”برطانیہ کی نئی ایمگریشن پالیسی انسانی حقوق کے منافی قرار“

”برطانیہ کی نئی ایمگریشن پالیسی انسانی حقوق کے منافی قرار“
”برطانیہ کی نئی ایمگریشن پالیسی انسانی حقوق کے منافی قرار“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لندن (مرزانعیم الرحمان سے ) برطانیہ کی ہوم سیکرٹری تھریسا مئے نے برطانیہ کو غیر قانونی مہاجرین سے نجات دلانے کیلئے نئی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت غیر قانونی تارکین وطن کے گرد گھیرا تنگ کر دیا جائیگا اس پالیسی کے نتیجے میں برطانوی کیمونٹیز کے درمیان نسلی تعلقات خراب ہونے کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور تمام تارکین وطن کو خواہ وہ قانونی ہیں یا غیر قانونی کو مشکور انداز سے دیکھا جائیگا حکومتی پالیسی نے مکان مالکان ‘ ڈاکٹرز‘ ڈی وی ایل اے اور بینکوں کو تارکین وطن کا ایمگریشن سٹیٹس چیک کرنے کا اختیار دے دیا ہے اس پالیسی میں ایک طرف بینکوں سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکین کا اکاﺅنٹ نہ کھولیں تو دوسری طرف ڈی وی ایل اے سے کہا گیا ہے کہ وہ ایمگریشن سٹیٹس چیک کیے بغیر لائسنس جاری نہ کریں جبکہ کاروبار کے مالکان اور فرموں کو غیر قانونی تارکین وطن کو ملازمت دینے کے جر م میں بھاری جرمانہ عائد کیا جائیگا لیبر پارٹی نے اس بل کو پوری برطانوی قوم کیلئے شرمندگی قرار دے دیا ہے جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کے بیرسٹر امجد ملک نے کہا ہے کہ یہ گھٹیا شعبدہ بازی ہے جس سے برطانیہ جیسے انسانی حقوق کے علمبردار ملک میں انسانیت کا قتل عام ہے ہوم سیکرٹری تھریسا مئے کی طرف سے بدھ کے روز جاری ہونے والے نئے قوانین دراصل نسلی تعصب کے مترادف ہیں انہوں نے کہا کہ نئے نافذ ہونے والے ایمگریشن قوانین سے برطانیہ میں افراتفری مچ جائیگی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد کی بجائے برطانیہ میںمقیم پانچ لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو عام معافی دینے کا اعلان کرے جس سے برطانوی معیشت جو پہلا ہی ڈنواں ڈول ہے کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے انہوں نے کہا کہ نئے قوانین کے تحت ڈاکٹر‘ وکیل ‘ بینک کے ملازمین کو کسی بھی شخص کا ایمگریشن سٹیٹس چیک کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے جس سے نسلی تعصب کی بو آتی ہے انہوں نے کہا کہ پہلے پولیس گوروں کو کم اور کالوں کو زیادہ چیک کرتی تھی ا ور اب برطانیہ میں مقیم غیر قانونی مہاجرین کو انکی بنیادی سہولیات سے بھی محروم کیا جا رہا ہے اگر خدا نخواستہ کسی غیر قانونی مہاجر کا حادثہ ہو جائے تو ڈاکٹر اسکا علاج کرنے سے قبل اسکا ایمگریشن معیار چیک کریگا تو پھر اسکا علاج ہو گا انہو ں نے کہا کہ برطانیہ میںایسے خاندان بھی موجود ہیں جن کے بچے نرسری ‘ سکینڈری ‘ اور حتی کہ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں مگر انہیں آج بھی غیر قانونی مہاجرین تصور کیا جاتا ہے اگر ان لوگوں کو بیدخل کیا گیا تو ان کے بنیادی اور انسانی حقوق سخت متاثر ہونگے انہوں نے انکشاف کیا کہ بدھ کے روز نافذ ہونے والے قوانین