گھریلو صارفین کے لئے بجلی کے نرخوں میں اضافہ
وزارت پٹرولیم نے بجلی کے نئے نرخوں پرمشتمل نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق گھریلو اور زرعی صارفین کے لئے بجلی 40 تا176فیصد مہنگی کی گئی ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ کی مداخلت سے عوام کو ریلیف کی جو امید پیدا ہوئی تھی اس سے عوام کو محروم کر دیا گیا۔ دوسو یونٹ استعمال کرنے والوں کے لئے کوئی اضافہ نہیں ہوگا، اُن کے نرخ پہلے والے ہی رہیں گے۔ایک سے 50 یونٹ تک فی یونٹ نرخ دو روپے ہو گا۔ 51سے100 یونٹ تک فی یونٹ نرخ پانچ روپے 79پیسے فی یونٹ،101 سے 200یونٹ تک نرخ 8روپے 11پیسے فی یونٹ، 201 سے 300 یونٹ تک12 روپے نوپےسے فی یونٹ، 301 سے 700 یونٹ تک کا نرخ 16 روپے فی یونٹ اور 700 یونٹ سے اوپر کا نرخ 18 روپے فی یونٹ ہوگا۔ بجلی نہ استعمال کرنے کی صورت میں بھی عوام کو 75 روپے کم از کم بل ادا کرنا پڑے گا۔ نیپرا کے چیئرمین نے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں بجلی کے نرخوں کا وہی فارمولا پیش کیا جو وفاقی حکومت نے 30ستمبر کو مقرر کیا تھا اور جسے سپریم کورٹ نے معطل کر کے معاملہ نیپرا کو بھجواتے ہوئے نرخوں پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا۔
حکومت کی طرف سے نیپر ا کی سفارشات حاصل کرنے کے بعد ایک بار پھر بجلی کے تقریباً وہی نرخ لاگوکر دیئے گئے ہیں جن پر عدالت نے نظر ثانی کرنے کے لئے کہا تھا۔ عوامی حلقوں کی طر ف سے اس اقدام کو حکومت کی ڈھٹائی اور ظالمانہ اقدام بھی کہا جاسکتا ہے اور حکومتی حلقوں کی طرف سے اسے ناگزیر اقدام اور حکومت کا نہ چاہتے ہوئے مجبوراً کیا گیا اقدام بھی کہا جا سکتا ہے۔ گردشی قرضوں کے بوجھ تلے مزید دبنے سے بچنے کے لئے اسے ضروری قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن اس طرح بڑھے ہوئے نرخوں سے ملکی صنعت اور زراعت پر ہونے والے منفی اثرات اس کا سب سے تشویشناک پہلو ہے۔ ہمارے سفید پوش طبقے کو گھریلو بجلی کے لئے جب تین ہزار کے بجائے یک لخت چھ ہزار یا دس، بارہ ہزار روپے کا بل ادا کرنا پڑے گا، تو ان کے پاس گھر کے دوسرے اخراجات پورے کرنے کے لئے شاید کچھ بھی باقی نہ بچے۔ اس وقت جبکہ لوگ گھر میں ریفریجریٹر، استری، مائیکرو اوون، واشنگ مشین، ٹیلی وژن اور بہت سے دوسرے بجلی کے آلات استعمال کرنے پر مجبور ہیں،ان کے لئے کسی طرف سے بھی بجلی کی بچت کرنے کی گنجائش نہیںاس کے باوجود ضرورت سے زائد روشنیوں اور ضروری اوقات کے علاوہ ٹیلی وژن کے استعمال سے گریز کر کے بھی بجلی کی بچت ہوسکتی ہے۔ جب کسی چیز کے نرخوں میں ناجائز طور پر اضافہ کر دیا جاتا ہے تو صارفین بھی اس کا جواب اس چیز کے استعمال اور اس کی ڈیمانڈ میں بے حد کمی کر کے دیتے ہیں ،جس سے اس چیز کے نرخ بڑھانے والوں کو از خود اپنے نرخ کم کرنے پڑ جاتے ہیں۔
حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں زیادہ سے زیادہ کمی کر کے قوم کو ٹیکسوں اور نرخوں کے اضافی بوجھ سے بچائے۔ پریشان حال عوام کو اس وقت حکومت کی طرف سے جان و مال کا تحفظ مل رہا ہے نہ عدالتوں سے انصاف، نہ ان کی خدمت کے لئے قائم کئے گئے مختلف سرکاری اور نیم سرکاری محکموں اور کارپوریشنوں سے وہ سہولتیں اور اطمینان میسر ہے جن کے لئے وہ قائم کئے گئے ہیں، لیکن ان مقاصد کے لئے عوام ہر طرح کے براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس ضرور ادا کر رہے ہیں۔ پی آئی اے ، سٹیل ملز اور ریلوے جیسے محکمے اگر خسارے سے نکال کر ان کو نفع بخش نہیں بنایا جاتا، بلکہ ان کو بیچ کر بھی حکومت اپنے غیر ضروری طور پر بڑھائے ہوئے اخراجات ہی پورے کرنے کی کوشش میں ہے، تو پھر موجودہ حکومت کی بہترین کارکردگی اور انتظامی صلاحیتیں اور وہ تمام تر تجربہ کدھر گیا، جس کا انتخابی مہم کے دوران بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا ؟ عوام گھاس کھا کر بھی گزارا کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں، لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ پہلے حاکم عوام کی جیبوں سے پہلے سے نکلنے والے کھربوں روپے کا کوئی جواز تو فراہم کریں۔ تعلیم کے میدان میں یہ حال ہے کہ اچھی تعلیم کی امید پر50 فیصد سے زائد بچوں کو والدین بھاری فیسوں والے پرائیویٹ سکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ اربوں روپے کے گھپلے گھوسٹ سکولوں کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ صحت کے نام سے بھی گھپلے زیادہ اور عوام کو سہولت بے حد کم میسر ہے۔ آبادی کا بہت بڑا حصہ سنیاسیوں، نیم حکیموں اور بھاری اخراجات والے پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کرانے پر مجبور ہے۔ ڈاکے، چوریوں، بھتہ خوریوں اور دہشت گردی نے لوگوں کا خون خشک کر رکھا ہے۔بدامنی اور لاقانونیت نے لوگوں کے کاروبار تباہ کر دیئے ہیں، بیروزگاری میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے۔ پوری قوم پر ایک مایوسی اور بے چینی کی فضا طاری ہے۔ ایسے حالات میں عوام حقیقی معنوں میں اپنے کندھوں سے حکومتی بوجھ کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے کے متمنی ہیں۔ وہ دیکھ چکے ہیں کہ حکومتی اداروں میں توسیع اور نت نئے اداروں کا قیام اوپر والوں کے رشتہ داروں یا ان کی اولادوں کو ایڈجسٹ کرنے کا کام تو کرتا ہے، لیکن بڑھے ہوئے اخراجات عوام کے دُکھوں میں کمی کا سبب کبھی نہیں بنے۔ عوام کے منتخب نمائندے بھی اسمبلیوں میں عوامی حقوق کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہیں کر رہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ارکان اسمبلی کے انتخاب کے سلسلے میں چند ایک حلقوں کے نتائج کا سائنسی بنیادوں پر تفصیلی جائزہ لینے کے بعد نادرا نے انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اب عوام کو ہر طرف جھرلو سسٹم ہی کا راج نظر آرہا ہے۔ عوامی اذہان میں یہ خیال جڑ پکڑ رہا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کا نظام ان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ وہ کسی بڑے حقیقی رہنما کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں عوام کو مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دبانا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت کی تمام پالیسیاں منافع خور تاجروں کے حق میں جا رہی ہیں، ٹیکس چور، ربیٹ کے جعلی بل وصول کرنے والے، رشوت خور اور میگا کرپشن والے مزے میں ہیں۔ ارکان اسمبلی لمبے چوڑے الاﺅنسز حاصل کرنے کے علاوہ ہر طرح کی مراعات اور مفادات حاصل کر رہے ہیں۔ وزیر اور سیکرٹری اپنی میگا کرپشن کے لئے صبح و شام عوام کو لوٹنے کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنانے میں مصروف ہیں۔ جب تک گذشتہ حکومت میں میگا کرپشن کرنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لئے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جاتیں اس وقت تک موجودہ حاکموں کی کرپشن پر بھی کوئی انگلی اٹھانے والا نہیں۔ان حالات میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کا عوام کیا مقصد سمجھ سکتے ہیں، اس کا اندازہ لگاناکسی کے لئے مشکل نہیں۔ عوام کا یہ واضح احساس ہے کہ وہ غریب اور بے بس ہونے کی وجہ سے اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ اس وقت جہاں ملک دشمن قوتیں علاقائی اور لسانی رنگ لئے ملک میں نفرت پھیلانے پر کمر بستہ ہیں، جہاں ملک دہشت گردی اور بدامنی کے سنگین مسائل اور اقتصادی بحران سے دوچار ہے وہاں یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وفادار اور محنت کش عوام کو آئے دن بجلی اور پیٹرول کے نرخوں میں اضافے کا تحفہ دیا جائے، ان کے مسائل میں اضافہ کرتے اور انہیں دیوار سے لگاتے لگاتے ان کے صبر و تحمل سے بڑھ کر ان سے زیادتی کی جائے۔ ہمارے اہل اقتدار ان حقائق پر غور کرلیں تو یہ ہر کسی کے مفاد میں ہو گا۔
جوانوں کو اشتعال دلانا ہے۔ اس طرح پاکستانی آرمی چیف کی طرف سے ایسے بیانات کے لئے افسوسناک اور اشتعال انگیز کے الفاظ کا استعمال بہت محتاط انداز میں درست ہے۔ پاکستان کی طرف سے مسلسل امن کی خواہش کا اظہار کرنے کے علاوہ پاک بھارت تعلقات میں رکاوٹ بننے والے تمام معاملات طے کرنے کے لئے ضروری اقدامات کئے گئے ہیں اور بھارت سے بارہا امن کے لئے آگے بڑھنے کی خواہش ظاہر کی گئی ہے، جس کا جواب ہمیں اب بھارت کی مسلح قیادت کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات کی صورت میں مل رہا ہے۔
بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان امن کے لئے بھارت سے ہاتھ ملانے کے لئے جتنا آگے بڑھ چکا ہے، اب اسے اس کا آخری قدم ہی سمجھا جائے ، اگر بھارتی قیادت بھی ہاتھ ملانے کے لئے آگے نہیں بڑھتی تو ہمیں بھی اپنا منہ پھیر کر پیچھے ہٹنا ہو گا۔ امن ہماری اولین ترجیح ضرور ہے۔ اس کے لئے ہم ہر کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ بھارتی قیادت اگر امن مذاکرات کے سلسلے میں کچھ بھی سنجیدہ ہے، تو اسے اپنی عسکری قیادت کو ایسے بیانات سے باز رکھنا اور اپنا ہم آہنگ بنانا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ بیان بازی کے شوق میں برصغیر کا امن تباہ کرنے کا باعث بن جائیں یا بھارتی سیاسی قیادت کو کسی اور ہی طرف جانے پر مجبور کر دیں۔ ٭