تحریک انصاف اور جیتی ہار؟ (2)
تحریک انصاف کا ایک دھڑا جو محنت کا سخت دشمن اور کارکنوں کی اہمیت سے نابلد ہے وہ ہر روز عمران خان کے سامنے راگ الاپتا ہے کہ’’ جناب سونامی کی کراؤڈ پلنگ جیسی قوت بدستور قائم دائم ہے اور ہم کھڑکی توڑ رش کا مرحلہ پھلانگ کر گلی کوچوں میں ہوا بنا چکے ہیں۔ مہنگائی کے تھپیڑے کھا تے لوگوں کے پاس آپ کے سوا کوئی آپشن نہیں ۔ نوجوانوں کے لئے نہ تو سرکار کے پاس روزگار ہے اور نہ ہی کاروباری مواقع۔ ان حالات میں پاکستان کے یہ رومانوی، افسانوی اور کنگال نوجوان آپ کے پیچھے نہیں بھاگیں گے تو اور کیا کریں گے‘‘۔ یوں بنی گالہ میں ایک اور دن رات میں ڈھل جاتا ہے، رات سورج کی تلاش میں تاروں سے ہمکلام ہوجاتی ہے اور عمران خان کو نرگسیت کے تالاب میں دھکا دینے والے گھروں کی راہ پکڑتے ہیں۔ حقیقیت یہ ہے ایسے تمام احباب عمران خان پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں عمران خان کو تنظیمات کے درمیان گلی محلوں میں ہونا چاہئے تھا، تنظیمی معاملات میں طاقت ،اتھارٹی اور گرج چمک دکھانی چاہئے تھی ، پرانے نئے کارکنوں سے براہ راست ٹیلی فون رابطوں میں رہنا چاہئے تھا، انہیں انتخاب لڑانے سے قبل ان کے ہونے اور اہمیت کا احساس دلانا چاہئے تھا ۔۔۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ کارکنوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے قائدین کے رویوں سے نالاں ہوکر سائیڈ لائن پر ہو چکا ہے۔ انہیں دوبارہ مین سٹریم میں لانے کی خاطر عمران خان کو سب سے پہلے ان مرکزی عہدیداروں سے بازپرس کرنی چاہئے جو پنجاب میں’’رائی کے دانے‘‘ جیسے جماعتی اختلافات کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ دوسرا نمبر ان نامزد عہدیداران کا ہونا چاہئے جو ورکرز کنونشن، کارنر میٹنگز اور پرائمری یونٹس کے افتتاح جیسے ابتدائی سیاسی اسباق کو بھلا کر اخباری بیانات تک محدود ہوگئے ہیں۔ عمران خان نے جن عہدیداران کو نامز د کیا وہ پی ٹی آئی کو پنجاب میں مرحلہ وار سیاسی موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں ۔ نہ عمران خان کو تنظیمات تک رسائی دے رہے ہیں نہ ہی کارکنوں سے ون ٹو ون میٹنگز کا سلسلہ شروع کروایا گیا ہے۔ شاید عمران خان بھی سمجھتے ہیں کارکنوں کا مورال جلسوں کی سیاست سے بحال ہو جائے گا۔ ایسا ایک دو دن کے لئے تو ہوسکتا ہے لیکن ورکرز میں کرنٹ بھرنے کے لئے عمران خان کو خود گلیوں ، محلوں میں جانا پڑے گا۔ کسی محلے میں ناشتہ، کسی کے ہاں لنچ اور کہیں ڈنر۔ سیاسی حدت کے اس فیصلہ کن مرحلے پر بار ، بزنس کمیونٹی اور این جی اوز سے خطاب صریحا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ اب جبکہ تمام اعشاریے نشاندہی کر رہے ہیں تحریک انصاف بڑے مقابل کے طور پر سامنے آچکی ہے۔ دو متحارب حریفوں میں سے کسی ایک کی سیاسی ہوا اکھڑے گی۔ متذبذب رائے عامہ یا تو مسلم لیگ نواز کی طرف متوجہ ہوگی یا پوری کی پوری پی ٹی آئی کی جھولی میں گرے گی۔ایسے حالات میں اگر عمران خان پوری طرح چوکس نہ رہے تو’’ وہ‘‘ بھی مایوس ہوں گے جہاں مکمل پشت پناہی بارے سوچ و بچار کی جا رہی ہے۔
