علاقائی تعاون اور تجارتی تعلقات
موجودہ حکومت کوبخوبی ادراک ہے کہ جب تک توانائی کا بحران حل نہیں ہوتا ملک معاشی اور اقتصادی ترقی کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھ سکتا یہی وجہ ہے کہ وہ اس بحران پر قابو پانے کے لئے ہر ممکن ذرائع بروئے کار لارہی ہے۔ اس سلسلے میں تاپی منصوبے کی اہمیت سے انکارنہیں کیا جا سکتا۔
13دسمبر2015ء کو ترکمانستان کے شہر ’’میری‘‘ میں سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، افغان صدر اشرف غنی، ترکمانستان کے صدر قربان علی محمددف اور بھارت کے اس وقت کے نائب صدر حامد انصاری نے بٹن دبا کر اس منصوبے کا باضابطہ سنگ بنیاد رکھاتھا۔ چاروں رہنماؤں نے اس پائپ لائن منصوبے پر اپنے دستخط بھی کئے تھے، 1735کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن کا یہ منصوبہ 2018ء میں مکمل ہوگا اور اس پر 10ارب ڈالر لاگت آئے گی اور 2019ء میں پاکستان کو گیس کی فراہمی شروع ہوجائے گی، اس منصوبے کے تحت پاکستان کو 1325ملین مکعب فٹ روزانہ قدرتی گیس ملے گی۔ یہ گیس لائنز ترکمانستان سے ہوتی ہوئی قندھار، ہرات ہائی وےa سے گزر کر پاکستان پہنچے گی یہاں سے ہوتی ہوئی یہ گیس پائپ لائن بھارت جائے گی۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ منصوبہ علاقائی اقتصادی ترقی کے لئے نئی راہیں کھولے گا خوش کن امر یہ ہے کہ چاروں ممالک اس منصوبے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان میں جہاں صنعتی شعبہ ترقی کرے گا وہاں شہریوں کی زندگیوں میں بھی نمایاں تبدیلی آئے گی۔سینٹرل ایشیاء،افغانستان،پاکستان اور ایران تجارتی تعلقات اپنی نوعیت کے حوالے سے بڑی اہمیت کے ہیں،خطے میں معاشی ریل پیل اور معیشت کے ذریعے بہتر تعلقات اور علاقائی ترقی کے حامل بہت سارے منصوبہ جات پر کام کئے جاسکتے ہیں۔
بجلی کی پیداوار کے حوالے سے سینٹرل ایشیا سے بر آمد پورے خطے کے لئے کار آمد ہو سکتی ہے۔اسی طرح گیس کے منصوبہ جات پر عمل درآمد کر کے خطے کے لئے کار آمد بنائے جا سکتے ہیں۔جیسا کہ ایران گیس منصوبہ بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔اس منصوبے کے تحت ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کر کے پائپ لائن کو پاکستان کی سرحد تک پہنچا دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر عمل در آمد سے پاکستان میں توانائی کے بحران کو حل کرنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔
ایران دنیا میں تیل پیدا کرنے والے ممالک میں ایک بڑا ملک ہے۔ اس کی بر آمدات میں سالانہ آمدنی اربوں ڈالر پر مشتمل ہے۔اسی طرح دونوں ممالک کو آپس میں تجارت کے فروغ کو اہمیت دے کر معاشی تعلقات بڑھائے جاسکتے ہیں۔
دوسری جانب ایران اپنی سرحدی لائن مضبوط کرنے کے لئے وہاں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دے سکتا ہے۔پاکستان ایران کو اپنا قریبی دوست سمجھتا ہے،ایران پاکستان سے تجارت کرے،ایران نہ صرف اپنی چیزیں بر آمد کرے جیسا کہ وہاں سے ایران سیمنٹ ودیگر اشیا کی یہاں آمد دوسری جانب ایران بھی پاکستانی چیزیں خریدے اور اسی طرح بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملے گا،ایران اپنی تجارت کے حوالے سے توازن پیدا کرے ،ایران کو پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کوبڑھانے کے لئے یہاں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، تاکہ بہتر سہولتیں میسر ہوسکیں،پاکستان ایران سے تیل اور گیس خرید سکتا ہے،اسی طرح دونوں ممالک کی معیشت میں استحکام آئے گا۔ایران کے لئے پاکستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔جن میں گندم،چاول ودیگر اجناس، لوہا، کوئلہ ودیگرچیزیں شامل ہیں۔اسی طرح آپس کے تجارتی اور معاشی تعلقات میں زیادہ سے زیادہ اثراور زرمبادلہ اضافہ ہو گا۔
ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کو وسیع پیمانے پر توجہ دے کر اسے مزید وسعت دی جا سکتی ہے۔ایران پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بجلی مہیا کر رہا ہے۔اس میں مزید اضافہ کر کے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بجلی کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ریلوے نظام اور سڑک کو مزید بہتر طور پر بنا کر دونوں جانب تجارتی عمل کو تیز تر کر کے پاکستان کو تیل کی سپلائی،گوادر کو بجلی کی فراہمی اسی طرح دیگر شعبوں میں تجارتی عمل میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی ریلوے لائن بھی تفتان سے ایران کے شہر زاہدان تک جا رہی ہے اور وہاں سے پاکستان کے دوست ملک ترکی تک اس کی کڑی سے کڑی ملی ہوئی ہے، پہلے اس روٹ سے ترکی تک سامان کی رسائی بھی ممکن بنائی گئی تھی،لہٰذا گوادر کی فعالیت سے جہاں سمندری راستہ بہتر ہے،وہاں ایران سے ترکی تک زمینی تجارت کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔گوادر پورٹ اور ایران میں موجود چاہ بہار پورٹ کا آپس میں فاصلہ بھی انتہائی کم ہے،جنہیں آپس میں سمندری سطح پر جہاز رانی کے حوالے سے رابطہ بحال کر کے اس سے بھر پور فائدہ اٹھا کر دونوں ممالک کو آپس میں باہمی تجارت کے فروغ کے لئے بہترین مواقع موجود ہیں۔
دوسری جانب ان Sister Portsسے سینٹرل ایشیا کے ممالک تک سامان کی رسائی بذریعہ ریل اور سٹرک بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
وسیع سرحدی علاقہ اور طویل ساحلی پٹی ہونے کے سبب تجارتی عمل میں بہتری پاک ایران ممالک کے لئے سودمند ثابت ہوگی۔اسی طرح ایرانی تیل اور ڈیزل کو قانونی طور پر منڈیوں میں فروخت کر کے اس سے زرمبادلہ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، اس سے خطے کے ممالک کی درآمدات اور بر آمدات میں بھی اضافہ ہو گا اور ممالک کے مابین تجارت کو فروغ حاصل ہو گا۔
علاقائی تعلقات اور تعاون سے معاشی حالات وتعلقات میں اضافہ سمیت دوستانہ تعلقات بھی مزید سے مزید بہتر ہوتے رہتے ہیں۔جیسا کہ گزشتہ دنوں پاکستان اور تاجکستان کے مابین علاقائی روابط،تجارت سمیت توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا۔اسی طرح پاک روس تعلقات بھی دلچسپی کے حامل ہیں،پاک روس تعلقات کی بڑھوتری بھی خطے کے تمام ممالک کے مفاد میں ہے۔دوسری جانب یہ خطے کے استحکام کے لئے بھی مفید ہے،جیسا کہ روس اور چین کی ہم آہنگی بھی خطے کے تمام ممالک کے مفاد میں ہے،اس میں بتدریج اضافہ سینٹرل ایشیاء،سمیت افغانستان،پاکستان اور ایران کے لئے مفید ہے۔