واشنگٹن کی سیاست۔۔۔ اوردوبارہ صدر بننے کی"ضد"، امریکی ووٹرز آئندہ انتخابات میں کیا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں ؟

تحریر :جمال خان ( واشنگٹن ڈی سی)
امریکی صدر جو بائیڈن سے جب بھی کوئی صحافی ان کی عمر اور "بڑھاپے" کے بارے میں عوامی رائے کا حوالہ دیکر سوال پوچھتا ہے تو جواب میں 80 سالہ امریکی صدر شرماتے ہوئے ہلکا سا مسکرا کر جواب گول تو کر جاتے ہیں لیکن اسی لمحے ان کے چہرے کو بغور دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ دل ہی دل میں سوال کرنے والے کو "بڈھا ہوگا تیرا باپ"کہہ کر اپنی بھڑاس نکال رہے ہوں ۔وہ ایسی خبروں سے بالکل بھی پریشان نہیں ہوتے کہ 70 فیصد امریکی ووٹرز نہیں چاہتے کہ ان کا صدر اتنا ضعیف العمر ہو۔ بالخصوص ان کی اپنی ڈیموکریٹ پارٹی کے ووٹرز کا ان سے مطالبہ ہے کہ وہ اس عمر میں دوبارہ صدر بننے کی"ضد"چھوڑ کر پارٹی کے اندر سے دوسرے اُمیدواروں کو پرائمری انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیں تاکہ ان میں سے کوئی ایک 2024 میں ممکنہ طور پر ری پبلکن پارٹی کے مضبوط امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کر سکے۔لیکن جو بائیڈن بقول "ظفر اقبال"کے
سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا
میں بوڑھا ہوتا جاتا ہوں
جوان ہونے کی خاطر ۔۔
ایسی کسی بھی تجویز کو خاطر میں لائے بغیر امریکی عوام کو کبھی تو وائٹ ہاؤس کے لان میں کھڑے اپنے ہیلی کاپٹر کی طرف تیز تیز بھاگ کر اپنی فٹنس کا ثبوت دیتے ہیں تو کبھی ائیر فورس ون کی سیڑھیاں ایک ہی سانس میں چڑھ کر جہاز کے اندر داخل ہوجاتے ہیں( جہاز کے اندر پہنچ کر ان کی کیا حالت ہوتی ہے) ایسی خبریں ابھی تک میڈیا والوں کی پہنچ سے دور ہیں)۔یہ سارے کرتب دکھانے کے بعد بھی اگر صحافیوں کی تسلی نہیں ہوتی تو پھر ان کا سٹاف جو بائیڈن کے ذاتی معالجوں کی وہ میڈیکل رپورٹس لہرا کر دکھاتا ہے جس میں جو بائیڈن کو ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل طور پر صحت مند قرار دیا گیا ہے۔جس کا سادہ سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس عمر میں بھی وہ ملک کے اندر(9/11) جیسی کسی بھی ہنگامی صورتحال میں امریکی فوج کے کمانڈر ان چیف کا کردار بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں.80 سالہ جو بائیڈن آج بھی اپنے دن کا آغاز بھرپور ورزش سے کرتے ہیں وزن بھی اٹھاتے ہیں اور اکثر سائیکل پر سوار ہوکر پیڈل مارتے ہوئے ریاست ڈیلاور میں اپنے آبائی گھر کے پاس ساحل سمندر پر بھی پہنچ جاتے ہیں اگرچہ جون 2022 اپنا پاؤں پیڈل میں پھنسا کر وہ زمین پر گرنے سے اپنے آپ کو زخمی کروا بیٹھے تھے لیکن یہ وہ وقت تھا جب ان کی مقبولیت کا گراف اتنا کم نہیں تھا اور لوگوں نے اسے معمول کا واقعہ سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا نہ کہ انہیں اپنی عمر کا لحاظ کرتے ایسے کاموں سے دور رہنے کی نصیحت کی تھی ۔لیکن تقریباً ایک سال کے بعد کافی کچھ تبدیل ہوچکا ہے اور حالیہ سروے کے مطابق ان کی مقبولیت کا گراف 40 فیصد سے بھی کم ہوگیا جو پچھلے سال 55 فیصد تک تھا ۔بڑھتے ہوئے افراط زر، امیگریشن اور یوکرین جیسے معاملات پر خراب حکومتی کارکردگی نے ان کے کچھ اچھے حکومتی اقدامات کو بھی گہن لگا دیا ہے جیسے امریکی تاریخ میں کسی بھی صدر کے دور میں شہریوں کو اتنی زیادہ تعداد میں نوکریاں مہیا کی گئی ہوں ۔