لیبیاتباہ و برباد:او آئی سی حالات بہتر کرے
لیبیا براعظم شمالی افریقہ میں واقعہ ایک اہم ملک ہے۔ تقریباً ایک دہائی قبل تک یہاں دیگر بیشتر ممالک کی طرح امن و سکون کے حالات میں صدر کرنل معمر قذافی کی گزشتہ کئی سال سے حکومت قائم تھی، وہاں تیل کے ذخائر کی بنا پر عوام کی معاشی حالت بھی اکثر ترقی پذیر ممالک کے عام لوگوں سے بہتر تھی،زیادہ تر انسانی آبادی، مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ اب شاید تناسب کچھ تبدیل ہو گیا ہو۔ بعض مغربی طاقتوں کو قذافی مرحوم کی جرأت و ہمت کا اندازِ حکمرانی قابل ِ قبول نہیں تھا،کیونکہ وہ ان طاقتوں کی من مانی کی جارحانہ حرکات پر اپنے آزادانہ ردعمل کا اظہار بسا اوقات برملا کر دیا کرتے تھے۔ لیبیا میں بعض دیگر ممالک سے آئے لوگ برائے تلاش معاش، وہاں کی معاشی حالت کی بہتری میں خاصا مثبت کردار ادا کرتے رہے۔ قذافی اپنے ملک کی دفاعی صلاحیت کو حتی المقدور مضبوط و محفوظ کرنے کی تگ و دو بھی کرتے رہے۔ غالباً ان کی یہی کارکردگی بعض مغربی قوتوں کو قابل ِ اعتراض معلوم ہوتی تھی۔
بعض مغربی حکمران اُن کی جوان ہمت طبع اور دلیرانہ کارگزاری پر گاہے بگاہے تندو تلخ تنقیدی کلمات کے ذریعے اپنی ناراضی کے اشارے واضح کرنے کی روایتی ڈگر جاری رکھتے تھے،ایسی صورتِ حال کے پیش نظر قذافی حکومت کو مشکلات اور مصائب سے دوچار کر کے ملکی نظام اور نظم و نسق چلانا کٹھن اور دشوار، بلکہ رفتہ رفتہ ناممکن بنا دیا گیا۔حتیٰ کہ چند سال قبل ماہِ ستمبر یا اکتوبر میں، مقامی حریف لوگوں کی مدد سے کرنل قذافی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، نیز اُن کے چند بیٹوں کو قتل یا زخمی کرنے کے علاوہ ایک بڑے بیٹے سیف الاسلام کے زندہ ہونے کی خبر، کبھی کبھی ذرائع ابلاغ میں دیکھنے میں آ جاتی ہے۔وہ شاید آج کل بھی لیبیا میں ہی کہیں حراست میں ہیں یا کسی مقدمے میں ملوث کر کے عدالتی کارروائیوں میں پیش کئے جا رہے ہیں۔یاد رہے کہ کرنل قذافی کو وہاں کے عام لوگوں سے خفیہ رکھ کر دفن کیا گیا تھا تاکہ لوگ اُن کی حمایت، عقیدت یا دُعائے مغفرت کے لئے کسی مخصوص جگہ پر جمع نہ ہونے پائیں۔
چند سال قبل وہاں امریکی قیادت میں بعض دیگر مغربی طاقتوں کی مدد سے ایک شخص کو وزیراعظم نامزد کر کے حکومت کا بظاہر کوئی سادہ سا ڈھانچہ بنایا گیا لگتا ہے، نیز وہاں اقوام متحدہ کے تحت ایک فوجی کمان کے قیام کی تشہیر بھی پڑھنے میں آئی ہے،لیکن آٹھ یا نو سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اقوام متحدہ کی زیر نگرانی عوام کی نمائندہ حکومت کے قیام کی خاطر وہاں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کی کوشش کے بارے میں تاحال کوئی منصوبہ، انتظام اور اعلان منظر عام پر نہیں آیا۔ یہ امر حیران کن ہے کہ لیبیا کی تباہی اور بربادی میں تو بعض قوتیں، جلد اپنی سازش کاری،مالی امداد، اسلحہ کی ترسیل اور مخالف لوگوں کی امداد کے لئے سرگرم ہو کر متحد و معاون ہو گئی تھیں،جبکہ یہ تمام کارروائیاں اقوام متحدہ کے بنیادی منشور اور اہم مقاصد کی کھلی خلاف ورزی اور پہلو تہی پر مبنی ہیں۔ لیبیا اقوام متحدہ کا رکن ہوتے ہوئے اپنی آزاد اور خود مختار حیثیت سے اپنے عوام کی خدمت کے لئے انہیں ضروریاتِ زندگی کی فراہمی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے تحفظ کے تحت اب بھی پُرامن طور پر اپنے انتظامی امور بلا کسی بیرونی مداخلت سے چلانے اور جاری رکھنے کا قانونی اختیار رکھتا ہے۔
حالیہ دِنوں میں وہاں قومی فوج اور اقوام متحدہ کی فوج کے درمیان طرابلس کے علاقے اور گردو نواح میں شدید جنگ کی اطلاعات پڑھنے میں آئی ہیں، جن میں سینکڑوں افراد جاں بحق اور زخمی ہو گئے۔ مرنے والے بیشتر عام بے قصور لوگ ہی ہوں گے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ قومی فوج کے مقامی افراد پر مشتمل ہونے پر تو بیرونی قوتوں کو ان کی مخالفت سے گریز کرنا چاہئے، جبکہ اقوام متحدہ کی فوج وہاں غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انداز سے جلد انتخابات کا انعقاد کرا کے وہاں کی سیاسی قیادت منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے اور اپنے انخلاء کے انتظامات طے کرے۔ لیبیا کی سرزمین سے جلد کوچ کر جائے تو بہتر ہے۔ بڑی طاقتوں کو ایسی کارروائی کا لائحہ عمل جلد طے کر کے حتمی منصوبہ سازی پر عمل درآمد کرانے کو ترجیح دینی چاہئے۔آخر سیاسی قیادت کا کردار ادا کرنے کا اختیار تو مقامی لوگوں کو ہی ملنا چاہئے۔ گزشتہ دہائی کے دوران لیبیا کے متعدد شعبہ ہائے زندگی میں بیرونی قوتوں کی مداخلت سے وہاں،جو وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی ہوئی ہے،اب اس کو ختم کر کے بحالی کی رفتار تیز کی جائے۔عام لوگوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کیا جائے۔ او آئی سی کو بھی معاملہ میں موثر کردار ادا کرنے کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