اسلامی سربراہان اور اسرائیل مظالم
ہماری بیگم صاحبہ کو زعم ہے کہ ہمارے کہنے پر بہت سے کام ہو جاتے ہیں مثلاً بعض اوقات بجلی کا جانا بیگم صاحبہ نے ہم سے فون کرانا اور لائٹ کے آنے پر بیگم صاحبہ کا اترانا کہ ہمارے کہنے پر فوری بجلی آجاتی ہے یوں محلے میں ہم اس بابت شہرت رکھتے ہیں ٹھیک ہے بعض اوقات کسی معمولی وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ پر ہمارے فون پر بجلی کا آنا تو درست ہے لیکن گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کسی خاص وجہ سے ہوتی ہے کل ہی علاقہ بھر میں لائٹ نہ تھی بیگم صاحبہ نے فون پر کہا کہ جہاں آپ ہیں وہاں بجلی ہے؟ ہم نے بتایا کہ نہیں تو گویا ہوئیں کہ یہاں بھی چار گھنٹوں سے بجلی نہیں ہم نے کہا کہ آجاتی ہے فون بند ہوا تو اتفاق سے دس منٹ بعد بجلی آگئی جہاں ہم تھے لوڈ شیڈنگ وہاں بھی تھی ہم نے فوری بیگم صاحبہ کو کال کی اور دریافت کیا کہ بجلی آگئی؟ کہنے لگیں جی آگئی بیگم صاحبہ نے ہمارا شکریہ ادا کیا وہ سمجھیں شائد لائٹ ہمارے کہنے پر آئی ہے اور یوں ہماری تمکنت میں اضافہ ہوا اسی طرح ہمارے ملک میں کئی کام خود بخود ہو جاتے ہیں لیکن بھولے بھالے عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے یہ کام فلاں سرکاری بندے یا کسی سیاسی شخصیت کے کہنے پر ہورہے ہیں حالانکہ اگر ملک کی سیاسی شخصیات یا ہمارے سرکاری افسر قیام پاکستان کے بعد دیانتداری سے کام کرتے تو کیا بعید تھا کہ ملک کا کوئی مسئلہ باقی رہتا یا عوام کی حالت ایسے ہوتی بے روزگاری رہتی یا عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہتے یا قیام پاکستان کے آج 77 سالوں بعد بھی سہولیات کا فقدان ہوتاہم تو آج بھی اپنے معمولی سے معمولی کاموں کے لیے سیاسی شخصیات کے رہین منت ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا ترقی پذیر ممالک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں اسی وقت شامل ہوتے ہیں جب ان کے معاشروں میں سب کے حقوق کو مساوی سمجھا جائے سب کو یکساں بلا تفریق انصاف کیا جائے سب کو تعلیم اور صحت میں آسانیاں میسر ہوں سب کے کام میرٹ پر ہوں لیکن ہم نے اپنے آپ میں وہ کمال پیدا نہیں کئے یا ہم اپنے اسلاف کے ان رہنما اصولوں پر نہیں چلے جن پہ چل کر ہمیں منزل مقصود ملتی۔بانی ئ پاکستان سے کسی نے پوچھا پاکستان کس کیلئے بنا رہے ہیں قائداعظم نے جواب دیا کہ میں پاکستان غریبوں کے لئے بنا رہا ہوں جہاں امیر و غریب میں ان شاء اللہ کوئی فرق نہ ہوگا لیکن آج قائد کے پاکستان کو سیاستدانوں نے صرف امیروں کا ملک بنا دیا ہے۔
قائداعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے پہلی وفاقی کابینہ تشکیل دی تو کابینہ صرف دس شخصیات پر مشتمل تھی جو صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر تھی حالانکہ مشرقی پاکستان بھی اس وقت پاکستان کا حصہ تھا اب قائد کے پاکستان میں آج کی کابینہ کی تعداد دیکھئے اور سوچئیے کیا پاکستان ایسے ترقی کرسکتا ہے یا پاکستان کے مسائل ایسے حل ہوسکتے ہیں ایسے تو مسائل اور بھی زیادہ ہونگے ہم نے دوسروں پر اکتفا کیا دوسروں کے آگے دست