وقت کی ضرورت :جماعت اسلامی کے کارکنوں سے چند باتیں (2)

وقت کی ضرورت :جماعت اسلامی کے کارکنوں سے چند باتیں (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                                                        جماعت اسلامی کے ہر ذمہ دار اور کارکن کے بارے میں حسن ظن کی بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ مطالعے کا خوگر ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، معاشرے سے پرانی اقدار رخصت ہوتی جا رہی ہیں اور نئی اقدار جنم لے رہی ہیں۔ایسے عالم میں لوگوں کو مطالعے کی طرف متوجہ کرنا فی الحقیقت ایک مشکل کام ہے۔اگر انسان مطالعے کا خوگر ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ہر رطب دیا بس پڑھ جاتا ہے، جو رسالہ ہاتھ آیا ،اس کو چٹ کرلیا، جو مضمون دیکھا اس پر اول تا آخر نظر ڈال لی۔پڑھتے پڑھتے بالآخر انسان کے اندر ایک ذوق بھی پیدا ہونے لگتا ہے کہ وہ کوئی کتاب اٹھاتا ہے، کوئی رسالہ اس کے ہاتھ آتا ہے تو چند لمحوں کے اندر ورق گردانی اور اس کی سرخیاں دیکھ کر اندازہ کرلیتا ہے کہ یہ میرے کام کی چیز ہے یا نہیں۔مَیں جن مقاصد، زندگی کے جس نصب العین اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے لئے جو زادِ راہ جمع کر رہا ہوں، اس میں یہ مفید اور معاون ہے یا نہیں؟اگر مفید ہوتا ہے تو وہ اس سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ اس کے لئے نفع بخش نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیتا ہے۔اس کے نتیجے میں صرف انہی چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اس کی کارکردگی میں بہتری ، جوش و خروش اور وابستگی میں بڑھوتری کا ذریعہ بنے۔
جماعتی مجالس میں اب غیر فعال کارکن کا ذکر ہونے لگا ہے اور کہیں کہیں ارکان کے بارے میں بھی یہی کہا جانے لگا ہے۔غیر فعال بھی اور کارکن بھی، حالانکہ کارکن تو نام ہی میدان کے اندر موجود متحرک ،فعال اور بیدار شخصیت کا ہے۔یہ متضاد اصطلاح اس لئے سنائی دیتی ہے کہ بہت سے لوگ ہنگامی طور پر بہت کام کرتے ہیں، جس کی قدر کرنی چاہیے اور بعض اوقات وہ معمول کے کارکن سے زیادہ حصہ بٹاتے ہیں اور بڑے پیمانے پرپُرجوش اور متحرک دکھائی دیتے ہیں اور کچھ کر گزرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوتے ہیں،لیکن اگر ایسے غیر فعال کارکنوں کی ایک فہرست بنائی جائے، جنہوں نے ہنگامی طورپر بہت کام کیا، مگر جماعت اسلامی ان کے جسم و جان اور ان کی سوچ و فکر کے اندر اتاری نہ جا سکی تو اس کی بڑی وجہ یہی نظر آئے گی کہ وہ بنیادی لٹریچر جو فی الحقیقت جماعت اسلامی جیسی انقلابی تحریک کی اساس ہے، اس کے مطالعے کی طرف ان کی طبیعت کو مائل نہ کیا جا سکا اور وہ اس فکر کو حرزِ جاں نہ بنا سکے جو جماعت اسلامی کی بنیاد ہے۔
موثر تنظیم اور سیاسی حکمت عملی:جماعت اسلامی کی تنظیم میں ضلع سب سے اہم اکائی ہے۔اس کا فعال ،سرگرم اور پُرجوش ہونا پورے ملک کے اندر جماعت کی تنظیم کا متحرک ہونا شمار ہوتا ہے۔اس کی اچھائیاں اور خوبیاں پورے ملک کے اندر جماعت کی اچھائیاں اور خوبیاں تصور کی جاتی ہیں اور اس کی کمزوری اور کوتاہی پوری جماعت کی کمزوری اور کوتاہی کے مترادف ہے۔اضلاع کی اس اہمیت کے پیش نظر وہاں سب سے اہم کام مناسب اور سرگرم ٹیم بنانا ہے۔