ثریا جو عظیم تھی
کیا اس کو حسن اتفاق کہناچاہئے ؟ ۔۔۔چوبرجی ایک حسین اور باذوق عورت کا شاہکار خواب تھا ۔ آج لاہور کی آلودگی اس شہ پارہ کو روزانہ گردآلود کردیتی ہے ،مغل شہنشاہ اورنگ زیب کی بیٹی زیب النسا ءکی یہ یادگار احساس دلاتی ہے کہ لاہور کا یہ گنجان علاقہ کبھی وسیع باغ ہوا کرتا تھا۔چوبرجی زیب النسا کے ذوق و شوق کا نمونہ تھا ۔وہ اپنے دور کی عالمہ فاضلہ ،شاعرہ ،مصورہ اور حافظ قرآن تھی ۔خدمت خلق اور کتاب سے اسکا گہرا تعلق تقدیر کو اتنا پسند آیا کہ تین سو سال بعد اسی مقام کو ایک اور خاتون نے انسانی عظمت کا مینارہ بنادیا....چوبرجی نسوانی وقار اور عظمت کا استعارہ بن گیا ہے ۔
چوبرجی کے سامنے پانچ منزلہ عالی شان شفاخانہ موجود ہے جسے ثریا عظیم ہسپتال کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔یہ خاتون ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کی پہلی خاتون مجسٹریٹ تھیں ۔انتہائی درد مند اور باحوصلہ خاتون کہ جنہوں نے جرائم پیشہ مردوں کو نتھ ڈال دی تھی۔ایک دو دہائی قبل جب لاہور میں قبضہ گروپوں کا مکمل راج تھا،ثریا عظیم صاحبہ کی زمین پر بھی کچھ قابضین موجود تھے ،یہ قطعہ زمین زیب النسا ءکی چوبرجی کے بالکل سامنے تھا ،عقب میں میانی صاحب اور پرانا مزنگ کا کچھ رہائشی علاقہ ۔اس عالی ہمت خاتون نے بھی ایک خواب دیکھا تھا کہ کاش وہ بھی چوبرجی کے سامنے عظمت کی ایک لافانی نشانی رکھ چھوڑے ۔انہوں نے دل میں تہہ کیا کہ وہ اس زمین کو قابضین سے خالی کراکے سٹیٹ آف آرٹ خیراتی ہسپتال بنا ئیں گی ،جہاں دکھی انسانیت کا مفت علاج ہوگا ۔یہ ایک طویل مگر قابل مثال داستان ہمت ہے کہ عدلیہ میں زندگی بسر کرنے والی خاتون کو بدترین مزاحمتی حالات سے دوچار ہوکر قابضین کے خلاف عدالتوں میں لڑنا پڑا۔۔۔۔ڈنڈا سوٹا اور قانون لڑتا رہا اور وہ کامیاب ہوکر رہیں ۔انہوں نے سردو گرم میں اپنی نگرانی میں ہسپتال بنایا ،اینٹیں روڑی بجری ریت سمینٹ میں ان کے ہاتھ بھی گندے ہوتے رہے لیکن وہ پہاڑ سا حوصلہ لیکر پیدا ہوئی تھیں ۔انہیں معلوم تھا کہ جسطرح بے کس ،غریب لوگ ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے سے پہلے کورٹ کچہریوں میں دم توڑ جاتے ہیں ،قانون ان کی دادرسی نہیں کرپاتا ،یہی عالم ان مریضوں کا ہوتا ہے جن کے پیٹ میں کھانے کی جگہ رسولیاں اور سینے میں سانس کی بجائے دمہ ہوتا ہے۔جن کے بدن غذا سے گرم نہیں ہوتے ،کوئی بیماری ان کے سوکھے نڈھال بدنوں کو تندور بنائے رکھتی ہے ۔روٹی کی فکر انہیں دوا نہیں لینے دیتی اور پھر وہ اسطرح مرتے ہیں کہ میانی صاحب میں بھی انہیں قبر نہیں ملتی ۔کفن دفن کے لئے بھی تو ورثا کے پاس چارپیسے ہونے چاہیئں....
