مسجد نبوی کے اندر میرا احتساب
نماز کی نیت باندھی تو لگا کہ میرے ازاربند پر کوئی حملہ آور ہو چکا ہے۔ کن اکھیوں سے دیکھا کہ نماز توڑی تو نہیں جا سکتی تھی، سوچا تھا، آج آخری دن ہے کچھ نوافل کا اہتمام ہو جائے، بمشکل سورۂ فاتحہ تک پہنچا تھا کہ شلوار کا نیفا نادیدہ تجاوزات کی زد میں محسوس ہوا۔ معلوم ہوا، ایک ہندوستانی بزرگوار نے میری شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے دیکھے اور وہ بھی حالت نماز میں، نماز بھی مسجد نبویؐ میں روضہ رسولؐ کے پاس، تو ان کی غیرت ایمانی میں ابال آ گیا، جس کے ایمان افروز اثرات تجاوزات کی صورت میں میری کمر، کولہوں اور دیگر اعضائے غیر رئیسہ پر پڑ رہے تھے۔بزرگوار نے بڑے انہماک اور جوش و جذبے سے میرے دونوں پائنچے باری باری اوپر کر کے برائی کو اپنے ہاتھوں سے مٹایا، پھر قریب بیٹھے چند پاکستانی و ہندوستانی احباب کے مجمعے میں بیٹھ کر میرے سلام پھیرنے کا انتظار کرنے لگے۔ سلام پھیرا، ڈرتے ڈرتے موصوف کو سلام کیا، جنہوں نے مجھے بے اعتنائی سے دیکھا اور بولے: ”ہونہہ! مسائل کا پتا ہوتا نہیں،اور منہ اٹھائے چلے آتے ہیں حرمین شریفین میں“! موصوف پورا دربار لگائے بیٹھے تھے۔ معافی مانگی، آئندہ کی نیک چلنی کے وعدے وعید پر کچھ نرم پڑے تو عرض کیا: ”حضرت غالباً دارالعلوم دیوبند کے سند یافتہ ہیں“۔ بولے: ”ارے نہیں صاحب! اپنے نصیب اتنے اچھے کہاں“؟ عرض کیا: ”تو پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آنجناب نے علوم اسلامیہ میں ایم اے کیا ہو گا“۔پتا چلادلی میں قبلہ گاہی کا کھل بنولے کا کاروبار ہے۔
تب تک میرے اوسان بحال ہو چکے تھے۔ عرض کیا: ”قبلہ گاہی! آپ کی خوش قسمتی اور میری بدقسمتی ہے کہ نہ تو آج مدینہ پر حضرت عمرؓ کی حکومت ہے، نہ مدینہ یورپ میں واقع ہے، ورنہ……“؟ گڑبڑا کر بولے: ”ورنہ کیا؟“ عرض کیا: ”وہی بتارہا ہوں“۔مَیں نے مجمع کو مخاطب کیا: ”آپ حضرات جانتے ہیں کہ ہماری مساجد میں ایک حدیث کا مفہوم لکھا ہوتا ہے کہ اگر لوگوں کو علم ہوجانے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے پر کتنا گناہ ہے تو لوگ پچاس سال کھڑے رہیں گے، لیکن نمازی کے آگے سے نہیں گزریں گے۔ آپ حضرات یہ بھی جانتے ہیں کہ مرد کا ستر گھٹنوں سے لے کر ناف تک ہوتا ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جسے ہر حال میں، ہر جگہ اور ہر وقت چھپا کر رکھا جاتا ہے، کسی غیر متعلقہ فرد بشر کو یہ حق حاصل نہیں کہ انسانی جسم کے ان نجی حصوں کو چھوئے یا دیکھے، لہٰذا مَیں ان تعلیمات اسلامی کی روشنی میں پھر اپنی بدقسمتی پر افسوس اور بزرگوار کی خوش قسمتی پر رشک کرتا ہوں کہ مدینہ پر آج نہ تو حضرت عمرؓ کی حکومت ہے،نہ مدینہ مغربی ممالک جیسی کسی حکومت کی عمل داری میں ہے، ورنہ یہ صاحب اس وقت جیل میں ہوتے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کھل بنولے کے اس اَن پڑھ بیوپاری نے مسجد کے اندر عین حالت نماز میں میرے ستر پر ہاتھ ڈالا، میری کمر، میرے کولہوں اور ان کے اردگرد کے حصوں پر اس شخص نے بلاجواز ہاتھ ڈالا جو جرم عظیم ہے۔ آپ حضرات فیصلہ کریں کہ ایسے شخص کی کیا سزا ہو سکتی ہے؟