جب کوئی فرد ذمہ داری کا بار اٹھاتا ہے تو اسے اپنا ہاتھ بٹانے، اپنی صلاحیت کی کمی کو دور کرنے اور اپنے بعض معاملات کو زیادہ بہتر طریقے سے انجام دینے کے لئے ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔اسے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کس فرد میں کیا صلاحیت اور کیا استعداد ہے اور کس طریقے سے وہ تنظیم اور جماعت کے کام آ سکتا ہے اور معاملات میں دلچسپی لے کر ہاتھ بٹا سکتا ہے؟لیکن ٹیم کے نام پر گروہ بنا لینا ،اپنے ہم نوا اور ہم خیال اکٹھے کرلینا، ایسے لوگوں کو جمع کرلینا جو ہاں میں ہاں ملاتے ہوں، درست نہیں ہے،جس سے بچنا اولیٰ ہے۔انسانوں کی تنظےم اور اکائی میں ہمیشہ اس بات کی گنجائش رہی ہے کہ اس حوالے سے کوئی کمزوری اپنا راستہ بنا لے، لیکن اگر ذمہ داران جماعت اپنے رویوں پر از سر نو غور کریں اور تنظیم کو اس حوالے سے صاف اور روشن بنا دیں، تو پھر لوگوں کے لئے کام کرنا آسان اور سہل بھی ہو جائے گا اور ان کے ذوق و شوق میں بھی اضافہ ہوگا ، نیز بہترین صلاحیت کے حامل ساتھی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کر سکیں گے۔
بطور تنظیم، جماعت اسلامی کی ایک کمزوری حالیہ انتخابات میں ایک بار پھر ظاہر ہوئی ہے۔جماعت کے پاس کارکنان اور اس کے جلو میں چلنے والے لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔فہم قرآن کے اجتماعات میں 50،60ہزار لوگ آتے ہیں اور بڑے شوق سے جماعت کی دعوت اور ذمہ داران کی گفتگو سنتے ہیں۔خیبرپختونخوا میں، جہاں خواتین کے ووٹ دینے نہ دینے کی بحث ہوتی ہے اور جہاں لوگ عورتوں کوگھروں سے باہر نہیں جانے دیتے، وہاں فہم قرآن کے اجتماعات میں ہزار ہاہزار خواتین شامل ہوتی ہیں اور رات کے وقت بھی شریک ہوتی ہیں اور دن کو بھی، کیونکہ لوگ اس کو ثواب اور دین کا کام سمجھتے ہیں۔جماعت نے ہزروں،بلکہ لاکھوں لوگوں کو پورے ملک کے اندر فہم قرآن کے حوالے سے جمع کیا ہے۔یہی معاملہ الخدمت فاﺅنڈیشن کا ہے کہ ہم لاکھوں لوگوں تک الخدمت کے ذریعے پہنچے ہیں اور بلا تفریق مسلک و مذہب اور زبان، ان کی خدمت کی ہے۔ان دونوں صورتوں میں رجوع کرنے والوں کو ووٹ کی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔یہ اگر ووٹر نہیں بن سکے تو اس میں ان کے بجائے تنظیم اور اس کے کارکنوں کی کمزوری کا دخل ہے۔
یہ بات قابل غورہے کہ اجتماعات میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں، جماعت اور اس کی قیادت سے عقیدت کا اظہار بھی کرتے ہیں، مگر ووٹر نہیں بن پاتے۔ انتخابات سے پہلے کے تین مہینوں میں جماعت نے جگہ جگہ بڑے بڑے جلسے کئے، ان میں حاضری کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی، لیکن وقت اور حالات نے بتایا کہ ان جلسوں میں آنے والے لوگ جنہوں نے اپنا وقت اور پیسہ صرف کرکے ہمارا موقف سنا، مقررین اور انتخابی نمائندوں کو دیکھا، اس پر قائل نہ ہو سکے کہ ووٹ بھی ہمیں دیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رابطہ عوام میں تسلسل نہیں ہے۔ایک رابطے کے ذریعے لوگ اجتماعات میں آ جاتے ہیں، سیلاب و زلزلہ زدہ علاقوں میں ہماری خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔تعلیم و صحت اور معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں ہم سے مستفید ہوتے ہیں،مگر جماعت کا کارکن انہیں اس درجہ ہمنوا نہیں بنا پاتا کہ بالآخر وہ ہمارا ووٹربھی بن جائے۔نچلی سطح تک اس موضوع کو زیر بحث لانا چاہیے کہ ہماری تعریف کرنے والے اور معاشرے میں ہمارے ہم نوا لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ہمارے موقف سے اتفاق کرنے والے بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ہمیں پسند کرنے اور ہمارے حق میں دعائیں کرنے والے بھی کم نہیں ہیں،اگر یہ سب لوگ ووٹر بن جائیں تو وہ انقلاب جو بہت دور نظر آتا ہے، بہت پہلے برپا ہو سکتا ہے۔