اس کے علاوہ ملک کے اندر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لئے کھربوں ڈالرز کا بجٹ کانگریس سے منظور کروانا بھی ان کے دور صدارت کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جانب مضبوط اپوزیشن ری پبلکن پارٹی والے جو بائیڈن کی عمر اور ضعیف العمری کو اپنی سیاست کا ایک اہم نقطہ بناتے ہوئے امریکی عوام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو بائیڈن اس عمر میں امریکی عوام کی قیادت کرنے کے اہل نہیں ہیں اور بطور ثبوت صدر کی وہ ویڈیوز امریکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں وائرل کررہے ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ جو بائیڈن کیسے بات کرتے ہوئے مناسب لفظ کہنا بول جاتے ہیں اور ان کے منہ سے الٹے سیدھے الفاظ برآمد ہوئے ہیں جیسے وہ ڈی منشیا کے مریض ہوں۔کچھ ویڈیوز میں دکھایا جاتا ہے کہ وہ چلتے ہوئے اپنا توازن بھی قائم نہیں رکھ پاتے! تو کیا امریکی عوام ایسا بوڑھا کمانڈر اینڈ چیف وائٹ ہاؤس میں بھیجنا چاہیں گے؟
وہ اپنے ووٹرز کو ایسے خدشات سے بھی ڈراتے رہتے ہیں کہ اگر جو بائیڈن کو اس عمر میں کچھ ہوجاتا ہے تو کیا امریکی عوام نائب صدر کمیلا ہیرس کو ایک سیاہ فام "عورت" بطور امریکی صدر دیکھنا پسند کریں گے؟امریکی تاریخ میں آج تک کوئی بھی خاتون وائٹ ہاؤس میں بطور امریکی صدر نہیں پہنچ پائی۔یاد رہے کہ امریکی آئین کے مطابق اگر صدر اپنی خراب جسمانی یا ذہنی صحت کی وجہ سے سرکاری فرائض انجام نہ دے سکے یا اس کی ناگہانی موت واقع ہوجائے تو ایسی صورت میں فوراً ہی نائب صدر بقیہ مدت کے لئے بطور صدر ذمہ داریاں سنبھال لیتا ہے)
صدر جو بائیڈن کے "بڑھاپے"کی مشکلات صرف یہی پر ختم نہیں ہوتیں اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس وقت بالکل درست بات لگنے لگتی ہے جب بائیڈن کے اپنے ہی قریبی سٹاف اور کابینہ کے لوگ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کچھ صحافیوں سے اپنی جھنجھلاہٹ کا برملا اظہار کر دیتے ہیں کہ انہیں امریکی صدر کو ایسے سنبھالنا پڑتا ہے، ان کا ایسے خیال کرنا پڑتا ہے جیسے وہ اپنے بوڑھے والدین یا دادا دادی کا کرتے ہیں ۔یقیناً ان کا اشارہ جو بائیڈن کے ان کاموں کو بھی انجام دینے کی طرف ہوتا ہے جو بطور صدر انہیں خود کرنے چاہئیں۔ پھر اکثر جو بائیڈن کی بلا سوچے سمجھے بولنے کی عادت اور کئی موقعوں پر ان کے منہ سےکوئی ایسی الٹی سیدھی بات کا نکل جانا جس کی بعد میں صفائیاں دینا پڑ جائیں بھی سٹاف کے لئے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ھے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سٹاف اور کابینہ کے لوگوں کی ایسی پریشانیاں نہیں تھیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا منہ پھٹ ہونا اور اپنے سیاسی مخالفین کے لتے لینے کو امریکی عوام بھرپور پذیرائی بخشتے تھے اور ایسا کرنا ٹرمپ کو راس آ گیا تھا اور سٹاف نے بھی صبر شکر کرکے ان کی الٹی سیدھی باتوں کی صفائیاں پیش کرنا ترک کردی تھیں۔جو بائیڈن کے سٹاف کی ایک اور پریشانی یہ بھی ہے کہ عمر کے جس حصے میں جو بائیڈن ہیں اس عمر میں اکثر بوڑھے افراد چلتے ہوئے اپنا توازن قائم نہیں رکھ پاتے اور گرکر اپنی کوئی نازک ہڈی تڑوا لیتے ہیں (امریکہ میں ہر سال 3 کروڑ 60 لاکھ عمر رسیدہ افراد کے گھروں اور عوامی مقامات پر گرنے کے واقعات پیش آتے ہیں ۔جن میں تقریباً 32 ہزار افراد کی اموات ہوتی ہیں) تو کیا امریکی ووٹرز واقعی انتخاب والے دن امریکی صدر کی عمر کو مدنظر رکھ کر اپنے ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ دو میں کس کو اپنا صدر منتخب کریں ۔ اگلے حصے میں اس حوالے سے چند دلچسپ اعداد وشمار پیش کئے جائیں گے۔( جاری ہے )
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں