی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں سیاسی ہلچل دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ جیسے پانامہ پیپرز معاشرے میں نیو کلیائی تبدیلیاں لے کے آئیں گے پانامہ پیپرز نے موقع فراہم کیا اور وزیراعظم نے عوام اور حزب اختلاف کا موڈدیکھتے ہوئے معاملہ جلد ہی سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا کہ چلو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے بات تو سچ ہے،مگر بات ہے شرمساری کی رسوائی کی، مُلک پاکستان میں شوکت عزیز، معین قریشی جیسے وزیراعظم گزرے ہیں جو آئے حکومت کی اور اپنی بیرون مُلک جائیدادوں اور اکاؤنٹ سمیت وہیں لوٹ گئے جہاں سے وہ آئے تھے، لیکن مجال ہے کسی نے ان سے پوچھنے کی ہمت بھی کی ہو کہ دوھری شہریت کے باوجود بلا شرکت غیرے ریاست کے اعلیٰ فیصلے کرنے کے باوجود کوئی ان سے کسی قسم کی مزاج پرسی کیوں نہیں کر سکتا حزب اختلاف کے لیڈران ہوں یا دبنگ خان کے اردگرد کھڑے مصاحبین سب کے بیرون مُلک اکاؤنٹس ہونے کے باوجود صرف وزیراعظم کی ذات کا محاسبہ میری عقل سے بالا تر ہے اگر ایک دفعہ صفائی کا موقع ملتا ہے تو کر گزرنے میں حرج کیا ہے سوئس اکاؤنٹس ہوں یا وکی لیکس، پانامہ پیپرز ہوں یا آف شور کمپنیاں یا جائیدادیں حل موجودہ نظام میں موجود ہے اور اس کے لئے کسی جج، کمیشن یا مقتدر حلقے سے این او سی کی ضرورت نہیں ہے حزب اختلاف کی طرف سے دیے گئے ٹی او آر کی بات کریں تو یہ بات واضح ہے کہ مقصد احتساب نہیں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف پر سیاسی پریشر بڑھانا ہے استعفیٰ پر اختلاف رائے ہے یا نہیں ابھی حل طلب ہے۔


وزیراعظم الیکشن میں نامزدگی کے وقت اپنے اثاثے لکھ کر دے چکے ہیں اگر کسی کے پاس کوئی اضافی جائیداد یا ثبوت ہیں تو وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کریں وزیراعظم سے پارلیمان کے سامنے دوبارہ بیان حلفی الیکشن کمیشن میں دیئے گئے بیانات اور طریقہ کار سے انحراف ہو گا ‘ پارلیمان یا اس کی ذیلی کمیٹی ویسے باضابطہ طور پر پانامہ پیپرز کو دیکھ سکتی ہے، لیکن عدم اعتماد کی تحریک کے علاوہ حزب اختلاف پارلیمان سے اور کیا مطالبہ کر سکتی ہے، جس سے احتساب ممکن ہو ہنوز حل طلب ہے، ایک اور مطالبہ کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے انکوائری کی تفصیلات طے کی جائیں تو الیکشن میں دھاندلی کے لئے بنائے گئے کمیشن کے لئے بھی طریقہ کار وضع کیا گیا تھا سیاسی سوچ اور ارادہ ہو گا تو حل نکل آئے گا احتساب اور بلا امتیازسب کا ایک بڑھتا ہوا قومی نعرہ ہے جس سے حزب اختلاف ابھی تک بے خبر ہے اور شاید ان کے پاس وقت آنے پر بھاگنے کا موقع بھی نہ ہو چیف الیکشن کمشنر، نیب اور ایف بی آر، ایف آئی اے کے ذریعے، انتظامی کمک کے ساتھ اس معاملے یا کسی بھی معاملے کی تہہ تک جانے کی طاقت رکھتے ہیں۔