کالی پیلی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے موصوف تڑ سے بولے: ”ارے صاحب! آپ جانیں اور آپ کی نماز، جیسے مرضی ادا کریں۔ صاحب!آپ کی شلوار ٹخنوں سے نیچے تھی، مَیں نے اوپر کر دی تو کیا جرم کیا؟ جائیے، جیسے مرضی ادا کیجئے“۔ عرض کیا:”اس کا فیصلہ وہی مجمع کرے گاجس میں آپ دربار لگائے بیٹھے ہیں۔ ہاں تو حضرات! بتائیے اور پوچھئے آنجناب سے کہ انہوں نے حالت نماز میں میرے ستر پر ہاتھ ڈالا تو کیوں؟کیا میری ”اصلاح“ سلام پھیرنے کے بعد نہیں ہو سکتی تھی؟ اور ہاں، ہمارے دائیں بائیں درجنوں لوگوں کی شلواریں اور پتلونیں، ٹخنوں سے نیچے ہیں۔یہ حضرت کتنوں کے ستر پر ہاتھ ڈالیں گے۔انہیں نہ دینی تعلیم کی شدبد ہے،نہ انہوں نے کسی یونیورسٹی کی شکل دیکھی ہے، لیکن مسجد نبویؐ کے اندر لوگوں کا احتساب کر رہے ہیں۔آپ لوگ فیصلہ کیجئے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط“!
ایسے ہی کچھ واقعات،مناظر اور تجربات آپ کی یادداشت میں بھی ہوں گے۔ مَیں نے برصغیر کے لوگوں کے اس رویے کو روا روی میں لیتے ہوئے ہمیشہ اسے عام انسانی رویہ سمجھا، لیکن اندازہ ہوا نہیں صاحب، ہم لوگ دنیا کے سب لوگوں سے یکسر الگ ہیں۔ پھر بھی کوئی حتمی رائے تشکیل دینے میں مجھے کامیابی نہیں ہوئی تھی کہ کوئی خارجی سند نہ ہو تو رائے کا استناد خام رہتا ہے۔ پھر ایک دن یہ سند انتہائی دور دنیا کے جنوبی نصف کرے سے مل گئی۔جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن سے جوہانسبرگ سفر کے لئے ایک ایرلائن کا ٹکٹ لیا۔ ٹکٹ کے ساتھ ایک دو ورقی روایتی ہدایت نامہ ہوا کرتا ہے کہ یہ کریں، یہ نہ کریں۔ لکھا تھا: ”اگر آپ ہماری بین الاقوامی پرواز لے رہے ہیں تو لازم ہے کہ آپ کم از کم دو گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پر آئیں اور اگر آپ کی پرواز اندرون ملک ہے تو لازم ہے کہ آپ ایک گھنٹہ قبل تشریف لائیں“۔
آپ نے بھی اکثر اوقات یہ جملے پڑھے ہوں گے، لیکن ائرلائن پمفلٹ کی مزید عبارت یوں تھی، جسے پڑھتے ہی مجھے یہ یکسوئی حاصل ہو گئی کہ ہم لوگوں کی شناخت باقی دنیا میں کیسی ہے؟ لکھا تھا: ”تاہم اگر آپ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، برما، نیپال یا بھوٹان کے شہری ہیں تو بین الاقوامی پرواز کی صورت میں دو کی بجائے تین گھنٹے قبل اور اندرون ملک پروازوں کی صورت میں ایک کی بجائے دوگھنٹے قبل ایئرپورٹ پر تشریف لائیں۔ جنوبی افریقہ کی اس ائیر لائن نے مجھے بخوبی سمجھا دیا کہ ہمارے خطے کے باشندے باقی دنیا سے یکسر الگ تھلگ ہیں۔