عالم اسلام کی ابتر صورت حال اور ترک سعودی تنازع
ہم بطور ملت افتراق و تفریق کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں، شیعہ، سنی کی تفریق اپنی جگہ پر پہلے سے ہی موجود ہے۔ عرب و عجم کے پس منظر میں اس تفریق کی ایک طویل تاریخ ہے، عربوں نے فارس فتح کرکے آتش پرست تہذیب کا خاتمہ کردیا تھا، ایرانی اپنی قومیت پر فخر بھی کرتے تھے اور انہیں اپنے تہذیب و تمدن پر ناز بھی تھا، انہیں اپنی زبان پر بھی فخر تھا۔ عرب قبل از اسلام بھی آتش پرستوں کے خلاف تھے، اس لئے وہ غیر عربوں کو عجمی یعنی جو عربی زبان نہیں بولتا تھا، اسے عجمی/گونگا کہتے ہیں۔ یہ لفظ بالخصوص آگ پرست ایرانیوں کے لئے تھا۔ اسلام کی دولت ملنے کے بعد عرب فکری و نظری طور پر بھی اعلیٰ اور ارفع ہوگئے، اس لئے جب انہوں نے فارسی حکمرانوں کو شکست دی تو ان کا تاریخی تفاخر دو چند ہوگیا۔ آتش پرست عربوں سے مغلوب تو ہوگئے، لیکن عرب و عجم کی تفریق ہنوز جاری ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ آج عرب ممالک سنی عرب، شیعہ ایران اور اس کے حلیف ممالک کے خلاف مورچہ زن ہیں، شام میں ایک عرصے سے آتش و آہن کا ایک عظیم الشان الاؤ دھک رہا ہے، جس میں مسلمان بھسم ہو رہے ہیں۔
ترکی میں ایک عرصے سے تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ اسلامی فکر کا احیا ہو رہا ہے، ترک لیڈر طیب اردوان کی قیادت میں گزری دو دھائیوں کے دوران ترکی ایک مضبوط اور موثر ملک کے طور پر اُبھرا ہے۔ اردوان کی بالغ النظری نے ترکی کا عالم اقوام میں قد کاٹھ بلند کردیا ہے، فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کے حصول کے لئے ترکی نے سفارتی و سیاسی محاذ پر شاندار کردار ادا کیا ہے، مسلمان ویسے بھی خلافت عثمانیہ کو ’’اپنے شاندار ماضی‘‘ کے طور پر لیتے ہیں۔ اس حوالے سے ترکی اور اردوان کے وقار میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے، دورِ حاضر میں مسلمان ممالک میں ترکی ایک اُبھرتی ہوئی مسلم طاقت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
ترقی کے عرب و عجم کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہیں، ترکی واحد مسلم ملک ہے جو ناٹو کا ممبر ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان، سعودی عرب کو ایک فعال اور طاقتور مملکت بنانے کی کاوشوں میں لگے ہوئے ہیں، خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لئے انہوں نے ایک مشترکہ فوج تشکیل دی ہے، جس کی قیادت ہمارے جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے، لیکن سعودی قیادت ترکی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے بھی خائف نظر آتی ہے، حال ہی میں غائب ہونے والے سعودی صحافی جمال خشوگی کے استنبول میں سعودی سفارت خانے میں غائب ہونے کے بارے میں تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے، خشوگی سعودی حکومت کا سابقہ شہری ہے، جو ایک سال سے امریکہ میں رہائش پذیر ہے، 59سالہ سعودی شہری/صحافی شہزادے کی کچھ پالیسیوں کا ناقد ہے، وہ سعودی عرب کے یمن میں کردار پر بھی تنقید کرتا رہا ہے۔ وہ ایک سال سے گرفتاری کے ڈر سے امریکہ میں رہائش پذیر ہے، 2 اکتوبر کو وہ استنبول میں سعودی سفارت خانے میں اپنی ترک منگیتر سے شادی کے لئے درکار دستاویز کے حصول کے لئے آیا،
اس کے بعد سے وہ غائب ہے، ترک حکومت نے 150 کیمروں کی مدد سے سراغ لگایا ہے کہ جب وہ سفارت خانے میں داخل ہوا تو 15سعودیوں کے ایک جتھے کو اس کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھا گیا، ترک حکومت نے فوٹیج جاری کردی ہے اور کہا ہے کہ اسے سعودیوں نے قتل کر دیا ہے۔ سعودی حکومت نے ترک حکومت کے اس بیان کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا ہے، ایسے لگتا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے درمیان ایک نئی جنگی کیفیت پیدا ہوگی۔ یہ مسئلہ چھوٹا نہیں ہے، ایک شہری کا غائب ہونا اور اس کا مبینہ طور پر قتل ہونے کا اعلان، معاملات خطے میں پہلے سے جاری افتراق و تفریق میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ جاری حالات میں ایسی صورت حال بہت سی طاقتوں کے لئے باعث اطمینان ہوگی، کیونکہ اس طرح اہل حرم کے درمیان پہلے سے جاری لڑائی بھڑائی میں تندی و تیزی آئے گی۔