بیرون مُلک ثبوت اور شواہد تک رسائی اور جہاں دوسرے ممالک شامل ہوں معاملات عام وقت سے بہت زیادہ وقت ‘ صبر اور مشقت طلب ہوتے ہیں ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل اور سوئزر لینڈ میں پھنسے 60ملین اور اس کے لئے ہونے والی کارروائی سے یہ بات عیاں ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھتے باندھتے زمین پر حالات اور واقعات تبدیل ہو جاتے ہیں اور احتساب کے لئے زور اور شور سے آئے لوگ بھی بعد میں جاتے جاتے قومی مصالحتی آرڈیننس کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو عام معافی دیکر اپنی جان اس ذمہ داری سے چھڑاتے ہیں، جس کی ادائیگی کے لئے مٹھائیاں بانٹ بانٹ کر غیر قانونی داخلے لئے تھے حل سیدھا ہے پانامہ پیپرز کے اوپر ایک قومی رائے قائم کریں الیکشن کمیشن عوامی نمائندوں کے بارے میں، نیب افسران کے بارے میں اور ایف بی آر ٹیکس اور کمپنیوں کے بارے میں سوالنامے کے ذریعے معلومات حاصل کریں پانامہ پیپرز میں ملنے والی معلومات سے موازنہ کریں اور قانون کے پہیے کو چلنے دیں، اگر کوئی کارروائی کرنا مقصود ہے فوج نے اپنے ادارے میں خود احتسابی کا آغاز کر کے یہ عندیہ دیا ہے کہ ان کی نظر عوام کے احساسات اور ہاتھ نبض پر ہے حزب اختلاف اور حزب اقتدار ادھورا ایجنڈا پورا کر سکتے ہیں کہ وہ ساؤتھ افریقہ کی طرز پر سچ اور مصالحتی کمیشن کے ذریعے 1947ء سے پھیلا یہ آکاس بیل کا ڈر ایک ہی دفعہ ختم کریں اور اس کے بعد ایسے لوگوں کو سامنے لائیں جو باکردار ہوں اور بامقصد و بامعنی سیاست پر یقین رکھتے ہوں تاکہ عوام ان کے بارے میں ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ دے سکیں عدالتوں کو بھی فوج کی طرز پر صفائی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
1973ء کے آئین بننے سے لے کر آج تک آرٹیکل 209کی کارروائی کے ذریعے بامقصد صفائی ابھی تک زیر غور ہے اور کب سے متوقع ہے نواز شریف کے خلاف اتنی زہر افشانی اور انہیں دفاع پر مجبور کرنے کے پیچھے کار فرما عوامل دھرنے سے مختلف نہ ہیں وہ مُلک میں پاک چائنہ کاریڈار کے ذریعے عوام کو ان کے قدموں پر لانا چاہتے ہیں قومی ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردوں سے مُلک کو پاک کرنا چاہتے ہیں اور گوادر اور پانی کے منصوبوں کے ذریعے مُلک سے پانی اور توانائی کا بحران ختم کرنا چاہتے ہیں واقفان حال جانتے ہیں کہ اگر وہ یہ کام کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو 2018ء میں بھی انہیں روکنا مشکل ہو جائے گا یہی اصل معمہ ہے گاہے بگاہے ان پر پریشر بڑھایا جاتا ہے تاکہ ان کی توجہ دوسری طرف مبذول کرائی جا سکے کُل بھوشن جو کہ ٹیرر کا نیٹ ورک چلا رہا تھا اس کی گرفتاری سے ظاہر ہے کہ دشمن پاک چائنہ کاریڈار کو رکوانے یا اسے مزید ملتوی یا موخر کروانے میں کوئی وہ کام کرنے سے گریز نہیں کریں گے جو ان کی بساط میں ہو گا ایسے مُلک ملکی اشر افیہ کو مل کر پاکستان کو ان رنگینیوں کی طرف لوٹانا ہو گا، جس کے 200ملین لو گ حقدار ہیں یہ کام اکیلے نواز شریف کا نہیں ہے احتساب حل طلب اور صبر طلب معاملہ ہے اور اداروں نے شروع کر دیا ہے سیاست دان بھی عوامی احتساب سے بچ نہیں سکتے آئیے احتساب کے سائے میں ملکی مفادات کا نقصان ہونے سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں نظام کو مضبوط کریں لوگوں کو احتساب کرنے دیں اور غیر سیاسی ادارہ جاتی احتساب کو چلنے دیں باقی یار سلامت صحبت باقی، ذرا دیر کی تو آنے والے 9سال بعد معافی مانگ کر جاتے ہیں کہ یہ ان کے بس کا روگ نہیں ۔

مزید :

کالم -