فرض کرتے ہیں پانامہ کیس کا فیصلہ حکومت کے خلاف آجاتا ہے اور یہ بھی فرض کرلیتے ہیں عام انتخابات کا اعلان ہو جاتا ہے۔ دونوں صورت میں کیا عمران خان دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟۔ اگر پی ٹی آئی کے موجودہ طرزفکر اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی تباہی دیکھیں تو یہ حقیقت بھی نہیں جھٹلائی جا سکتی کہ مسلم لیگ نواز بدستور مضبوط نظر آرہی ہے۔ تاہم اگر تحریک انصاف تنظیمات کو متحرک اور نیک نام امیدوار فائنل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو معاملہ یکسر مختلف ہو جائے گا۔ تگڑے اور نیک نام امیدوار ہر جگہ موجود ہیں۔ بات ان تک رسائی کی ہے۔ عمران خان رسائی کی خاطر شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، علیم خان اور دیگر احباب کی رائے پر تکیہ کر رہے ہیں۔ یہ احباب اپنی گروپ بندیوں کو ترجیح دیتے ہوئے کمزور امیدواروں کو بھی ٹارزن کے روپ میں پیش کر رہے ہیں۔ یاد رہے اگر عمران خان نے پاکستان پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ق یا مسلم لیگ نواز سے دھتکارے ’’بڑے ناموں‘‘ کو ٹکٹ پکڑائے تو ایک سو ایک فیصد ہار ان کا مقدر ہوگی۔ لوگ باریکیوں میں نہیں جائیں گے وہ صرف یہ کہہ کر دوبارہ مسلم لیگ نواز کو ووٹ دینے چل پڑیں گے’’اوئے چھڈو جی ایہناں بندیاں نال عمران خان نے چھنکنا تبدیل لیانی وے‘‘۔ کامیابی کا گر یہ ہوگا امیدوار اپنی جماعت کے اندر سے نکالیں۔اب کی مرتبہ انتخابات میں عام ووٹر نیک نامی کو ترجیح دے گا۔ لیکن خدشہ ہے عمران خان کو کارکنوں سے اسی لئے نہیں ملنے دیا جا رہا کہ پانامہ فیصلے کے بعد مسلم لیگ نواز میں ٹوٹ پھوٹ کا انتظار کیا جائے گا۔ نتیجے میں جیتنے والے گھوڑے سر جھکائے خودبخود عمران خان کے اصطبل میں آجائیں گے۔ اگر یہ سوچ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت میں سرایت کر چکی ہے تو پھر اگلے الیکشنز میں ان کا اللہ ہی حافظ۔ عمران خان بڑا خطرناک جوا کھیل رہے ہیں۔ وننگ ہارسسز کے انتظار میں اپنے پاس موجود گھوڑوں کو بھی نقاہت زدہ کر رہے ہیں۔ خدشہ ہے پانامہ کے بطن سے جنم لینے والا موقع پھر ضائع ہو جائے گا۔ یہاں یہ بھی بہت بہتر ہوگا اگر وزیر اعلی کے پی کے خٹک صاحب عمران خان کو پنجاب میں سیاسی ناکامی سے بچانے کی خاطر اپنا کردار ادا کریں۔اب کی دفعہ پنجاب میں ناکامی کا مطلب ’’اینڈ آف خان‘‘۔ اب دیکھتے ہیں عمران خان اپنی جیتی بازی کو ہارنے پر تلے رہتے ہیں یا شہروں میں ڈیرے لگا کر کارکنوں میں متحرک کرتے ہیں۔ (ختم شد)