بلدیاتی انتخابات میں حکمت عملی:آنے والے بلدیاتی انتخابات پھر اس کا موقع فراہم کرنے والے ہیں کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اور کارکن بہتر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں آئیں اور اس حمایت کو سیاسی قوت میں بدلنے کی بھرپور کوشش کریں۔ سیاسی و بلدیاتی دائرے کے اندر فعال ہونا کئی حوالوں سے جماعت کی بھی ضرورت ہے اور عوام کی بھی۔ اس میں کم سے کم کامیابی پیش نظر رہنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں پانچ سیٹوں میں سے ہمیں ایک سیٹ مل سکتی ہے وہاں دوکی کوشش نہ کریں، ورنہ وہ ایک بھی ہاتھ سے جا سکتی ہے ۔ماضی میں ہم اس طرح کے تجربات سے گزر چکے ہیں۔بلدیاتی انتخابات میں سب سے اہم رول اضلاع کا ہے۔صوبوں کا کردار اس میں ثانوی ہے، کیونکہ ان کو معلوم نہیں کہ کس جگہ پر کیا حالات ہیں۔اضلاع کو یہ بات بہتر طور پر معلوم ہے کہ کون کون سے مقامات ایسے ہیں، جہاں انہیں زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
بلدیاتی انتخابات ایک بہترین موقع ہے کہ نوجوان قیادت کو سامنے لایا جائے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ نوجوان زیادہ متحرک اور پُرجوش ہوتے ہیں اور کم وقت میں زیادہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایسے ہی نوجوان تحریکوں کے لئے سرمایہ ہوتے ہیں۔نظم جماعت کو بلدیاتی انتخابات میں ایسے نوجوانوں کو سامنے لانا چاہیے، ان کے مشوروں اور تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور انہیں ضروری آزادیءعمل دینی چاہیے، تاکہ وہ تحریک کے لئے بہترین نتائج دے سکیں۔ اس تناظر میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ نوجوانوں کا سب سے بڑا اور منظم گروہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہے۔ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے ہو، جمعیت طلبہ عربیہ سے ہو ، شباب ملی سے ہو یا کسی بھی دوسری برادر تنظیم سے۔یہ نوجوان اس ملک کے اندر انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔قرآن و سنت کی بالادستی اور شریعت کا نفاذ، حکومت الٰہیہ کا قیام ، زندگی کے تمام دائروں میں اسلام کے احکامات اور اس کی ہدایات پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔بحیثیت ذمہ دار اور کارکن یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ نوجوانوں کو بامقصد بنائیں، زندگی کے نصب العین کے لئے جدوجہد کرنے کا عنوان ان کے دل و دماغ میں سجائیں اور زندگی اس ملک میں جن راہوں سے گزر رہی ہے، جتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہے، حکمرانوں کے اللے تللے، لوٹ مار اور کرپشن کے کلچر کا سامنا ہے، اس کا مقابلہ نوجوانوں کی طاقت اور صلاحیت سے ہی ہو سکتا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو متحرک ،فعال اور بیدار کرکے جدوجہد کا خوگر بنایا جائے۔(جاری ہے)  ٭




























