عمران انتظامیہ مشکل میں ۔۔
جب انصاف کے ادارے مضبوط،قانون کی حکمرانی اور عملداری نہ ہو توحکومت اور ادارے نتائج دینے میں معاونت کی بجائے رکاوٹ بن جاتے ہیں...ہم بدقسمت ہیں کیونکہ پاکستان میں لاقانونیت اگر جگہ پالے تو ہر جگہ بچے دیتی ہے..۔شہباز شریف تواپوزیشن لیڈر ہیں, یہاں تو اعلی عدالتوں کے جج ناانصافی حرکتوں سے محفوظ نہیں ہیں..۔ تکنیکی بنیادوں پر انکی روانگی رکی ضرورہے عدالتی حکم پرآخرکار عمل ہوکر رہے گا..۔حکومت کب تک انصاف کی عملداری روکے گی اور اپنا مذاق بنوائے گی???شہباز شریف کی رہائی سے حکومت سخت اضطراب میں ہے۔ شہباز شریف گورنمنٹ ان ویٹنگ ہے اور یہی سلطنت عمرانیات کو ڈر ہےکہ بجٹ کے بعد بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی???
حکومت لیکن سازشیں ڈھونڈنے کے چکر میں سازشیں ایجاد کررہی ہے..۔ حکومت حدیبیہ کیس کو ازسر نو تفتیش کرنا چاہتی ہے ..۔ آپ صلح حدیبیہ کی بجائے حدیبیہ پیپر ملز کا تفصیلی فیصلہ پڑھتے جائیں جسکی نظر ثانی بھی خارج ہوچکی ہے..۔دیوار سے لگی حکومت اب توہین عدالت کی طرف پیش قدمی کررہی ہے۔...قاضی عیسی کیس نظر ثانی کا تفصیلی فیصلہ جعلی ریفرنس سازوں کی کم علمی غفلت اور سازش کا پول کھولے گا اور تادیبی کاروائیوں کی سفارش بھی کرسکتا ہے۔... نیب کے بیس سالہ کارکردگی پر پارلیمانی یا جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے تاکہ نیب کی کارگردگی کا تعمیری جائزہ لیا جاسکے ۔.. میں نے اسطرح کی سیاسی انتقام کی کوشش دنیا میں کہیں نہیں دیکھی جہاں چہرہ دیکھا گیا کیس نہیں.. ۔حدیبیہ کیس کے زریعے شاید کوئی نئی براڈشیٹ کمپنی کھولنی ہو..۔آئین اور قانون تو نظرثانی شدہ معاملے کو کھولنے کی اجازت نہیں دیتا تاوقتیکہ کہ نئے ثبوت نہ ہوں جو عدالت میں نہ آئے ہوں،انصاف کے احتمال کا خطرہ ہو اور عدالت ہی اس کی اجازت دے..۔ ہم بھٹو کیس میں انصاف کیلئے اب تک رائے نہیں دے سکے تو یہ تو ایک عدالت کی طرف سے بند معاملہ ہے... دوبارہ کھولنا دہری سزا کے مترادف ہے کیونکہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ انصاف کی فراہمی کی نفی کے مترادف ہے۔.. یہاں تو تاخیر غفلت کی حدود سے باہر ہے۔۔۔
سو میری رائے میں حدیبیہ کیس کھولا نہیں جاسکتا لیکن صرف سعودی وزٹ اور کشمیر پر سیل آوٹ سے توجہ بٹانے کے لئے اسے سیاسی طور پر استعمال کیا جارہاہے۔۔۔ سعودی عرب نے عمران خان نیازی کو چاول تو خیرات میں دیے ہیں مگر اگلی حکومت کو صحیح مراعات ضرور ملیں گی.. اس دورے میں فوجی قیادت نے اسلے بیج بو دیے ہوں گے۔۔۔ جنرل باجوہ نےسیلیکٹڈ کی باگ اپنے پاس رکھی ہوئی ہے ۔۔۔۔ حکومت لائف سپورٹ مشین پر چل رہی ہے۔۔۔۔ شہباز شریف ضمانت کیس پر عمران خان انتظامیہ کے بلند و باگ دعوے موم بتی کی بھیجنے سے پہلے پھڑپھڑا ہٹ کے مترادف ہے ۔۔۔ موجودہ انتظامیہ کی توہین عدالت آمیز اقدامات ان کے مستقبل کے لئے خطرناک ثابت ہوں گے۔۔۔