کے تحت غیر قانونی مہاجر کو ملازم رکھنے والے کو اب بیس ہزار پاﺅنڈ جرمانہ عائد ہو گا جو اس سے قبل دس ہزار پاﺅنڈ تھا بیرسٹر امجد ملک نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق کے علمدار اس ملک میں انسانیت کا احترام کرتے ہوئے ان لوگوں کو عام معافی دیدی جائے جس سے برطانوی معیشت کو سنبھالا جا سکتا ہے شہری حقوق کی تنظیمی لبرٹی کی شمع چکروتی نے کہا ہے کہ ہوم آفس نے گھر ہوم وین کے شوشے کے بعد اب لینڈ لارڈز کو ایمگریشن افسروں کے اختیارات دیے ہیں جبکہ ان لوگوں سے اپیل کا حق بھی چھین لیا گیا ہے جن کو آبائی وطن میں جان کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی غلطیاں سدھارنے کی بجائے لوگوں میں خوف وہراس پیدا کر رہی ہے برطانیہ میں غیر جانبدار ایمگریشن قوانین کی گنجائش موجود ہے اگر حکومت نے اس طرح کے قوانین پر عمل درآمد کرایا تو یہ نسلی تعلقات کیلئے بہت خطرناک ہونگے یہ امر قابل زکر ہے کہ ایڈورٹائزنگ سٹینڈرڈ اتھارٹی نے ہوم آفس کو گو ہوم وین کی اشتہاری مہم چلانے سے منع کر دیا تھا تاہم اس کو نسل پرستی قرار نہیں دیا گیا جبکہ برطانیہ کے بعض مسلمان ارکان پارلیمنٹ نے حکومت کی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ چھوٹے بزنس مین اور لارڈز بھی متاثر ہونگے جن کے پاس اتنی فرصت یا مہارت نہیں کہ وہ کسی کا ایمگریشن سٹیٹس کا پتہ چلاتے پھریں مہاجرین کونسل مورس وائن نے کہا کہ حکومت کے ان اقدامات کے بدترین نتائج برآمد ہونگے ان قوانین کے ذریعے اسائلم سیکرز کو نشانہ بنایا جائیگا جن کو اس ملک میں رہنے کا قانون کے مطابق حق حاصل ہے بینکوں کے سٹاف اور لینڈ لارڈز کو ایمگریشن افسروں کا کردار دیا جانا کسی صورت بھی درست نہیں شیڈو ایمگریشن منسٹر ڈیو ہنسن نے کہا کہ اس بل کے ذریعے ایمگریشن کے اصل اور حقیقی مسائل کو حل نہیں کیا جا سکے گا انہو ں نے کہا کہ 2010کے بعد برطانیہ سے مجرموں کو ڈی پورٹ کیے جانے کی تعداد میں 13فیصد کمی ہوئی ہے بارڈر ایجنسی کا سٹاف کم ہونے کی وجہ سے غیر قانونی تارکین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ایمگریشن منسٹر مارک ہارپر نے کہا کہ برطانیہ کو اپنی طویل ایمگریشن پالیسی پر فخر ہے تاہم حکومت کو یہ دیکھنا چاہیے کہ برطانیہ میں وہی لوگ آئیں جن کی برطانیہ کو ضرورت ہے ایسے لوگوں کو باہر نکالنا چاہیے جو غیر قانونی ہیں دریں اثناءبرٹش پاکستانی کیمونٹی نے اس قانون پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے قوانین سے برطانیہ میں نسل پرستی بڑھے گی ہر شخص کو غیر قانونی تصور کیا جائیگا کوئی بھی کسی مجبور اور بے بس کے خلاف شکایات کر سکتا ہے لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ ایمگریشن نے برطانیہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اس ملک میں قانون کے مطابق سٹیٹس حاصل کیا گیا ہے سیاسی مہاجرین بھی اس قانون کے تحت اس ملک میں رہ رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ سرحدوں پر کنٹرول کیا جائے لارڈ قربان حسین نے کہا کہ لبر ڈیمو کریٹ پارٹی حکومت کی اس پالیسی کو سپور ٹ نہیں کرتی ۔

مزید :

انسانی حقوق -