اپنی غریب قوم کا درد سینے میں لئے انسانی عظمت کو اوج ثریا تک لے جانےو الی محترمہ ثریا عظیم نے ہسپتال بنایا،ساری جمع پونجی خرچ کرڈالی او رپھر جب اسکو چلانے کا وقت آیا تو وسائل و مصائب کا ایک اور دریا انہیں پار کرنا پڑا۔انہوں نے ہسپتال ایک فلاحی ادارہ کو سونپ دیا کہ وہ اپنی نیک نامی سے اسکو چلائیں لیکن محترمہ ثریا عظیم ان سے مطمئن نہ ہو پائیں اور پے درپے مختلف تنظیموں کو آزمانے کے بعد اپنے مداح لیاقت بلوچ کے پاس جاپہنچیں ۔لیاقت بلوچ پر ان کا ایک احسان تھا ۔ساٹھ کے عشرے میں دوران طالب علمی جب کہ وہ ابھی سکول بوائے تھے ،ایک احتجاجی تحریک میں پولیس نے انہیں پکڑ کر جب مجسٹریٹ کے پاس پیش کیا تو کرسی عدل پر محترمہ ثریا عظیم متمکن تھیں ۔انہوں نے بچوں کے ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں دیکھیں تو زور سے چلائیں ” ضمانت چاہئے ،ان کی ضمانت ہوگئی،جلدی ہتھ کڑیاں کھولو،جلدی کرو“ یہ جملہ جماعت اسلامی کے اس ننھے مجاہد لیاقت بلوچ کے دل میں گھر کر گیا ۔آج جب کہ وہ امیر جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری بن چکے ہیں تو محترمہ ثریا عظیم کو رشک و اشک سے یاد کرتے ہیں۔ہفتہ کی رات ہم نے انکی زباں سے اس بہادر اور اس لاہوریوں کی محسنہ کا ذکر سنا ہے۔
میں سالہا سال سے ثریا عظیم ہسپتال کو دیکھتا آرہا ہوں۔کئی بار علاج کے لئے بھی وہاں جانا ہواہے،اماں جی کو اس ہسپتال میں علاج کراکے بڑا سکون ملتا ہے۔بھلے سے یہ ہسپتال باہر سے بہت متاثر کن دکھائی نہیں دیتا لیکن اسکے اندر کی دنیا میں سلیقہ و نظم نظر آتا ہے ۔چاق وچوبند عملہ ،مریضوں کے ساتھ حسن سلوک ....تشخیص و دوامفت۔ میں نے جب لیاقت بلوچ صاحب کو ثریا عظیم ہسپتال کے سالانہ فنڈ ریزنگ عشائیہ میں محترمہ ثریا عظیم کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے سنا تو اس عظیم شفاخانے کی قدر دل میں بڑھ گئی ۔محترمہ ثریا عظیم جب دیگر تنظیموں سے اکتا گئیں تو انہوں نے لیاقت بلوچ سے کہاتھا کہ جماعت اسلامی اس کا انتظام و انصرام سنبھال لے تو ان کا مقصد حیات پورا ہوجائے گا ۔محترمہ ثریا عظیم کا جذبہ و ایثار کھلی کتاب کی طرح لیاقت بلوچ صاحب پر عیاں تھا پس بعض احباب کی مخالفت کے باوجود انہوں نے قاضی حسین احمد کے سامنے اجر عظیم کا یہ منصوبہ رکھا جنہوں نے مالی خدشات بھی ظاہر کئے اور اہم ترین ذمہ داریوں میں کوتاہی کے اندیشوں کا بھی اظہار کیا لیکن لیاقت بلوچ اپنے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد قاضی صاحب کو یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ انشاءاللہ خدمت عامہ کا یہ بھاری پتھر وہ اٹھائیں گے ۔آج یہ ہسپتال جماعت اسلامی کے زیر کنٹرول ہے جسے ذبیح اللہ مجاہد اور بریگیڈئر (ر)ارشد ضیا جیسے قائد مل چکے ہیں جو شب و روز محترمہ ثریا عظیم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کررہے ہیں۔