اسرائیل کے القدس پر حملے نے اس انتظامیہ کی رہی سہی ساکھ اور امیدیں بھی مٹی میں ملا دیں ہیں ۔۔۔۔ سفارتی تعلقات تو درکنار اب عوامی اشتعال انہیں اسرائیل کے آس پاس بھی نہیں پھٹکنے دے گا۔۔۔ کشمیر پر بھی عوامی رد عمل کے تحت پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔۔۔ پارلیمانی نظر ثانی کے بغیر کوئی کسی کو اڈے تو درکنار پاکستان میں گھسنے نہیں دے گا۔۔۔ افغانستان میں سر اٹھاتے طالبان قبائل علاقے اور پاکستان کے افغان اور بلوچستان بارڈر پر ملکی سلامتی کے نئے خطرات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔۔ انکے مغربی سپانسرز انکی اس کمزوری سے خوب واقف ہوں گے جن سے انکی ڈیلیوری متاثر ہوگی۔۔۔
حزب اختلاف اس معاملہ پر حکومتی پابندیوں سے آزاد ہوکر عوامی جذبات کی ترجمانی کرسکتی ہے اور میاں شہباز شریف کے اسلام آباد میں فلسطین کے سفارت خانے جانے اور ایک موثر بیان دینےسے لگتا ہے اسکا آغاز ہو چکا ہے۔۔۔ پی ڈی ایم کے سربراہ اور مسلم لیگ ن کے قائد کا جاندار بیان آنے والے دنوں کی سختیوں کی تنبیع کررہا ہے۔۔۔
حکومت اپنی کارکردگی اور بدانتظامی مسائل میں الجھی ہے۔۔۔ ڈیپ سٹیٹ ڈیپ ہوتی جارہی ہے اور غریب کی حالت غریب تر۔۔۔مشکل ہے یہ حکومت کرپشن اور نیبی انتقام کے بیانئے سے نکل سکےکچھ ریٹائرڈ مشاورتی اب بھی ٹکٹکیوں کے خواہشمند ہوں گے۔۔۔ قاضی فائز عیسی نظر ثانی فیصلہ مزید تبدیلیاں لائے گا اور ابھی اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔۔۔ میڈیا کی جانب سے یہ بھی سوال جائز ہے کہ ن لیگ حکومت سے آخر چاہتی کیا ہے؟؟؟ حکومت کاخاتمہ بھی چاہتی ہے مگر بظاہرحکومت گرانے کی کوئی تحریک بھی نہیں۔۔۔ استعفے دینابھی چاہتی ہےاور دینے سے انکاری بھی۔۔۔۔ انتخابی عمل سےنالاں بھی اورضمنی انتخاب میں پیش پیش بھی ۔۔۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ ن لیگ کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ آخر چاہتی کیا ہے؟ لیکن میرے خیال میں وقت ہر سوال کا جواب ہے اور نواز شریف کے پاس مریم نواز شریف اور وقت ہی وقت ہے۔۔۔ پیپلز پارٹی بھی وقت اور بلاول رلھتی ہے۔۔۔ نوازشریف طاقتور ترین سیلیکٹرز اور سیلیکٹڈ کی حسب دعوی کرپشن سے پاک نیوکلیائی تبدیلیوں کی انتظامیہ کی امید میں ہیں۔۔۔ اربوں درخت،کروڑوں نوکریاں،لاکھوں گھر ناپید ہو چکے ہیں اور اس میں کوئی پیداواری امید نہ ہے۔۔۔ قحط الرجال کا شکارحکومتی نااہلی کا بانجھ پن بچے دے رہا ہے۔۔۔غریب عوام اب روٹی اور روزگار کے ہاتھوں تنگ ہیں۔۔۔ اقتصادی بدحالی کی وجہ سے خود کشیاں شروع ہوچکی ہیں۔۔۔ نئے انتخابات اور چہرے بدلنا معروضی حالات کے عین مطابق عقلمندانہ حل تو ہے مگر کب یہ فیصلہ اب سیلیکٹرز اور سیلیکٹڈ کریں گے۔
