ان کے علاوہ بھی اچھے خاصے پینے والے لوگوں سے بھی میں نے پوچھا تو ان کی کیفیت بھی میرے ہی جیسی تھی اور وہ بھی پی کر نہیں لکھ سکتے تھے۔ البتہ سگریٹ ایک ایسی چیزہے کہ یہ لکھنے پڑھنے والوں پر سوار ہو جاتی ہے ۔ سگریٹ یا حقہ پینا بھی ہمیں ایک روایت سے ملا ہے ۔ شروع میں سنتے تھے کہ جب مولانا ظفر علی خان شعر کہتے ہیں تو ادھر حقے کا ایک کش لگاتے ہیں تو ادھر ایک شعر ہو جاتا ہے ۔ اور وہ سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کو لکھوا دیتے ہیں۔ اور جتنے کش لگاتے ہیں اتنے شعر ہو جاتے ہیں۔
میں نے بہت بچپن میں سگریٹ نوشی شروع کر دی تھی۔ میرے جتنے دوست تھے سب سگریٹ پیتے تھے۔ لیکن جب پتہ چلا کہ اندر شعر کہنے کے کچھ جراثیم ہیں اور جب شعر کہنے لگا تو سن کر رکھاتھا کہ ظفر علی خان حقہ پی کر شعر کہتے ہیں تو حقہ تو ساتھ نہیں رکھا لیکن سگریٹ ساتھ رکھ لیے اور وہ ایسی عادت بنی کہ میں برابر پچاس تک سگریٹ پی کر شعر کہتا رہا اور میں لکھتے وقت Chain Smokerہو جاتا تھا۔ اور رات کو دیر تک کام کرتا تھا ۔ لیکن اگر کبھی رات کو گیارہ بجے کے قریب سگریٹ ختم ہو جاتے اور باہر جا کر کہیں سے سگریٹ نہ ملتے تو فکر اور تخلیق کا سلسلہ وہیں ختم ہو جاتا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ شعر میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ سگریٹ کہہ رہی ہے۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 85 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چونکہ میں نے بہت بچپن میں سگریٹ نوشی شروع کی تھی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے اعصاب خراب ہو گئے۔ ہاتھوں میں رعشہ جوانی ہی میں آگیا ۔ اب کم ہو گیا ہے پہلے زیادہ تھا۔ میں نے جب رعشے کا علاج بھی کروایا تو پتہ چل گیا تھا کہ یہ رعشہ نکوٹین کی وجہ سے ہے ۔ سوچتا تھا کہ سگریٹ ترک کرنے کا مطلب ہے شاعری ترک کرنا اور میرا تو گزر بسر ہی اس سے ہوتا تھا پھر بھی میں نے حوصلہ کر کے چار مہینے باقاعدہ سگریٹ ترک کئے رکھے۔ اور اس عرصے میں ایک شعر بھی نہیں کہہ پایا جس کے بعد میں نے مجبوراً دوبارہ سگریٹ شروع کر دیئے۔
1986 ء میں سینے میں گھٹن کا احساس ہوا۔ گھٹن اس قدر بڑھی کہ اس سے آگے ایک قدم نہ اٹھا سکا۔ وہیں پر بیٹھ گیا۔ اس وقت میں اپنی بیٹی کے گھر سے اپنے گھر آرہا تھااور دونوں گھروں کے درمیان چارپانچ فرلانگ کا فاصلہ ہے ۔ سانس بحال ہوئی تو پھر چلنا شروع کیا لیکن اسی طرح پھر گھٹن ہوئی اور پھر بیٹھنا پڑگیا۔ میں اس طرح بمشکل گھر پہنچا اور گھر آکر اپنے ایک دوست ڈاکٹر جہانگیر عالم کو فون کیا اور کہا کہ میں نے آپ سے کچھ مشورہ کرنا ہے۔ انہوں نے بلالیا اور میں چلا گیا۔
انہوں نے میری کیفیت سن کر اور طبی معائنہ کر کے کہا کہ یہ تو مجھے انجوائنا نظر آتا ہے ۔ پھر کہنے لگے کہ میں آپ کو خط لکھ دیتا ہوں۔ آپ ڈاکٹر زبیر کے پاس جائیں وہ صحیح بتائیں گے ۔ میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے بھی معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ یہ تو انجوائنا ہے ۔ انہوں نے کچھ ادویات لکھ کر دیں اور ریسٹ کرنے کا مشورہ دیا۔ اور پندرہ دن کے بعد دوبارہ آنے کے لیے کہا۔ انہوں نے کچھ پرہیز بھی بتائے لیکن سگریٹ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ شاید وہ سمجھتے ہوں کہ یہ سگریٹ نہیں چھوڑ سکے گا۔
اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ اب سگریٹ چھوڑ دینے چاہئیں ۔ لیکن پھر خیال آتا تھا کہ لکھنے پڑھنے کا کیا ہوگا اور بغیر لکھنے پڑھنے کے زندہ کیسے رہوں گا ۔ غرضیکہ ایک طرف مجھے موت پکارتی تھی اور دوسری طرف زندگی۔ آخر میں نے زندگی کے حق میں فیصلہ کیا اور کسی نہ کسی طرح سگریٹ چھوڑ دیئے۔
لکھنا پڑھنا تو کیا تھا۔ میں نے پندرہ دن تک پورا ریسٹ لیا۔ اس کے بعد جب لکھنے بیٹھا تو لکھا نہ جائے۔ میں نے سوچا کہ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ شاعری چھوڑ دوں گا۔ اور پیسہ بدل کر کسی اور طریقے سے روٹی کمالوں گا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور میں کوشش کرتا رہا۔ آخر کوئی ایک ڈیڑھ ماہ کے بعد ذہن ساتھ دینے لگا اور میں سگریٹ کے بغیر بھی لکھنے پرھنے لگا۔
مجھے سگریٹ نوشی ترک کرنے کا حوصلہ اس لیے بھی ہوا کہ مجھ سے چھ ماہ پہلے احمد ندیم قاسمی صاحب بھی سگریٹ چھوڑ چکے تھے حالانکہ وہ بہت پرانے سگریٹ پینے والے تھے۔ اس کے بعد جو رعشہ کبھی ختم نہیں ہوا تھا وہ بڑی حد تک کم ہو گیا ۔ اب میرے ہاتھ بالکل نہیں کانپتے ۔ زبان کا ذائقہ جو سگریٹ نوشی کی وجہ سے خراب ہو چکا تھا وہ بھی ٹھیک ہو گیا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ضمیر پر جو بوجھ تھا کہ روزانہ بیس روپے کے سگریٹ پی جاتا ہوں اور اتنا خرچ تو ہنڈیا پکانے پر نہیں آتا ۔ چنانچہ ضمیر کے اس بوجھ سے بھی نجات مل گئی اور اب میں ایک نارمل آدمی کی طرح شاعری کر رہا ہوں۔
یہ سچ ہے کہ شراب کا شاعری سے کوئی تعلق نہیں لیکن سگریٹ کا کچھ تعلق ہے ۔ جو آدمی سگریٹ یا حقہ پی کر شعر کہنے کا عادی ہو جائے تو اس کے لیے تمباکو نوشی بہت لازم ہو جاتی ہے اور اسے اس سے نجات بہت مشکل ملتی ہے۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 87 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں