پاکستان کے دیہات میں غُربت کے ڈیرے
پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی فرق بڑھ رہا ہے، دیہات میں 72 فیصد آبادی خطِ غُربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے دیہی علاقوں میں اب تک صحت سمیت دیگر بنیادی سہولتیں ناپید ہیں پاکستان میں پانی کی فراہمی، صحت و صفائی اور غربت کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں عالمی بینک کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی 62فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، سندھ میں تیس فیصد، خیبرپختونخوا میں 15فیصد اور پنجاب میں 13فیصد آبادی خطِ غُربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے تاہم خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد میں غربت سب سے کم 5.8فیصد ہے، بلوچستان کے ضلع واشک میں سب سے زیادہ 72.5 فیصد ہے۔
پاکستان میں امیر طبقات کی دولت مسلسل بڑھ رہی ہے اور شہروں میں لائف سٹائل بھی بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں وہ مہنگی سے مہنگی درآمدی اشیا بلا تکلف خریدتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پُر تعیش اشیا کی خریداری کے رجحان میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ درآمدی بل بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے برآمدات کئی برسوں سے کم ہورہی ہیں اور اُن میں اضافے کے لئے کی جانے والی کوششیں تاحال کامیابی سے ہمکنار نہیں ہورہیں جس کی وجہ سے تجارت کا عدم توازن پیدا ہورہا ہے، مہنگی درآمدی اشیا ملک کا وہ محدود طبقہ ہی خرید سکتا ہے جس کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں، اِس کے برعکس محدود وسائل والے لوگ ہیں جو شہروں میں رہ رہے ہوں یا دیہات میں گوناگوں مشکلات سے دو چار ہیں شہروں میں روزگار کے وسائل اگرچہ دیہات کی نسبت زیادہ ہیں تاہم بیروزگاری شہروں میں بھی ہے اور شہری مزدوروں کے اوقات بھی انتہائی تلخ ہیں۔ البتہ دیہات خصوصاً دور دراز دیہات میں تو کسی قسم کا روزگار میسر ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے پیدا ہونے کا کوئی زیادہ امکان ہے یہی وجہ ہے کہ دیہات کے لوگ تیزی کے ساتھ شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں اور یہاں محنت مزدوری کرکے نہ صرف اپنی گزر اوقات کرتے ہیں بلکہ دیہات میں مقیم اپنے خاندانوں کو بھی پال پوس رہے ہیں، دیہات میں واحد مزدوری جو لوگوں کو مُیسر ہوتی ہے وہ زرعی شعبے میں ہے جہاں وہ دیہاڑی کی بنیاد پر محنت مشقت کرتے ہیں عورتیں بھی کھیتوں میں کپاس چُننے، گندم کاٹنے اور سبزی وغیرہ کی کھیتوں سے برداشت میں معاونت کرتی ہیں، اس محنت کا معاوضہ بھی بہت معمولی ہے اور کھیت مزدوروں کو یہی قبول کرنا پڑتا ہے کیونکہ اگر وہ اس مزدوری سے بھی انکار کردیں تو اُن کی جگہ بڑی تعداد میں بے روزگار مزدور فورس دستیاب ہوتی ہے اِس لئے کم اُجرت کے باوجود کھیت مزدوروں کو صبر شکر کرکے یہ مزدوری قبول کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات سے قریبی شہروں کی جانب نقل مکانی کا رجحان فروغ پذیر ہے۔
لاہور جیسے بڑے شہروں کی جانب دور دراز کے دیہات سے منتقلی کا رجحان بڑھ رہا ہے، بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں اربنائزیشن اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی دوسرا شہر اس کا مقابلہ کرسکتا ہو، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لاہور میں جو سہولتیں مُیسر ہیں وہ دیہات تو کجا چھوٹے شہروں میں بھی نہیں، اعلیٰ تعلیمی ادارے لاہور میں ہیں، میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں یہاں ہیں اِس لئے جس کسی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے وہ لازماً لاہور آئیگا پھر جب تعلیم کا سلسلہ مکمل کرے گا تو اس کی تعلیمی قابلیت کے حساب سے جس قسم کی ملازمت کا وہ حق دار اور خواہش مند ہوگا وہ بھی لاہور میں ہی دستیاب ہوگی اِس لئے اس کا حل یہی سوچا جاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان