نیب ریفرنسز، جج ارشدملک کامزیدتوسیع کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کا عندیہ
اسلام آباد(ڈ یلی پاکستان آن لائن)احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کیخلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے، احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 17 نومبرتک ٹرائل مکمل کرنے کاحکم دے رکھاہے،سپریم کورٹ کی ڈیڈلائن میں نیب ریفرنسزکا ٹرائل مکمل ہوناناممکن ہے،جج ارشدملک کامزیدتوسیع کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کا عندیہ دیدیا۔
دوران سماعت تفتیشی افسرمحمدکامران نے ریکارڈکی فائل عدالت میں پیش کردی،تفتیشی افسر نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہاکہ اضافی دستاویزات کیلئے7 نومبرکوڈی جی نیب کوخط لکھا،منظوری کیلئے 7 نومبرکوفائل نیب ہیڈکوارٹرزبھجوائی،تفتیشی افسر نے کہا کہ مجازاتھارٹی کی منظوری 8 نومبرکووصول ہوئی،دستاویزات پیش کرنے کی منظوری کاخط بھی ہے،
تفتیشی افسرکی عدالتی ریکارڈپرلائی گئی دستاویزات پرخواجہ حارث نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دستاویزات عدالت پیش کرنے کی منظوری کس سے لی؟تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ڈائریکٹرکے ذریعے مجازاتھارٹی کومنظوری کیلئے بھیجاتھا،خواجہ حارث نے سوال کیا کہ مجازاتھارٹی کی دی گئی منظوری کی کاپی آپ کے پاس ہے؟اس پر جج ارشد ملک نے کہا کہ خواجہ صاحب ! متعلقہ سوالات پوچھیں اورآگے چلیں،غیرضروری باتیں نہ لکھوائیں،جج ارشد ملک نے کہا کہ جوسمجھ میں آگیاکافی ہے،اہم اورمتعلقہ باتیں ہی لکھوائیں۔
تفتیشی افسر نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ ایم ایل اے سے متعلق میں نے متعلقہ افرادکے بیان ریکارڈنہیں کیے،نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا 21اگست 2017 کے ایکریڈیشن خط کی کاپی کسی کوبھیجی؟تفتیشی افسر محمد کامران نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کاپی ڈپٹی ڈائریکٹرامورخارجہ اورڈی جی نیب لاہورکوبھیجی تھی،خواجہ حارث نے سوال کیا کہ جن لوگوں کوخط بھیجے اوردستخط ہیں کیاوہ اب نیب میں ہیں؟تفتیشی افسر نے کہا کہ جی وہ تمام لوگ نیب کے ساتھ کام کررہے ہیں،خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا 21 اگست کے خط میں دیگرخطوط کاحوالہ نہیں دیاگیا؟تفتیشی افسر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دیگرخطوط کاحوالہ نہیں دیا، ایم ایل اے کاریفرنس نمبرہے۔