معاوضہ نہ امداد کاشتکار سہولتوں سے محروم، کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ سفید ہاتھی، سیڈ کارپوریشن میں بھی بے ضابطگیاں

      معاوضہ نہ امداد کاشتکار سہولتوں سے محروم، کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ سفید ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملتان (نیوز رپورٹر) چیئرمین ملتان ڈرائی پورٹ ٹریسٹ و سابق صوبائی وزیر خواجہ جلال الدین رومی نے گذشتہ روز پریس
(بقیہ نمبر12صفحہ6پر)
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کپاس برآمد کرنے والا ملک پاکستان آج 2 ارب ڈالر سے زائد کی کپاس باہر سے منگوارہاہے جو ایک خطرناک ترین صورتحال ہے۔ ہمیں اپنے کاشتکار کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے اسے دوبارہ کپاس کی کاشت پر راغب کرنا ہوگا۔ کھادوں میں جوسبسڈی فراہم کی جارہی ہے وہ شاید ان تک صحیح نہیں پہنچ پا رہی۔اس لیے 50 ایکڑ تک کے کاشتکاروں کو ڈائریکٹ کیش کی صورت میں امداد دی جائے۔انہوں نے کہاکہ کپاس کی چنائی کرنے والی خواتین کو ہر سال سوا ارب روپے سے زائد معاوضہ دیا جاتا ہے،زیادہ فصل ہونے پر ان دیہی خواتین کو زیادہ معاوضہ مل سکتا ہے۔کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اس وقت سفید ہاتھی ہے اس کوفعال کرکے ریسرچ اور نئے بیج متعارف کرانے والوں کوخصوصی مراعات دی جائیں۔اسی طرح سیڈ کارپوریشن کا مکمل آڈٹ کرایاجائے۔ اس ادارے کا کام ہے کہ وہ نئے بیچ متعارف کرانے کے لیے کام کرے۔اس کوبہت زیاہ فنڈز دیئے جاتے ہیں لیکن اس کی کارکردگی کچھ نہیں ہے۔ خواجہ جلال الدین رومی نے کہاکہ فضلوں کی زونگ کی خلاف ورزی کرکے کپاس ک فصل کوتباہ کردیاگیا۔کپاس کے علاقوں میں گنے کی پیداوار کو جان بوجھ کر ترقی دی گئی جو نہ صرف پانی زیادہ استعمال کرتا ہے بلکہ کاشتکار وں کو بروقت ادائیگی بھی نہیں ہوتی اور پھرحکومت کو گنے کے استعمال کرنے والوں کو سبسڈی بھی دیناپڑتی ہے۔ہماری وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ کاشتکاروں کو بچانے کے لیے کپاس کا ایک ابمرجنسی پروگرام شروع کریں۔اس کے علاوہ بلوچستان پرتوجہ دے کر اس کارقبہ کاشت کرائیں۔ لوگوں کوسکیورٹی دیں۔وہاں اگنے والی کپاس کا ریشہ بھی بڑا اور فصل بھی زیادہ ہوتی ہے۔کورونا کی وجہ سے پاکستان اور بیرون ملک بے روزگار ہونے والوں کو روزگار دینے کے لیے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز کوہدایت کرکے کم شرح منافع پر نوجوانوں کو قرضے دے کر ٹاول اور ہوم میڈٹیکسٹائل کے یونٹ لگائے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت پنجاب بہت اچھا کام کررہی ہے۔وزیراعلی پنجاب بھی زراعت پرتوجہ دے رہے ہیں۔ ہم بھی حکومت سے ہرطرح کا تعاون کرنے کوتیارہیں۔ آپ معیاری بیج کی فراہمی کے اقدامات اٹھائیں۔ 40فیصد لیبر ٹیکسٹائل سیکٹرسے وابستہ جبکہ 90فیصد برآمدات ٹیکسٹائل سیکٹر کی ہیں۔ ماضی میں حکومت کے تعاون کی وجہ سے سپننگ ملزم کوفروغ ملا۔اب ترجیحات بدلنا ہوگی اور گارمنٹس اور تیار کپڑے کوترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ اپٹما اور دیگر سیکٹرز کو کاٹن سیس کے بقایا جات اور ریگولر ادائیگی کرنی چاہیے۔ حکومت کوبھی میچنگ گرانٹ دے کر ریسرچ کے اداروں کواہداف دینے چاہیے۔حکومت کے ساتھ زراعت کی ترقی خصوصاً کپاس کی پیداواربڑھانے پر بہت سی میٹنگز ہوئی ہیں اب وقت آگیا ہے کہ ان میٹنگز کے فیصلوں کا اعلان اور فوری عملدرآمد کرایا جائے۔ اسی طرح چیف منسٹر ٹڈل دل کے خاتمے کے لیے بھرپور کام کررہے ہیں اس کے خاتمے کیلئے ہمیں اس پر مزیدفوکس کرناہوگا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریسرچ کرنے والے اداروں اور زرعی یونیورسٹیز کو فعال کیاجائے۔ 15ملین گانٹھ سے زیادہ پیداوار کا ہدف مقرر کرکے اس کا حاصل کرنے کی جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ زرعی ادویات کے مضر اثرات سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔زرعی سائنسدانوں کو نئے ماحول کے مطابق نئی ورائٹیوں پر کام کرنے کے لیے سہولیات دی جائیں۔ وزارت فوڈ سکیورٹی کپاس کی فصلوں کی خودنگرانی کرے اور کپاس کی فصل کو وزیراعظم ایمرجنسی پروگرام میں شامل کیا جائے۔گلابی سنڈی کے خلاف آف سیزن منیجمنٹ کرکے اس پر کام کیا جائے۔زرعی ادویات پر کم سے کم انحصار کرنے کی پالیسی بنا کر اس پر عمل کیا جائے۔ کراپ زون ڈیکلیئر کرکے اس کی پابندی کی جائے اور وہاں پر مراعات کااعلان کیا جائے۔اچھی کوالٹی کی کپاس کار یٹ الگ ہوناچاہیے۔ پانی کی کمی اور گرمی برداشت کرنے والی ورائٹی متعارف کروائی جائے۔اپٹما کے عہدیداران کپاس کی ہر قسم کی فصل کو مارکیٹ کے مطابق خریدنے کے پابند اور اپٹما کوالٹی کاٹن کی کاشت کے لیے مل کر کام کرے اور کاشتکاروں کو مراعات بھی دے۔ملکی معیشت کے لیے اپٹما کو اب قربانی دینا ہوگی۔ کاشتکار کو زندہ رکھنے کے لیے ٹیکسٹائل سیکٹر کو قربانی دینے کے ساتھ ساتھ ”کپاس اگا?، معیشت بچا?“ کے نعرے پرکام کرنا ہوگا۔