اپنی دیہی زمینیں اور مکان وغیرہ بیچ کر لاہور میں مقیم ہو جائے یہی وجہ ہے کہ یہ شہر بہت زیادہ پھیل چکا ہے اور مزید بڑھ رہا ہے اس حساب سے اس شہر کی ترقی کے لئے فنڈز بھی درکار ہیں اور بڑھتی ہوئی ٹریفک کے بہاؤ کے لئے سڑکوں کو بھی وسیع کرنا پڑتا ہے پھر اتنے بڑے شہر میں لاکھوں لوگ روزانہ طویل سفر کرکے اپنی تعلیم یا ملازمت کے مقام پر پہنچتے ہیں جس کے لئے جدید پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے لاہور میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کا ایک ہی منصوبہ اورنج لائن کے نام سے شروع ہوا ہے توپہلے اس پر نکتہ چینی کی بوچھاڑ کی گئی پھر بعض لوگ یہ معاملہ اعلیٰ عدالتوں میں لے گئے، جس کا فیصلہ آتے آتے بائیس ماہ لگ گئے اور یوں تیرہ مختلف مقامات پر یہ منصوبہ رُکا رہا، اب اس پر دوبارہ کام شروع ہوا تو اس دوران لامحالہ منصوبے کی لاگت بھی بڑھی ہے اور منصوبے کی عدم تکمیل کی وجہ سے شہریوں کے مسائل بھی بڑھے ہیں اس سے پہلے جب میٹروبس شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس پر بھی نکتہ چینی ہوئی حالانکہ اربنائزیشن کی وجہ سے اب ایسے منصوبے نہ صرف شہر کی ضرورت بن گئے ہیں بلکہ اگر ابھی سے ایسے مسائل کا حل تلاش نہ کیا گیا تو چند برس بعد یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہو جائیگا اس لئے جنہوں نے بھی ماس ٹرانزٹ سسٹم کا منصوبہ بنایا انہوں نے بروقت فیصلہ کیا لیکن ہمارے ہاں چونکہ ہر منصوبے پر نکتہ چینی کا فیشن ہے اس لئے میٹروبس اور اورنج ٹرین پر بڑی لے دے ہوئی لیکن ان نکتہ چینیوں میں سے کسی نے متبادل پلان نہیں دیا، اب نئی حکومت نے یہ بس سسٹم ہی بند کرنے پر غور شروع کیا تو اسے کسی سیانے کا یہ مشورہ ملا کہ ایساکیا گیا تو شہریوں کے مسائل بڑھیں گے چنانچہ اب طے ہوا ہے کہ کرایہ بڑھایا جائیگا۔
یہ ساری تفصیل عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دیہات میں صحت کی سہولتیں ہیں نہ تعلیم کی، ملازمتیں دستیاب ہیں نہ جدید دور کی بنیادی سہولتوں کا کوئی تصور، اِس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مرحلہ وار بنیادوں پر دیہات میں شہری سہولتیں مہیا کی جائیں۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت جو پچاس لاکھ گھر پانچ برسوں میں بنانے کا منصوبہ ہے بہتر یہ ہے کہ بڑے شہروں کی آبادی کو بڑھنے سے روکنے کے لئے نئے شہر بسائے جائیں جہاں یہ گھر بنیں اور ہر قسم کی سہولتیں میسر ہوں تاکہ لوگ بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی پر مجبور نہ ہوں یہ پچاس لاکھ گھر اگر پہلے سے موجود شہروں کے اندر ہی تعمیر کردئے گئے تو شہری مسائل میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا بڑے شہروں میں سہولتیں اس لئے بھی زیادہ دینا پڑتی ہیں کہ لاکھوں کی آبادی کے مسائل دیہات کی مختصر آبادی کی نسبت مختلف ہوتے ہیں پھر معترضین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سارے وسائل ایک ہی شہر پر خرچ کئے جا رہے ہیں، اب ظاہر ہے جو شہر کالجوں اور یونیورسٹیوں کا مرکز ہوگا، جس کی صنعت و تجارت وسیع ہوگی اس کے لئے سہولتیں بھی اسی حساب سے دینا ہوں گی لیکن اِن باتوں کو نظر انداز کرکے محض اعتراض کرتے چلے جانے سے مسائل حل نہیں ہوتے، عالمی بنک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے دیہات میں غربت کے جواعداوشمار پیش کئے ہیں اُن کے ہوتے ہوئے دو ہی راستے ہیں یا تو دیہات میں رہ کر انسان دیہی زندگی میں رچ بس جائے اور تعلیم وغیرہ کو بھول کر کھیتی باڑی پر گزارا کرے اور اگر تعلیم حاصل کرنی ہے اور تعلیم کے بعد اس کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنی ہے تو کسی نہ کسی شہر کا رخ کرنا پڑے گا موجودہ حکومت چونکہ نیا پاکستان بنانے کا داعیہ لے کر اُٹھی ہے اِس لئے اس کا فرض ہے کہ وہ اتنے نئے شہرتو بسائے کہ دیہات کے لوگ اِن شہروں میں بسنے کو ترجیح دیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے پیش نظر اس سلسلے میں زیادہ ٹھوس انداز سے پلاننگ کرنا ہوگی۔