عالم اسلام ریزہ ریزہ ہے، یہود، ہنود اور صہیونی، اہل حرم کی تباہی و بربادی پر متحد و متفق ہو چکے ہیں، 90کی دہائی میں اشتراکی ریاست کے خاتمے کے بعد عیسائی دنیا نے صیہونی فکر کے تحت ’’عیسیٰ ابن مریم کی آمد شانی‘‘ اور ’’تھرڈ ٹمپل کی تعمیر‘‘ کے لئے صلیبی جنگ شروع کررکھی ہے، مسلم دشمنی کے تحت یہود کے ساتھ ہنود کو بھی شامل عمل کرلیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں صیہونی ریاست اسرائیل، امریکی برطانوی عیسائی اسٹیبلشمنٹ کا بازوئے شمشیرزن بھی ہے اور فکری و نظری حلیف بھی۔ جنگ عظیم اول میں عرب و عجم کی تفریق کے ذریعے عربوں کو ترک حکمرانوں کے خلاف کھڑا کیا گیا اور خلافت عثمانیہ کا تیا پانچہ کردیا گیا، عربوں میں پائے جانے والے قومی تفاخر کو بنیاد بنا کر ترکوں کے خلاف عربوں کی شیرازہ بندی کی گئی، برطانوی ایم آئی کی کاوشیں، لارنس آف عریبیا کا کردار نہ صرف ہماری مِلّی بلکہ عالمی تاریخ میں محفوظ ہے کہ انہوں نے کس طرح ترک خلاف (خلافتِ عثمانیہ) کے خلاف مورچہ بندی کی۔ نوجوان ترک تحریک کے ذریعے کس طرح مصطفی کمال کو لیڈر بنایا گیا اور پھر خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں استعمال کیا گیا، تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ مصطفی کمال فری میسن تحریک میں بھی شامل رہے، فری میسن یہودی اور صیہونی مورچہ ہے، جو وہ پوری دنیا کے خلاف لگائے بیٹھے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں ایک میرونائٹ کرسچن استاد و دانشور مائیکل افلاک نے بعث ازم کی تحریک اٹھائی، عربوں میں عربیت کے فروغ اور اس بنیاد پر بعث پارٹی کے قیام کے ذریعے عربوں کا نفاق محمد عربی ﷺ کے دینِ حنیف کی بجائے، فراعنہ کے ساتھ جوڑا گیا۔ عربوں کی قوت کو کمزور کیا گیا، تفریق پیدا کی گئی۔ بعثی نظریات کو عربوں پر مسلط کرنے کی کاوشیں کی گئیں، ان کے مقابلے میں استاد حسن البنا نے اخوان المسلموں کی نظریاتی تحریک شروع کی۔ یہ تحریک بہت طاقتور تھی، فکری اور نظریاتی طور پر اس تحریک نے پختہ لٹریچر تخلیق کیا، تنظیم کے ذریعے تربیت کے ذریعے اخوان المسلمون ایک طاقتور تنظیم کے طورپر ابھری، جس نے عربوں میں بالخصوص اسلامی شعور پیدا کیا، اس تحریک کے اثرات نہ صرف عالم عرب بلکہ عالم غرب میں بھی پھیلے۔ انہی نظریات اور خیالات پر مبنی جماعت اسلامی نے ہندو پاک میں اسلامی شعور پیدا کیا، حسن البنا کی طرح بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے خالص اسلامی نظریات پر نوجوانوں کی تربیت کی۔
تنظیم سازی کی اور پھر معاشرے کو اسلامی افکار و نظریات کے مطابق ڈھالنے کا کام شروع کیا، تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی کی تنظیم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور پھر نئے حالات کے مطابق دونوں ممالک کی تنظیموں نے اپنا تحریکی و تنظیمی کام جاری رکھا۔سید مودودی نے بہت طاقتور اور موثر اسلامک لٹریچر تخلیق کیا، نوجوانوں کو شرق و غرب میں متاثر کیا، خالص قرآنی اسلامی پیغام کی تشریح و ترویج کے لئے حسن البنا اور سید مودودی کی کاوشیں گزری صدی میں ہماری ملی تاریخ کاروشن باب ہیں، خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عرب و غرب میں برپا ہونے والی ملی تحریک پر انہی دوافراد کے افکار صالحہ کی مہر نظر آتی ہے۔ لیکن دشمنوں نے مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے لئے جانے والی کسی بھی کوشش کو کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے دیا، اسلام ایک سیاسی اور تہذیبی قوت کے طور پر بیچارگی کا شکار ہو چکا ہے۔
90کی دہائی میں اشتراکی سلطنت کے خاتمے کے بعد اور پھر 9/11 کے بعد سے اقوام مغرب مسلمانوں کے خلاف مورچہ زن ہیں، مسلمانوں کی حالت بہت پتلی ہے، بے انتہا قدرتی اور انسانی وسائل رکھنے کے باوجود عالم اسلام کی حیثیت بالکل صفر ہے، سعودی عرب ترکی تنازعہ جاری صورت حال میں مزید ابتری پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