مزدوری کرتا تھا۔کورونا وائرس نے جہاں لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا وہاں ہوٹل مارکیٹس سکول یونیورسٹیاں کالج سرکاری دفاتر بند کئے وہاں کئی فیکٹریوں کو بھی بند کر دیا گیا۔
فیکٹری کی بندش سے وہ بے روزگار ہو گیا۔ اب اس کی جیب میں ایک لکھا ہوا خط اور پانچ سو کے قریب روپے تھے۔یہ خط اس کی والدہ نے لکھا تھا مجھے کم از کم دو ہزار روپے کی ضرورت ہے جلدی بھیجو۔ اگر حالات نارمل ہوتے یہ دو ہزار کچھ بھی نہ تھا۔خبر نہیں یہ حالات کب تک رہیں گے؟اس کو اپنا گزارا بھی کرنا تھا ادھر والدہ کا مطالبہ تھا کہ جلدی پیسے بھیجو۔
فیکٹری والوں نے تنخواہ اور واجبات روک رکھے تھے۔
جب وہ بس سے اترا ہاتھ جیب میں ڈالا وہ چونک اٹھا کہ جیب کترے نے پیسے اور خط اڑا لیا تھا۔ اب کیا کروں؟اپنا گزارا بھی مشکل اور والدہ کا حکم بھی پورا کرنا نا ممکن۔وہ کوارٹر پر سانجھے داری سے کھانا کھا رہا تھا کہ ایک دن اس کی والدہ کا خط ملا کھولنے سے پہلے ہی وہ سہم گیا جانے والدہ کتنے غصے میں ہوں گی۔ اسے کیسے پیسے پہنچاؤں گا؟ اسے وہ خط یاد آیا جو اپنی والدہ کو لکھا تھا کہ میری نوکری چھوٹ گئی ہے وہ فی الحال پیسے نہیں بھیج سکتا۔
اسے خط پوسٹ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔وہ بھی چور لے اڑا تھا۔مجبوراً اس نے خط کھولا لکھا تھا کہ تمہارے بھیجے ہوئے دو ہزار کا منی آرڈر ملا بہت خوشی ہوئی اللہ تجھے شاد و آباد رکھے۔آمین
وہ پریشان ہو گیا ماں جی کو پیسے کس نے بھیجے؟ وہ اس پوزیشن میں نہ تھا۔کچھ دن بعد اسے ایک اور خط ملا اس پر لکھا تھا:بھائی پانچ سو تیرے اور پندرہ سو اپنے پاس سے ملا کر ماں جی کو دو ہزار بھیج دیئے ہیں کیونکہ ماں تو ماں ہی ہوتی ہے تیری ہو یا میری وہ کیوں بھوکی رہے۔تمہارا مجرم۔۔۔جیب کترا۔