سپورٹ، نوٹ اور ووٹ۔۔۔قادری کو ملے تو بنتا ہے ’انقلاب‘
دو ماہ کا عرصہ گزر ا ہے کہ پاکستان میں انقلاب ’برپا‘ کرنے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔ اس انقلاب کو برپا کرنے کے لئے ابتدائی طور پر شہر اقتدار اسلام آباد کا چناؤکیا گیا تھا تاہم ’حکومتی انکار‘ پر انقلاب کو شہر شہربرپا کرنے کا آغاز کر دیا گیا تو اس سلسلے میں سب سے پہلے حکومت کو فیصل آبادکے دھوبی گھاٹ پر ’دھونے‘کا فیصلہ کیا گیاکیونکہ علامہ قادری کا کہنا ہے کہ ’فیصل آباد کا فیصلہ تو پورے پنجاب کا فیصلہ ہے‘اورپھر فیصل آباد نے تو ان کے بقول انقلاب کے حق میں فیصلہ دے بھی دیا ہے۔اس جلسے سے خطاب میں طاہر القادری نے کہا کہ ’تین سے چار لاکھ لوگ جلسہ گاہ میں موجود ہیں‘ لیکن خبری ذرائع کہتے ہیں کہ دھوبی گھاٹ کے اس میدان میں توپچاس ہزار سے زائد افراد کی گنجائش نہیں ہے۔جلسے سے قبل بھی ان کا کہنا تھا کہ جلسہ گاہ میں دو لاکھ لوگ پہنچ گئے ہیں جبکہ لاکھوں لوگوں کا سمندر میرے ساتھ چل رہا ہے، تاہم میڈیا کے مطابق اس قافلے میں ایک سو پچاس گاڑیاں شام تھیں تو یقیناوہ عوامی سمندر انہی گاڑیوں میں بند ہو گا، کیونکہ علامہ صاحب ’دریا کو کوزے میں بند‘ تو بہرحال کر ہی سکتے ہیں اور ویسے بھی ’جو چاہے ان کا حسن کرشمہ ساز کرے‘۔
کسی بھی اچھے ’شیف‘ کی طرح انقلاب کے شہر شہر سفر کے آغاز پر ہی دھوبی گھاٹ پر عوامی سمندر سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ’انقلاب کے اجزائے ترکیبی‘ بھی خاصی وضاحت کے ساتھ پیش کر دیئے۔ علامہ کا کہنا تھا کہ مجھے ’سپورٹ، نوٹ اور ووٹ دو، میں آپ کو انقلاب دوں گا‘۔ یہ تینوں چیزیں کسی بھی جگہ کوئی سیاسی تبدیلی لانے کے لئے بظاہر ضروری ہی نظر آتی ہیں کیونکہ ’عوامی مطالبے ‘ پر تخت پر سرفراز ہونے والے فوجی حکمرانوں کو آخر کار ’ووٹوں‘ کا خیال ضرور آتا رہا ، بالاآخررسم اقتدار میں وہ بھی ’تبدیلی‘ہی لا نا چاہتے تھے۔ خیر طاہر القادری کی طرف سے ’مجھے سپورٹ دو‘کے الفاظ سن کرنہ چاہتے ہوئے بھی ذہن میں جنوری 2013 کا ایک منظر گھوم گیا جہاں ایک قائد انقلاب ’کنٹینر‘ میں تشریف فرما تھے اور باہر شدید سردی میں ان کی ’سپورٹ‘ ٹھٹھرتی پھر رہی تھی، پھر ایک دن اس کنٹینر میں کچھ لوگ آئے اور ایک ’انقلابی معاہدہ‘ طے پا گیااور اس ’سپورٹ‘ کو سرکاری خرچے پر واپس ان کے گھروں کو بھیج دیا گیا۔
فیصل آباد میں ’موذن انقلاب ‘نے عوام سے دوسرا ’انقلابی مطالبہ‘ کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے نوٹ دو‘ کیونکہ میرے ساتھ کوئی وڈیرہ ہے نہ کوئی کاروباری اشرافیہ۔ یہ بات کرتے ہوئے شاید جناب پہلو میں کھڑے میں غلام مصطفی کھر ،سردار آصف احمد علی اور پرویز الہیٰ کو نظر انداز کر گئے ، پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ حضرات انقلاب لانے میں ان کے ہمسفر نہ ہوں یا اسلام آباد میں جاری دھرنے پر پہلے ہی اربوں روپے خرچ ہو چکے ہوں اور اب عوامی انقلاب کے لئے ’عوامی پیسے‘ کی ضرورت پیش آ گئی ہو۔ اس سے قبل گزشتہ سال بھی علامہ طاہر القادری کو ’انقلابی سفر‘پر روانگی کے وقت سینکڑوں عورتوں نے اپنے ’تلائی زیورات‘ بطور ہدیہ پیش کئے تھے مگر انقلابی معاہدے کے بعد نہ تو کسی نے اس ’ہدیے‘کی کوئی باز گشت سنی اور نہ ہی کسی’سوال اٹھانے والے‘ نے اس پر کوئی سوال اٹھا یا۔
انقلاب کے اجزائے ترکیبی میں آخری چیز طلب کرتے ہوئے قبلہ نے فرمایا’مجھے ووٹ دو‘مگر باوجود اس بات کے کہ انہوں نے دو بار انتخابات میں ووٹ لئے، اس بات کا عقدہ تو تب ہی کھلے گا جب انتخابات ہوں گے اور ووٹ پڑیں گے ۔ تاہم ان کے حالیہ بیانات دیکھے جائیں تو عین ممکن ہے کہ علامہ قادری یہ دعویٰ کردیں کہ ہر انتخابی حلقے میں انہیں عوام نے ’کروڑوں‘ ووٹ دیئے ۔ خیر یہ بات تو واضح ہو ہی چکی ہے کہ جناب اسی نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کو تیار ہیں جس پر گزشتہ سال ان کا کہنا تھا’Vote for None‘ (کسی کو ووٹ نہ دیں بلکہ دھرنے میں آئیں)، گویا انقلابی میدان میں بھی ’تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے‘۔ تاہم انقلاب کے اجزائی ترکیبی بتا کر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ ضرور بتا دیا ہے کہ انقلاب برپا کرنے کی مہم ابھی’ ابتدائی‘مراحل میں ہے اور امید ہے کہ مطلوبہ اشیاء دستیاب ہو جانے پر واقعی انقلاب آ جائے گا ، ویسے بھی کچھ خوش قسمت لوگ تو مداری والے کے کھیل میں ’سانپ اور نیولے‘ کی لڑائی آخر تک دیکھ ہی لیتے ہیں۔