موجودہ حکومت کی کارکردگی:ویسے تو بالعموم، لیکن بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر بالخصوص ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جماعت سے وابستہ ہر فرد کو کم از کم ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حد تک حکمران جماعت کا منشور اپنی جیب میں رکھنا چاہیے، تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ انہوں نے اپنے منشور میں لکھا یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، کہا یہ تھا کہ کشکول توڑ دیا ہے اور اپنی شرائط پر قرضہ لیںگے، لیکن کام اپنے منشور سے بالکل برعکس کررہے ہیں۔ جس پارٹی کو یقین ہو کہ وہ الیکشن جیت رہی ہے تو وہ اچھے ہوم ورک کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو یہ معلوم تھا کہ الیکشن جیتتے ہی اسے بجٹ لانا پڑے گا اور اگر تیاری نہ ہوئی تو ٹیکسوں کی بھرمار کرنا پڑے گی۔حکومت کی پانچ ماہ کی کارکردگی سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ منشور ہاتھی کے دانت کی مانند تھا،جن کا معاملہ اس پر ہوتا ہے کہ دکھانے کے اور کھانے کے اور، یا دعوے کے مطابق ان کے پاس کوئی ٹیم نہیں تھی، جو اس پر عملدرآمد کے لئے سوچ بچار کرتی اور کام کرکے لوگوں کو مشکلات سے بچاتی۔
 آئی ایم ایف کی شرائط پر قرض لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھتی چلی جائیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو اور قومی ادارے نجکاری کا شکار ہوتے چلے جائیں۔اس تناظر میں مسلم لیگ(ن) کے منشور کے حوالے سے جماعت اسلامی کے ہر ذمہ دار اور کارکن کا اچھا ہوم ورک ہونا چاہیے۔مناظرے یا جھگڑے کی کیفیت نہ ہو، لیکن یہ بات فیلڈ میں بہ تکرار، بصد اصرار اور ایک بار نہیں سو بار کہنی چاہیے کہ انہوں نے عوام سے جو وعدے کئے تھے، انہیں پورا نہیں کیا ہے۔ وقت نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ الیکشن سے احتساب نہیں ہوتا۔بعض لوگ یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں کہ انتخاب ہی سب سے بڑا احتساب اور فیصلہ کن امر ہے، مگر مشاہدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جو آتا ہے، وہ چوروں کے بادشاہ ،علی بابا کا روپ دھار لیتا ہے اور چالیس چوروں پر سوار ہو کر حکمرانی کرتا ہے۔
عوام الناس کو یہ بتانا چاہیے کہ چوروں کو ووٹ دے کر قسمت نہیں سنور سکتی، مستقبل تابناک اور روشن نہیں ہو سکتا، حالات میں کوئی بہتری پیدا نہیں ہو سکتی۔چوروں کو ووٹ دے کر اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اور کرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا تو اسے بسم اللہ کے اس گنبد سے باہر نکلنا چاہیے۔ان بنیادی حقائق کی روشنی میں ہر صوبے میں وہاں کے حالات کے مطابق انتخابی حکمت عملی اور ووٹر کو مخاطب کرنے کے لئے صحیح بیان تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ملکی، صوبائی اور مقامی تمام حالات اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی انتخابی مہم کو مرتب اور منظم کرنا ہوگا۔
نفاذ شریعت اور جمہوری جدوجہد:جماعت اسلامی نے زمام کار کی تبدیلی کے لئے جمہوریت اور انتخاب کا راستہ اختیار کیا ہے۔جمہوریت کے حوالے سے عمومی طورپر دنیا بھر میں ایک قاعدہ کلیہ اور اصول بیان کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو چلانے کے لئے سیکولرازم اتنا ہی ضروری ہے، جتنا خود جمہوریت۔اگر سیکولرازم نہ ہو تو جمہوریت ناکام ہو جاتی ہے، اس لئے کہ جمہوریت کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے کہ اکثریت تو مذہبی نہیں ہوا کرتی۔اسی حوالے سے ہمارے ہاں بھی یہ بات کہی جارہی ہے کہ فیصلہ سازی شریعت کے بجائے اکثریت کے حوالے کردی گئی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ ایک بڑا مغالطہ ہے۔ اسی لئے مثال دینا پڑتی ہے کہ شراب کی حرمت اور اس پر پابندی کے خلاف اگر اکثریت فیصلہ کرتی ہے تو ہم اسلامی جمہوریت کے قائل ہیں، اس کو تسلیم نہیں کریں گے، لیکن اس کو دوسرے طریقے سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔جماعت اسلامی کی حیثیت پہلے دن سے اسٹریٹ پاور کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔جن چیلنجوں کا مقابلہ کیا گیا اور اہداف کا حصول ممکن ہو پایا اور مختلف حوالوں سے پارلیمنٹ نے جو فیصلے کئے، مثلاً قرارداد مقاصد اور ختم نبوت، تو اس کے پیچھے ایک تحریک اور سٹریٹ پاور تھی اور اس میں جماعت اسلامی پیش پیش تھی۔اگر نظام مصطفی کی تحریک کو لوگ سب سے مضبوط اور بڑی تحریک قراردیتے ہیں تو اصلاً وہ اسٹریٹ پاور تھی، جس نے اس کو یہاں تک پہنچایا۔پاکستان قومی اتحاد کا قیام نظام مصطفی کے لئے نہیں تھا۔اس کے ابتدایئے، تمہید اور اہداف میں کہیں نظام مصطفی کا ذکر نہیں ملے گا، لیکن کیونکہ عوامی سطح پر ایک بڑی تحریک تھی اور جماعت اسلامی ، اس کا کارکن اور اس کی تنظیم اس میں پیش پیش تھی تو وہ نظام مصطفی کی تحریک بن گئی جبکہ کسی اور کے اندر اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ سوال کر سکے کہ یہ نظام مصطفی کہاں سے آ گیا۔
ہم جمہوریت اس لئے چاہتے ہیں کہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہہ سکیں۔آنے والے دنوں میں یہ مسائل پھر درپیش ہوں گے ۔جو لوگ کہتے ہیں کہ سیکولرازم کے بغیر جمہوریت اور حکومت نہیں چلتی، وہ نت نئے مسائل سامنے لاتے رہتے ہیں۔جیسے آج کل یہ بات بہت زیر بحث ہے اور کچھ عرصے تک اسمبلیوں کے اندر آ جائے گی کہ سزائے موت کو ختم کردیا جائے۔ظاہر ہے کہ یہ بات خلافِ شریعت ہے۔جماعت اسلامی کا کارکن اس کو شریعت کے نقطہ ءنظر سے میدان عمل میں لے کر آئے کہ ہمیں کسی کو مارنے سے دلچسپی نہیں ، لیکن شریعت کی سزاﺅں کا تحفظ مطلوب ہے تو بالکل ایک دینی تحریک اٹھ کھڑی ہوگی اور پھر اس میں سزائے موت کا معاملہ ہی نہیں، بلکہ پورا دینی ایجنڈا شامل ہو جائے گا۔
شریعت اور جمہوریت کے تعلق کی نسبت سے ایک بنیادی بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔پاکستان کی آبادی کا 95فیصد حصہ مسلمان ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھتا ہے اور اسے اپنی زندگی کے قانون اور ضابطے کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے ،جبکہ پاکستان کا دستور اس بنیاد پر قائم ہے کہ ریاست اور معاشرہ دونوں کے لئے اسلام رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے اور قانون سازی کا منبع قرآن و سنت ہیں۔شریعت کوئی باہر سے لائی جانے والی چیز نہیں، بلکہ جمہور کا اصل منشا اور مقصود اور ان کے دل کی آواز ہے ، یہی چیز اسلامی جمہوریت کو سیکولر جمہوریت سے ممتاز کرتی ہے کہ جمہور نے ریاستی نظام کار کے لئے اپنی آزادرائے سے اپنے ایمان اور جذبات کے مطابق جو دستوری فریم ورک بنا دیا ہے، اب قانون سازی اسی فریم ورک کے مطابق ہوگی اور یہی حقیقی جمہوریت کی اصل روح ہے۔اس میں کوئی تضاد یا تناقض نہیں۔سیکولر لابی جمہوریت کے نام پر جمہور کے اصل عقائد ،احساسات، خواہشات اور تمناﺅں کے برعکس ایک درآمد شدہ نظام اقدار ان پر مسلط کرنا چاہتی ہے اور اگر اس کے لئے پارلیمنٹ کے ادارے کو بھی دستور کی واضح دفعات اور دستور کی اسپرٹ کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر جمہور کے لئے اپنے مقاصد اور احساسات کو موثر بنانے کے لئے اسٹریٹ پاور کا ہتھیار ہے، جو دنیا بھر میں جمہوریت کا ایک اہم ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔(جاری ہے)

مزید :

کالم -