جماعت اسلامی پی ڈی ایم کا حصہ کیوں نہیں بنی ؟ سراج الحق نے کھل کربتا دیا
ملتان(ڈیلی پاکستان آن لائن)امیرجماعت اسلامی سراج الحق نےکہاہےکہ اسلام آبادمیں شطرنج کاکھیل جاری ہے،حکمران اورنام نہادبڑی اپوزیشن دو ممبرز اِدھر اور تین ممبرز اُدھر کی گنتی میں مگن ہیں،سیاسی جغادری جوڑ توڑ لگا رہے ہیں کہ اگر ایسا ہو جائے تو کیا ہو گا اور اگر ویسا ہو جائے تو کیا ہو جائے گا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران اشرافیہ کا تو سب کچھ ہو گالیکن مصائب اور تکالیف میں مبتلا عوام کا کچھ نہیں ہو گا اور وہ ایسے ہی سسکتے رہیں گے،قوم کے پاس واحد راستہ سٹیٹس کو سے نجات ہے، ماموں بھانجا، بہن بھائی اور باپ بیٹا کی سیاست کرنے والے دہائیوں سے عوام پر مسلط ہیں،کوئی اپوزیشن میں ہے تو کوئی حکومت میں، ہماری نسلیں حکمران اشرافیہ کی نسلوں کی غلام ہیں اور اگر ایسا ہی چلتا رہاتو ہماری آنے والی نسلیں بھی ان وڈیروں اور جاگیرداروں کی غلامی میں ہی زندگی بسر کریں گی، جمہوریت کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں میں خود جمہوریت نہیں، الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا تھا کہ جو پارٹی ادارے کی نگرانی میں اپنے انتخابات نہ کرائے اس پر جنرل الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگائی جائے،پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ( پی ڈی ایم) کا اس لیے حصہ نہیں بنے کہ اس کی اور حکمران جماعت کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں۔
ملتان بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت نے وکلا کو مخاطب کرکے کہا کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے علم اور کالے کوٹ سے نوازا ہے، وہ خود یہ بتائیں کہ انھیں تینوں سیاسی جماعتوں میں کیا فرق نظر آتا ہے؟وکلاء نظام بدلنے اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں،وکلاء کی آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے لیے لمبی جدوجہد ہے،جماعت اسلامی وکلا کی جدوجہد کو سلام پیش کرتی ہےلیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج بھی ملک میں دو نظام رائج ہیں،عدالت میں غریب کو انصاف نہیں ملتا، احتساب کا نظام درہم برہم ہے،اشرافیہ کے لیے الگ اور غریبوں کے لیے الگ نظام ہے، ملک 47ہزار ارب کا مقروض ہو چکا،معیشت تباہ ہے،بیرون ملک پاکستانی محنت مزدوری کر کے پیسہ ملک میں بھیجتے ہیں اور ہماری اشرافیہ کے نام پنڈوراپیپرز اور پانامہ لیکس کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
سراج الحق نے کہا جماعت اسلامی دلیل سے بات کرتی ہے،دلیل یہ ہے کہ قوم نے سابقہ اور موجودہ پارٹی کو آزما لیا ہے،وزیراعظم جتنے مرضی تبدیلی کے نعرے لگا لیں ان کی حکومت کی نااہلی آشکار ہو چکی ہے، اس حکومت نے پہلے سے کمزور معیشت کو پوری طرح بربادکر دیا،سوا تین سال گزر گئے موجودہ حکمرانوں کے پاس ملک کو پٹڑی پر ڈالنے کے لیےآج بھی کوئی ویژن نہیں،وزیراعظم جتنی بھی اچھی تقریر کرلیں عوام کی مشکلات کم نہیں ہوںگی،ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا گیا اور 36لاکھ نوجوان بے روزگار ہو گئے، 50لاکھ گھر بنانے کا دعویٰ کیا گیاہزاروں لوگ بے گھر کر دیے گئے،وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان ہوا مگر اب وزیراعظم اپنے گھر سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے دفتر جاتے ہیں اور قوم پر احسان کر رہے ہیں کہ انھوں نے وقت بچایا۔
انھوں نے وکلا سے سوال کیا کہ وہ خود بتائیں کہ کیا پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے دور میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوا؟ جب کہ وزیراعظم کہاکرتے تھے کہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کروں گا،وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ جھوٹ نہیں بولوں گا مگر اپنے جھوٹوں کو "یوٹرن" کا نام دے کر بڑے لیڈر کی نشانی قرار دے چکے ہیں،پی ٹی آئی کے دعوے تھے کہ ہر شعبہ میں ریفارمز لائی جائیں گی، حکومت خود بتائے کہ کس شعبہ میں تبدیلی آئی؟پولیس ریفارمز ایسی ہوئیں کہ تین سالوں میں پانچ بار آئی جی پی پنجاب تبدیل ہوئے، بار بار چیف سیکرٹری پنجاب کو بدلا گیا، کیا یہ وہی تبدیلی ہے جس کے لیے پی ٹی آئی نے نوجوانوں اور اوورسیز پاکستانیوں کو دھوکا دیا؟۔
سراج الحق نے کہا کہ اس حکومت نے عوام کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی ہے، پی ٹی آئی کی حکومت نے اداروں کو کمزور کیا،پارلیمنٹ سے تین سالوں میں 57قوانین پاس ہوئے جن میں پانچ سات کے علاوہ سب کے سب ایف اے ٹی ایف سے متعلق ہیں،قومی اسمبلی کے ہوتے ہوئے 65سے زیادہ صدارتی آرڈیننسزجاری ہوئے، آج ملک میں امن و امان تباہ ہے، بچے اور بچیاں محفوظ نہیں اور والدین انھیں سکول بھیجتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں،حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد ہو گا لیکن صرف ایک مثال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود ابھی تک اردو کو قومی زبان کا درجہ نہیں ملا، دفاتر اور مقابلے کے امتحانات میں انگریزی رائج ہے، سینیٹ میں قرار داد پیش کی تھی کہ سی ایس ایس کے امتحان اردو میں ہوں تاکہ عام پاکستانی بھی مقابلہ کا امتحان پاس کر کے افسر بن سکے لیکن افسوس ہے کہ اس قرارداد پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔
انھوں نے کہا کہ وہ اس امید کے ساتھ وکلا کے پاس آئے ہیں کہ ہمیں یہ مشورہ کرنا چاہیے کہ کیا ہمیں اسی ظلم اور ناانصافی کے نظام کے ساتھ آگے بڑھنا ہے یا اس سے نجات حاصل کرنی ہے؟ ظلم کو برداشت کرتے رہنا اور اس پر آواز بلند نہ کرنا منافقت ہے، آئیے ملک کر ایسا پاکستان بناتے ہیں جو سب کے لیے ہو، جس میں تعلیم، صحت سب کے لیے ہو، جس نظام میں وی آئی پی عام پاکستانی ہو۔ ہمیں ایسا نظام چاہیے کہ ہسپتالوں میں مریضوں اور عدالتوں میں سائلین کے ساتھ وی آئی پی سلوک ہو،ہمیں مل کر سسٹم کو بدلنا ہے اور سٹیٹس کو کو توڑنا ہے،محب وطن پاکستانی آگے بڑھیں اور جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