اسلام آباد میں بھی لاک ڈاؤن میں نرمی، عمومی عوامی رویہ مناسب، لوگوں نے احتیاط کی!
اسلام آباد سیاسی ڈائری
ملک بھر کی طرح دارالحکومت میں بھی حکومت نے لاک ڈاؤن میں جزوی نرمی کر دی ہے۔ بازار اور مارکیٹیں کھل گئی ہیں تاہم بڑے پلازوں میں شاپنگ کے مراکز کو نہیں کھولا گیا اگرچہ تاجروں اور کاروباری حضرات لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہو پا رہے تھے تمام کاروباری طبقے لاک ڈاؤن کھولنے کا مطالبہ کر رہے تھے، جبکہ وزیراعظم عمران خان بھی مکمل لاک ڈاؤن کی پالیسی کے حامی نظر نہیں آ رہے تھے، لیکن جب صوبوں نے بالخصوص سندھ حکومت نے اس حوالے سے ایک واضح پوزیشن لے لی تو بادل نخواستہ مرکزی حکومت کو بھی لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنانا پڑی۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے کورونا کے حوالے سے عالمی اداروں کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے جب ٹھوس پالیسی وضع کی اور اس پر عمل درآمد کے لئے بھی سندھ حکومت نے ایک متحرک اور فعال کردار ادا کیا، تاہم وفاقی حکومت لاک ڈاؤن کی پالیسی کے حوالے سے مسلسل ملے جلے اشارے دیتی رہی۔ وفاقی حکومت زندگی اور روزگار زندگانی کے مابین ترجیحی رویہ اپنانے سے قاصر رہی۔ حکومت شائد روزگار زندگانی کی عدم دستیابی کی صورت حال سے نمپٹنے کی سکت اور صلاحیت کی حامل نہیں تھی اس لئے بالآخر وفاقی حکومت کے ملے جلے اشاروں کے نتیجہ میں کاروباری حلقوں نے صوبائی حکومتوں پر لاک ڈاؤن کھولنے کے حوالے سے دباؤ بڑھا دیا اور آخر کار کار حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کر دیا جبکہ دارالحکومت میں بعض حلقوں کا اصرار ہے کہ درحقیقت مکمل لاک ڈاؤن ایک ڈیفیکٹو لاک ڈاؤن تھا جسے وفاقی حکومت نے کبھی تہہ دل سے تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔ اس لئے لاک ڈاؤن میں نرمی کر دی گئی حالانکہ کورونا وائرس کے پاکستان میں پھیلاؤ کے حوالے سے مئی اور جون کے مہینے نہایت اہمیت کے حامل گردانے جا رہے ہیں۔ اگرچہ تاحال کورونا وائرس کے مہلک اثرات پاکستان پر اس طرح مرتب نہیں ہو پائے جیسے بعض دیگر ممالک بالخصوص یورپ اور امریکہ مین دیکھنے میں آ رہے ہیں لیکن لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے خوفناک پہلو دکانوں اور بازاروں میں کورونا کے خلاف حفاظتی اقدامات پر مکمل طور پر عمل پیرا نہ ہونا ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں اس حوالے سے صورت حال قدرے بہتر ہے۔ اکثر دکانداروں اور خریداروں نے منہ ماسک سے ڈھانپے ہوئے ہیں لیکن ماسوائے چند بڑے اعلیٰ پائے سٹوروں کے باقی دکانوں پر کورونا کے خلاف حقیقی طور پر موثر ہینڈ سینی ٹائزر موجود نہیں ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں صورت حال مزید ابتر ہے۔ خدانخواستہ اگر اس وجہ سے کورونا وائرس کی وبا پڑے پیمانے پر پھیلی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا جبکہ پاکستان کا صحت کا نظام بھی اس صورت حال کا متحمل نہیں ہو سکتا، تاہم کورونا کے حوالے سے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر متحرک ہے اور لمحہ بہ لمحہ صورت حال کے حوالے سے آگاہ کر رہا ہے اس کے اعداد و شمارکے مطابق گزشتہ چند دنوں سے کورونا وائرس سے متاثرہ اور ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کورونا کے حوالے سے اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا دیرینہ اور قابل بھروسہ دوست چین دل کھول کر مدد کر رہا ہے۔ چین کی جانب سے نہ صرف وفاقی دارالحکومت بلکہ صوبوں کو براہ راست امدادی سامان بھی پہنچ رہا ہے اس ضمن چین میں پاکستان کی سفیر نغمانہ ہاشمی کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں جبکہ دنیا بھر میں پھنسے ہوئے تارکین وطن کی واپسی کے لئے حکومت مستعدی سے کام کر رہی ہے، تاہم اس حوالے سے خلیجی ممالک کی صورت حال قدرے تشویشناک ہے۔ صرف متحدہ عرب امارات سے 70ہزار کے لگ بھگ پاکستانی وطن واپس آنے کے خواہش مند ہیں۔
کوروناکی صورت حال پر بحث و مباحثہ کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے پہلے روز کے اجلاسوں میں وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن رہنما شہباز شریف کی عدم شرکت بھی دارالحکومت میں موضوع گفتگو بنی رہی۔ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری نے پہلے روز کے اجلاس میں عمدہ تقریر کی اور احسن انداز میں وزیراعظم عمران خان پر بھی تنقید کی تاہم وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری دونوں ایوانوں کے اجلاس کو موجودہ صورتحال میں اس حوالے سے بے سود قرار دے رہے ہیں کہ ان کے خیال میں ایک دوسرے پر طنزوں کے نشتر چلانے کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ کورونا وائرس کے مہلک اثرات اور مہیب چیلنج کے باوجود ملکی داخلی سیاست میں محاز آرائی میں کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہوا بھی نظر ایا ہے۔چینی سکینڈل بھی بیٹھا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ٹویٹ کے جواب میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے چینی کمیشن میں پیش ہونے کا اعلان کر دیا۔ اب دیکھنا ہے کہ چینی کمیشن کی رپورٹ کب طشت ازبام ہوتی ہے اور کیا رنگ لاتی ہے۔ اس کی زد میں حکومت آتی ہے کہ اپوزیشن،جبکہ وفاقی بجٹ کی تیاری شروع ہو گئی ہے پاکستان کی معیشت مکمل طور پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے دام میں نظر آتی ہے، جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے بھاری نئے تیکسوں کے نفاذ کے دباؤ میں آکر حکومت کیا فیصلے کرتی ہے۔ حکومت کے مستقبل کے حوالے سے اہم ہوں گے کیونکہ عوام پہلے ہی کورونا وائرس وباء کی بدولت بدحال ہیں حتی کہ کورونا وائرس کے حملے سے قبل بھی ملکی معیشت کی حالت دگرگوں تھی۔ اس داخلی صورت حال میں پاکستان کو سرحدوں پر بھی سنگین نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک طرف لائن آف کنٹرول پر بھارت نے مسلسل جارحیت اور اشتعال انگیز کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ دوسری طرف برادر ملک ایران کی سرحد سے بھی پاکستان کے اندر گھس کر حملہ کیا گیا اور ملکی سیکیورٹی کے 6افراد کو شہید کر دیا گیا جس کی وجہ سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایرانی افواج کے سربراہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرنا پڑا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی دیامیربھاشا کی تعمیر کا اعلان کر دیا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ حکومت اس میں کتنی سنجیدہ ہے۔