رواں سال ، ڈاکے ، دشمنیاں ، اندھے قتل ، 384افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے
لاہور( لیاقت کھرل) صوبائی دارالحکومت میں رواں سال کے317 دنوں میں ڈکیتی قتل، اندھے قتل سمیت کئی سال پرانی دشمنیوں کے نتیجے میں 384 خواتین و مردوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ ڈکیتی قتل کے 30 سے زائد کیسوں میں پولیس نے مقدمات کی فائلوں کو ’’ ان ٹریس‘‘ قرار دے کر داخل دفتر کر دیا ہے۔ کرائے کے اجرتی قاتلوں کے ہاتھوں اور اندھے واقعات سمیت کئی سال پرانی دشمنیوں کی بھینٹ چڑھنے کے کیسوں میں پولیس 200 سے زائد ملزمان کی گرفتاری میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی ہے جبکہ معمولی رنجش پر قتل کے 157 واقعات میں پولیس کی جانب سے لاکھوں کی ’’دیہاڑیاں‘‘ لگائے جانے کا بھی انکشاف سامنے آیا ہے۔ ’’روزنامہ پاکستان‘‘ کو لاہور پولیس کی جانب سے ملنے والی معلومات کے مطابق محکمہ پولیس کے انٹیلی جنس ونگ نے ایک خفیہ رپورٹ تیار کیا ہے جس میں صوبائی دارالحکومت میں رواں سال کے دوران لاہور پولیس کی ناقص حکمت عملی کے باعث قتل و غارت اور بالخصوص کئی سال پرانی دشمنیوں نے سر اٹھائے رکھا ہے اور شہر میں ہر پانچویں روز کے بعد پرانی دشمنیوں پر ایک سے دو افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ اس میں کرائے کے ’’ اجرتی قاتلوں ‘‘ کی بھی مدد لی گئی جس میں پیپلز پارٹی ایک مقامی رہنما سمیت بینک افسر اور چوہنگ اور کاہنہ میں دیرینہ عداوت پر متعدد افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے جبکہ اس میں پولیس کی جانب سے پرانی دشمنیوں کی روک تھام کے لئے کسی قسم کی منصوبہ بندی اور اقدامات نہ اٹھائے جانے کے باعث رواں سال کے دوران ڈکیتی قتل اورپرانی دشمنیوں اندھے واقعات کے دوران اب تک 384 شہریوں (مرد و خواتین)کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔جس کے باعث قتل و غارت کی لہر میں تیزی رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھے قتل اور ڈکیتی قتل کے واقعات نے بھی زور پکڑے رکھا ہے اور پولیس کے شعبہ انویسٹی گیشن میں ایک نیا شعبہ ’’ ہوم سائیڈ‘‘ قائم کرنے کے باوجود قتل کے اندھے 50 سے زائد واقعات پولیس کی رسائی سے اب بھی دور ہیں اور ان کیسوں میں پولیس مکمل طور پر پیش رفت حاصل نہ کر سکی ہے جس میں دیرینہ دشمنیوں پر مخالفین نے کرائے کے قاتلوں کی بھی مدد لی ہے جس میں 30 سے زائد ملزمان اپنے ٹارگٹ مکمل کرنے کے بعد دبئی سمیت دیگر ممالک میں روپوش ہیں جس میں مناواں کے علاقہ میں اندھے واقعہ کے دوران پرانی دشمنی کی بھینٹ چڑھنے والے ایک مقامی اخبار کے سینئر کارکن کو بھی کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارا گیا اور اس اہم ترین واقعہ کے ملزمان بھی دبئی سے ہی کرائے پر لائے گئے اور ٹارگٹ پورا کرنے کے بعد ملزمان اگلے روز ہی واپس دبئی روانہ ہو گئے۔قتل جیسے سنگین واقعات کے تفتیش کے لیے پولیس نے الگ شعبہ ’’ہومی سائیڈ‘‘ کو قائم کردیا لیکن یہ شعبہ بھی قاتلوں کی گرفتاری میں ناکام رہا ہے ۔جس کے باعث قتل و غارت اور پرانی دشمنیوں پرقتل کے واقعات میں سنگینی ریکارڈ کی گئی ہے پولیس کے اپنے ہی شعبہ انویسٹی گیشن کے انٹیلی جینس ونگ کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ہومی سائیڈ کے شعبہ میں 52 تفتیشی افسروں کو انچارج ہومی سائیڈ تعینات کیا گیا جن میں سے 25 سے 28 ہومی شعبہ کے انچارجوں پر مبینہ کرپشن ، اختیارات سے تجاوز اور قتل کے جیسے سنگین واقعات کی تفتیش میں نااہلی اور سستی جیسے الزامات پائے گئے ہیں جس کی رپورٹ سی سی پی او کے ماتحت قائم انٹیلی جینس ونگ نے بھی الگ سے تیار کر رکھی ہے جس میں انویسٹی گیشن کے شعبہ سمیت نئے تفتیشی ونگ شعبہ ہومی سائیڈ کو بھی کمزور ترین اور اس کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا گیا ہے جس میں اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ہومی سائیڈ کے تفتیشی افسروں نے قتل، اندھے قتل اور ڈکیتی قتل جیسے اہم ترین اور سنگین واقعات میں ایک سو سے زائد ملزمان کو گرفتار تک نہ کیا ہے اور اس میں 30 سے 35 کیسوں کی فائلوں کو ’’ ان ٹریس‘‘ قرار دے کر داخل دفتر کر دیا گیا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ پولیس کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کے شعبہ ہومی شائیڈ نے قتل جیسے اہم واقعات اور دیگر سنگین کیسوں میں ’’ خانہ پری‘‘ سے کام لے رکھا ہے اور پولیس کے شعبہ انویسٹی گیشن اور ہومی سائیڈ کی قتل، اندھے قتل اور ڈکیتی قتل کے مقدمات میں گرفت کمزور رہی ہے جس میں شعبہ ہومی سائیڈ کے تفتیشی افسروں نے ملزمان کی گرفتاری کی جانب اقدامات اٹھانے کے بجائے محض جیبوں کو گرم کرنے کی جانب زیادہ توجہ دی ہے جس کی بناء پر تفتیشی افسروں کے خلاف مبینہ کرپشن، اختیارات سے تجاوز اور مقدمات میں جرم کو کم کرنے اور بڑھانے جیسے الزامات نے زور پکڑے رکھا ہے اور اس میں پولیس کے اعلیٰ افسران کی مبینہ طور پر فرائض سے چشم پوشی کے باعث تفتیشی افسروں پر گرفت کمزور کا بھی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پولیس کے شعبہ ہومی سائیڈ کو ایک الگ شعبہ کی شکل دینے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی اور نئے اقدامات کرنے کے بارے بھی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے جس میں تفتیشی افسروں کی کمی اور قتل جیسے مقدمات کی تفتیش کے ماہر تفتیشی افسروں کو تعینات کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پولیس کے شعبہ انویسٹی گیشن اور سی سی پی او کے ماتحت کام کرنے والے انٹیلی جینس ونگ کے افسروں کی جانب سے الگ الگ تیار کردہ رپورٹ میں ہومی سائیڈ کے افسروں کو سرکل کے بجائے تھانوں کی سطح پر تعینات کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ایسے مقدمات جن میں کرائے کے قاتل اور ’’شوٹرز‘‘ کی مدد لی گئی ہے اور یہ ملزمان اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے بعد لاہور سمیت دور دراز اور علاقہ غیر سمیت دبئی اور دیگر ممالک میں روپوش ہیں، اُن خطرناک ملزمان کی گرفتاری جس میں ریڈ وارنٹ سمیت تمام تفتیشی امور کو خاطر میں لانے کا بھی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے اور ہومی سائیڈ ونگ کے تفتیشی افسروں کو باقاعدہ ٹرانسپورٹ، دفاتر اور نفری سمیت اسلحہ اور لیپ ٹاپ و کمپیوٹر جیسی جدید سہولتیں دینے کا رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے لاہور پولیس کے انویسٹی گیشن سیل کے سربراہ ایس ایس پی انویسٹی غلام مبشر میکن کا کہنا ہے کہ پرانی دشمنیوں سمیت قتل کے اندھے واقعات میں اجرتی قاتلوں کی گرفتاری کے لئے پہلے سے موثر حکمتی عملی اپنائی گئی ہے۔ دبئی اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں 25 سے زائد خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لئے ریڈ وارنٹ کا پراسیس آخری مراحل میں ہے اس میں چند ملزمان کو اس سال کے آخر تک گرفتار کرنے میں کامیابی بھی حاصل کرلی جائے گی ۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے مقدمات جن کا کوئی مقدمہ مدعی نہی ہوتا اور اس میں پولیس خود مدعی ہوتی ہے یا ایسے مقدمات جن میں مقدمہ مدعی پیروی نہیں کرتا ہے تو مقدمات ٹریس نہ ہونے پر انہیں ’’ان ٹریس ‘‘ کا نام دے کر داخل دفتر کیا جاتا ہے۔ ان مقدمات کی تفتیش ختم نہیں ہوتی بلکہ عارضی طور پر تفتیش روک دی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قتل کے 80 فیصد مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش کر دئیے گئے ہیں۔ ڈکیتی قتل یا دیرینہ رنجش سمیت زمینوں اور رشتہ داری ’’ زر ، زن و زمین‘‘ پر قتل ہونے والے شہریوں کے مقدمات میں گزشتہ سال کی نسبت رواں سال بہتر پیش رفت ہے۔