طلب دراز کیا اور دوسروں کے ہو کر رہ گئے نتیجتاً آج ہمارے ملک کی پالیسیوں کو دوسروں کے جنبش ابرو پر وضع کیا جارہا ہے عالمی مالیاتی ادارہ جیسے چاہتا ہے ہم ویسا کر دیتے ہیں قیام پاکستان کے بعد ہم نے گیارہ سال بعد 1958ء میں پہلی بار آئی ایم سے قرض لیا تب سے لے کر آج تک قرض کے دریا میں بہتے جارہے ہیں ہر حکومت اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ یہ اس کا آخری قرض ہوگا اور یہ کہتے ہم یہاں تک آ پہنچے ہیں ایک سابق وزیراعظم تو یہ تک کہہ اٹھے تھے کہ میں قرض سے خود کشی کو ترجیح دوں گا اور پھر منتخب ہو کر اس قدر قرض لیا کہ تاریخ کومات کردیایوں ہمارے حالات جھوٹ سچ اور وہم و گماں کے درمیان ہیں کل ایک جماعت کے بانی امریکی غلامی نامنظور کے نعرے لگاتے رہے آج اسی جماعت کے جلسوں میں امریکی پرچم سربلند نظر آئے اور نومنتخب امریکی صدر سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں کہ وہ پاکستان کے ایک اسیر کو آزادیوں کی دولت سے مالامال کردیں گے ہمارا یہ دہرا معیار ہی ہماری ناکامیوں کا شاخسانہ ہے یعنی ہم نے ہر معاملے میں اغیار پر بھروسہ کیا۔
ہماری ایک سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو دوسری جماعت یہ کہنا شروع ہو جاتی ہے کہ بس یہ حکومت جا رہی ہے اور ہماری حکومت آرہی ہے دوسری حکومت آتی ہے تو پہلی کہنا شروع کر دیتی ہے کہ یہ حکومت جا رہی ہے اور ہماری حکومت آ رہی ہے بس حکومتوں کے اسی آنے اور جانے پر عوام کے حالات روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے گئے سیاستدانوں نے سیاست کو ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ سیاستدان اپنی سیاست کو ذاتی رنجشوں یا مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ایک طرف پاکستان کے حکمران ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے مسائل ہیں اور ملک کے سیاستدانوں اور مسائل کے مابین عوام پس رہے ہیں ہمارے سیاستدانوں نے 50 سال پہلے جو وعدے کئے تھے وہی وعدے یہ سیاستدان آج بھی کررہے ہیں، یعنی جو مسائل 50 سال پہلے ہمیں درپیش تھے آج بھی وہی ہیں نہ تو عوام کا چلن بدلا نہ حکمرانوں نے اپنی روش بدلی نہ ہمارے حالات بدلے جب تک عوام خود کو بدلنا نہیں چاہیں گے حالات جوں کے توں رہیں گے وہی لوگ ہم پر مسلط رہیں گے جو ہمیں اس حال تک کے آئے ہیں۔ سعودہ عرب الریاض میں عرب ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہوا جس میں اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کی گئی وزیراعظم شہباز شریف نے توانا آواز کے ساتھ فلسطین کے بھرپور ساتھ کا عزم اور اسرائیل کے پیہم جبر کا ذکر اور اس جبر کو روکنے کیلئے عالمی دنیا تک اپنا واضح پیغام۔پہنچا دیا لیکن بات اتنی سی ہے دنیا نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے عالم اسلام کے رہنماؤں نے کرنا ہے دنیا تو ہمارا تماشا دیکھتی رہی بلکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر دنیا نے مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ روا رکھا ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