انتخاب ہی بہرحال تبدیلی کا اصل مینڈیٹ اور حکومت کرنے کی طاقت دے گا اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک قانونی ریلیف اور سکھ کا سانس بھی دے سکتا ہے۔ اوپر سے کورونا نے رہے سہے اقتصادی بھرم کا بھر کس نکال دیا ہے۔۔۔ بات اب صدقے، زکواۃ اور فطرانے کی بین الاقوامی کولیکشن تک پہنچ چکی ہے۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اس حکومت کو سہارا دینے اور اپوزیشن اور میڈیا کو دیوار سے لگانے میں صرف ہوچکی ہے۔۔۔ باقی رہی سہی طاقت اور مدت ملازمت اس ناکامی کا ملبہ اپنے سر سے ہٹانے میں لگ جائیگا۔۔۔ اگلی توسیع اتنی کمزور وکٹ پر کم ملتی ہے اور دونوں طرف کے لوگ اور جانے والے اور آنے والے عزت سے عازم رخصت کرنے پر اکتفا کرتے ہیں سو لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام ۔
ایک اور بات جو آجکل خبروں میں ہے وہ میاں جاوید لطیف کا ماضی میں جاوید ہاشمی کی طرح ہواؤں کی زد میں ہونا ہے۔۔۔وہ ایک باعزت ممبر پارلیمنٹ اور حزب اختلاف کے سرکردہ لیڈر ہیں۔۔۔ انکے بیانات کو بنیاد بناکر انکے ساتھ رانا ثنااللہ اوردوسرے لیگی اکابرین کی طرح سلوک قابل مذمت ہے۔۔ انکے ساتھ حکومتی زیادتی ہورہی ہے ریاست نوٹس لے۔۔۔ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ آج کی اپوزیشن کل کی حکومت ہے۔۔۔ ہم نے پاکستان میں غداریوں کی تاریخ غور سے دیکھی ہے لیکن ہم نے ڈھاکہ کے ڈوب جانے، کشمیرکے لٹ جانے اور سیاچن کے چھن جانے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔۔۔
پاکستان نے وزرائے اعظم کو زبردستی بزور طاقت پھانسی چڑھا کر، جلا وطن کرکے دیکھ لیا لیکن عوام کی جمہوریت سے وابستگی کم نہیں ہوئی۔۔۔ مسلہ جاوید لطیف کا نہیں پاکستان کو درست “سمت “ پر چڑھانے کا ہے۔۔۔ ہم کب تک یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کا ہائیبرڈ کھیل کھیلیں گے ؟؟ایک دن عوام سرخرو ہوکر رہیں گے اور ملک کی سیاسی قیادت کا آئین کی بالادستی کے لئے کچھ کہا سنا ہی آخری سچ ثابت ہوگا ۔۔۔ جمہوریت انصاف اور قانون کی حکمرانی میں ملک کی عزت پنہاں ہے۔ بندوق کے زور پر سیاسی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید بگڑ جاتے ہیں۔۔۔ ووٹ کو عزت دو ہی اس قوم کا مستقبل ہے۔۔۔ ہمیں جاوید ہاشمی کے خط لہرانے کی طرح میاں جاوید لطیف کے بیان کو بنیاد بنا کر انہیں دیوار سے لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔۔۔ پاکستان کی سلامتی اتنی کمزور تو نہیں ۔ پاکستان پاکستانیوں کی حالت زار سے کھپے گا اور آدھا تو اپنی ناکامیوں سے گنوایا ہے ۔ اچھی بات یہی ہے کہ جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن زار زار لٹا دیا۔۔۔