فلیٹیز میں ہسپتال کی فنڈریزنگ کے عشائیہ میں بریگیڈئر (ر) ارشد ضیا نے ہسپتال کی کارکردگی اور گزشتہ سال کے دوران مستحق مریضوں کو دی جانے والی امداد کا مفصل ذکر کیا تو بے ساختہ دل سے دعا نکلی کہ اللہ ثریا عظیم ہسپتال کے خیراتی کام کو جاری و ساری رکھے جو عطیات و صدقات اور مالی اداد کرنے والوں کے ایک ایک پیسے کا حساب نہ صرف ہر کسی کو دیتے ہیں بلکہ منتظمین اپنی خدمات پر ہسپتال کا پانی بھی حلال نہیں سمجھتے ۔بریگیڈئر (ر) ارشد ضیا نے ڈونرز کو بتایا کہ ابھی ہسپتال کو مزید کون کون سی جدید مشنریز چاہئےں جبکہ ہسپتال میں جو علاج معالجہ کی سہولتیں موجود ہیں ان سے بھی کماحقہ سب کو آگاہ کیا ۔ثریا عظیم ہسپتال میں جون 2017ءسے اپریل 2018ءتک ضرورت مند مریضوں کو تین کروڑ 38 لاکھ روپے سے زائد کی مفت طبی امداد فراہم کی گئی ہے۔ ایمرجنسی میں مریضوں کو 88 لاکھ روپے سے زائد کی سبسڈی جبکہ 22 ہزار سے زائد مریضوں کو 100 روپے کی پرچی پر کنسلٹنٹ ڈاکٹرز کی سہولیات فراہم کی گئیں جن پر دو کروڑ 58 لاکھ روپے سے زائد کی سبسڈی دی گئی۔ ان ڈور، آﺅٹ ڈور میں مریضوں کو 23 لاکھ روپے سے زائد کی مفت طبی امداد فراہم کی گئی۔ مستحق مریضوں کو 8 لاکھ روپے سے زائد کی مفت ادویات فراہم کی گئیں۔ الخدمت فاﺅنڈیشن کے تعاون سے لیبارٹری، بلڈ بنک اور تھیلیسیمیا سنٹر کو جدید مشینوں سے آراستہ کیا گیا۔ ہسپتال میں واٹر فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب کی گئی جس پر 10 لاکھ روپے اخراجات ہوئے۔ گردوں کے مریضوں کی سہولت کیلئے ڈائیلاسز سنٹر کا قیام جو حتمی مراحل میں داخل ہوچکا ہے جس پر تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ سے زائد اخراجات ہوں گے۔زنانہ وارڈ کی جدید طرز پر توسیع کی جارہی ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جس پر تقریباً 25لاکھ روپے کے اخراجات ہوں گے۔ مریضوں کی سہولت کیلئے میڈیکل اور سرجیکل وارڈز میں 17 اے سی لگائے گئے ہیں جن پر 15 لاکھ روپے سے زائد اخراجات ہوئے۔ بریگیڈئر صاحب نے بتایا کہ ہسپتال کی اپ گریڈیشن کے علاوہ
کارڈیک کیئر سنٹر اور MRI مشین ہسپتال کی اہم ضرورت ہے۔ یقینی طور پر کوئی درد مند پاکستانی اس عظیم فلاحی شفاخانے کی ان ضرورتوں کو پوا کرے گا ۔یہ نجی فلاحی ادارے ہی ہیں جن کی بدولت غریب عوام کو جدید اور مفت علاج معالجہ کی سہولتیں حاصل ہورہی ہیں اور انکی سانسیں چل رہی ہیں اوریہ سانسیں بند نہیں ہونی چاہئیں ۔