خلیفہ اول سیدناابوبکر صدیق ؓ خطبہ دے رہے تھے،لوگوں مدینہ میں کوئی مرد نہ رہے،اہل بدرؓ ہوں یا اہل احد سب یمامہ کا رخ کرو”بھیگتی آنکھوں سے وہ دوبارہ بولے:مدینہ میں کوئی نہ رہے حتی کہ جنگل کے درندے آئیں اور ابوبکر کو گھسیٹ کر لے جائیں“۔
اللہ گواہ ہے کہ اگر علی المرتضیؓ سیدناصدیق اکبرؓ کو نہ روکتے تو وہ خود تلوار اٹھا کر یمامہ کا رخ کرتے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے اور جنگ یمامہ مسیلمہ کذاب کے دعویٰ نبوت کے نتیجے میں لڑی گئی،جہاں 1200 صحابہ کرامؓ کی شہادت ہوئی، مگر فتنہ کو مکمل مٹا ڈالا۔
یہ تو تھا صحابہ کرامؓ کا کردار اور ان کا عمل کہ انہوں نے عقیدہ ختم نبوت پر جوں ہی ڈاکہ پڑتے دیکھا تو اپنی جانوں کی پرواہ بھی نہ کی اور اسی جنگ میں خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب ؓ کے بھائی زید بن خطابؓ بھی شہید ہوئے اور کئی حفاظ صحابہ اس جنگ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔
آج بھی قادیانی مسیلمہ کذاب کے پیروکار عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے سرگرم ہیں اور آج بھی کچھ مجاہد جنگ یمامہ والا کردار نبھاہنے کیلئے تیار ہیں اور ایسے ہی ایک عقیدہ ختم نبوت کے محافظ کی زندگی پر روشنی ڈالنا مقصود ہے جو اپنے قلم کے ذریعے جہاد کر رہے ہیں۔
عقیدہ ختم نبوت کے محافظ اور مجاہد یہ شخصیت ڈاکٹر محمد بہاؤالدین محمد سلیمان اظہر ہیں جو نہ صرف ایک محقق،مورخ ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ عقیدہ ختم نبوت کے محافظ کا کردار بھی نبھا رہے ہیں اور لوگوں کو تاریخ سے آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح مرزا قادیانی نے عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی اور تاریخی حوالوں سے بتاتے ہیں کہ کیسے ان کا علماء کرام نے اس زمانے میں رد کیا اور مسلمانوں کو اس فتنے میں مبتلا ہونے سے بچایا۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ نہ صرف بلند پایہ ادیب ہیں بلکہ محقق ہیں جو تاریخی حوالوں سے بتاتے ہیں کہ مرزا قادیانی کا کیسے علماء اہلحدیث نے راستہ روکا اور اس فتنے کو عوام میں پنپنے سے روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کیا۔ان کی یہ سعی ظاہر کرتی ہے کہ وہ دنیا کو بتلانا چاہتے ہیں کہ ختم نبوت کا عقیدہ کتنی اہمیت کا حامل ہے اور اس عقیدہ کی حفاظت کیلئے ہمارے اسلاف نے جو قربانیاں اور کوششیں کی ہیں اس کو عوام کے سامنے لانے کیلئے ایک تحقیق طلب اور مشکل کام کر رہے ہیں کیونکہ آج سے ایک سو بیس یا تیس سال قبل نہ تو گوگل تھا اور نہ ہی جدید ذرائع ابلاغ تھے اور اس دور میں علماء حق کے کردار کو اجاگر کرنا کہ انہوں نے اس کٹھن اور مشکل دور میں کس طرح فتنوں کا مقابلہ کیا اور انگریز کی پشت پناہی کے باوجود کیسے مرزا قادیانی لعین کو دبوچا اور پھر ان کی کوششوں اور محنت کو عوام کے سامنے لانا بھی میرے خیال میں کوئی آسان امر نہیں ہے کیونکہ یہ وہی شخص کر سکتا ہے جو تحقیق کے کام میں ماہر ہو اور جو کتابوں کو حوالوں کا درست ادراک رکھتا ہو اور ڈاکٹر بہاؤالدین نے یہ کام بڑی دلجمعی کے ساتھ انجام دیا ہے اور عقیدہ ختم نبوت کے متعلق تاریخ ختم نبوت مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے اس کے ساتھ علمائے اہلحدیث اور تاریخ اہلحدیث کے متعلق بھی تاریخ اہلحدیث لکھ کر دین سے محبت کا ثبوت دیا ہے اور ڈاکٹر صاحب اس وقت تقریبا ستر سال سے زائد عمر کے ہیں اور اس پیرانہ سالی کے باوجود تحقیق کا محنت طلب کام کرنا اور ایسی کتابیں لکھنا جس میں ماضی کے اسلاف کے کارناموں کو اجاگر کیا گیا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور اس کی تاریخ کے متعلق بھی عوام کو آگاہ کیا گیا ہو تو یہ اس بات کا مظہر ہے کہ یہ ان پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ اور مجھ ناچیز کو بھی چار ماہ قبل دورہ یو کے کے دوران نیو کاسل میں ان سے ملنے اور ان سے گفتگو کرنے اور ان کی محفل میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ نیو کاسل میں جب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو میرے ساتھ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور پروفیسر ڈاکٹرحماد لکھوی بھی تھے تو ان سے عقیدہ ختم نبوت اور علمائے اہلحدیث اور تاریخ اہلحدیث کے موضوع پر بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی۔اتنے بڑے محقق اور عالم ہونے کے باوجود ان کی طبیعت میں سادگی کا عنصر غالب تھا اور عاجزی و انکساری کا وہ مرقع تھے یقینا ان جیسی شخصیات اور ان کے کارناموں کو عوام کے سامنے لانا چاہئے۔ اگرچہ ان کے اعزاز میں برطانیہ اور پاکستان میں مذہبی حلقے تقاریب کا اہتمام کر رہے ہیں لیکن ان جیسی علمی شخصیت کی خدمات کا اعتراف حکومتی سطح پر بھی ہونا چاہئے تا کہ عام مسلمان بھی عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت سے آگاہ ہو سکیں اور دین اور عقیدہ ختم نبوت کیلئے کی جانے والی ان کوششوں کو دیکھ کر ان کے بارے میں جان کر ان میں دین سے جڑنے کا جذبہ پیدا ہو سکے۔