پاکستان کے اردگرد دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے۔ افغانستان میں لڑکیوں کے سکول پر حملے کی سخت مذمت ہے جس میں درجنوں شہید اور زخمی ہوئےہیں۔ پاکستان نے سولہ دسمبر 2016 کا پشاور کا سانحہ دیکھا ہے اور سمجھ سکتے ہیں کہ اس طرح کہ تباہی اور موت کو دیکھنا کسی بھی معاشرے کے لئےکتنا تکلیف دہ ہے ۔۔۔ایسے وقت میں حملہ جب امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کا اعلان کیا ہے خطے پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔۔۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی صورت میں اور کسی بھی شکل میں تشدد قابل مذمت ہے۔۔۔ ہماری دعائیں متاثرہ خاندانوں, افغانی عوم اور ریاست کے ساتھ ہیں۔
ابھی افغانستان میں حملے کی مذمت ہوہی رہی تھی کہ اسرائیلی افواج نے مسجد اقصیٰ کے باب الرحمت کو توڑ کر نمازیوں پر حملہ کر دیا۔۔۔ عرب دنیا, ترکی اور پاکستان نے اس واقعے کی سخت مذمت کی ہے۔۔۔مسجد اقصی میں جاری بربریت ہر لحاظ سے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے مگر افسوس کہ اسلامی دنیاخاموش ہے اور اسلامی بلاک اپنی نااتفاقی کے باعث اپنے قبلہ اوّل کے تقدس کو پامال ہوتا دیکھ رہی ہیں جسطرح انہوں نے توہین رسالتﷺ کے خاکوں پر بے عزتی برداشت کی ہے۔۔۔
اسلامی دنیا کا کوئی مشترکہ بیان لائحہ عمل اور مستقبل نہیں ہے۔ جس طرح پاکستان سعودی عرب کے سامنے مجبور ہے ۔۔۔ اسلامی بلاک اور او آئی سی بھی آگے کہیں مجبور ہیں۔۔۔ اللہ آزادیاں دلائیں لیکن اس سے پہلے کہ یہ واقعہ مشرق وسطی میں آگ اور خون کا کھیل دوبارہ شروع کردے ہمارا مطالبہ ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی رمضان المبارک کےمہینے میں ایسے غیر ذمہ دارانہ , اکسانےوالے اور بے حس فعل کا فوری نوٹس لے۔۔۔مساجد اور مقامات مقدسہ کا تقدس ہر حال میں مقدم ہونا چاہئیے۔
قبلہ اوّل پر حملے پر عالمی رہنماؤں کو غلط کو غلط کہنا چاہئیے۔۔۔سعودی عرب کو آگے بڑھ کر نمائندگی کرنی چاہئیے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں معاملہ کو بھرپور طریقے سے اٹھانا چاہیے اور بین الاقوامی سطح پر رد عمل اور اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہئیے ۔۔۔ یہی اسلامی بلاک کی لیڈرشپ کا تقاضا ہے۔ ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ فکسطین ایک محکوم اور اسرائیل ایک جابر اور قابض فورس ہے ۔ دونوں کو ریاستی درجہ دیتے ہوئے ایک پرامن ہمسایہ کے طور پر رہنے میں مدد دینا ہی اصل بین الاقوامی حل کی طرف پیش قدمی ہوگی۔۔۔ ہم کب تک فلسطینیوں کے ساتھ اس ظلم کو بے حسی کے ساتھ برداشت کرتے رہیں گے۔۔۔ ترکی کے طیب اردوان نے صحیح کہا ہے کہ اگر ہم آج القدس کا دفاع نہ کرسکے تو کل مکہ اور مدینہ کا دفاع کیسے کریں گے۔۔۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے۔ اسلامی اتحاد میں برکت ہے۔
(بیرسٹر امجد ملک ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز برطانیہ کے چئیرمین اور سپریم کورٹ بار اور ہیومن رائیٹس کمیشن پاکستان کے تاحیات رکن ہیں)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