اسرائیل پر فلسطینی حملے کے اثرات

       اسرائیل پر فلسطینی حملے کے اثرات
       اسرائیل پر فلسطینی حملے کے اثرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  روس اور یوکرائن کی جنگ کو شروع ہوئے تقریباً دو سال ہونے کو ہیں۔ا س جنگ میں ایران اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ روس کا اتحادی ہے۔اورایرانی اسلحے کو بھرپور طریقے سے استعمال کر رہا ہے، جس کے باعث اب یہ ختم نہ ہونے والی جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دنیا میں بہت ساری چیزوں کی نایابی کا باعث بھی بنی ہے۔اسی وجہ سے اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا بھی آج کل میڈیا کی زینت ہے۔لیکن 7 اکتوبر کو ملت مظلوم فلسطین نے اپنے خطے کو آزاد کرانے کے لیے غاصب اسرائیلی ریاست پر بھرپور حملہ کرکے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے، اور اب تک عالمی میڈیا پر تبصرے جاری ہیں کہ حماس نے ’طوفان الاقصیٰ‘ کے نام سے اتنے بڑے ظالم و جابر دشمن پر کیسے دن دیہاڑے حملہ کردیا۔ جس میں پہلے ہی دن پانچ ہزار سے زائد راکٹ فائر کیے گئے، جو تل ابیب سمیت کئی شہروں پر گرے۔اوریہودی ہلاکتوں کے ساتھ دفاعی نقصان کا بھی باعث بنے۔

 اسرائیل اپنی جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے حوالے سے بہت وسعت رکھتا ہے جبکہ اس کی پشت پناہی یورپی ممالک اور امریکہ جیسی نام نہاد سپر طاقتیں بھی کررہی ہیں۔لیکن فلسطین سے اکثر اسلامی ممالک نے شرمناک حدتک منہ موڑ رکھا ہے۔ لیکن اس کسمپرسی کے باوجود مسلم دنیا میں سے فلسطین کے مجاہدین نے وہ کام کر دکھایا ہے جو کسی بڑی سے بڑی قوت کا بھی حوصلہ نہیں پڑتا تھا کہ اسرائیل سے جنگ کرے۔ اس جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں اسرائیلی یہودی مارے گئے اورکم و بیش اتنے ہی یرغمال بنائے گئے۔لیکن اسرائیلی حکومت کو خبر ہی نہ ہوئی کہ یہ سب کیسے ہو گیا؟ میں حیران ہوں کہ اسرائیل اپنے دفاع کے بارے میں دعویدار تھا کہ اس کے پاس ’آئرن ڈوم‘ کی شکل میں دنیا کا بہترین ائیر ڈیفنس سسٹم موجود ہے، جسے روس اور یوکرائن بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن اس تین روزہ اپنی مثال آپ جنگ میں فلسطینیوں کے حملے اور اسرائیل کی ناکامی سے ثابت ہوگیا کہ اس کے پاس کوئی ایسا ائیر ڈیفنس سسٹم موجود ہی نہیں تھا، جو حماس کے نوجوانوں کے فائرہوتے راکٹوں کو روک سکتا۔جنگ کے ایک دن بعد ہوش آیا تواسرائیلی حکام نے اپنی خفیہ ایجنسی ’موساد‘کی ناکامی بارے پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوگیا تو اس کا تسلی بخش جواب نہ دیا جا سکا۔اب اسرائیل نے حکومتی سطح پر اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔ جس کے بعد اسرائیلی فورسز نے ہوائی حملے کرنا شروع کردیے ہیں۔

 ان میں شہری علاقوں پر حملوں سے بچوں، عورتوں سمیت سینکڑوں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی ایسا اثر نظر نہیں آیا جس سے حماس کی کمزوری ظاہر ہوتی ہو۔جس دن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ہم حماس کو اس سرزمین سے نکال باہرکریں گے، اسی دن حزب اللہ لبنان کے جنگجوؤں نے بھی اسرائیل پر حملہ کر دیا۔دوسری طرف ایک بڑا امریکی بحری بیڑابھی اسرائیل کی سمندری حدود میں اس کی مدد کے لیے پہنچ چکا ہے۔ جس سے ثابت ہوگیاکہ اسرائیل کے پاس حماس سے لڑنے کی ہمت اور وسائل نہیں ہیں کہ امریکہ بہادر کو صیہونی ریاست کی مدد کے لئے آنا پڑا۔ امریکہ نے اپنے دفاعی نظام، اسلحے اور وسائل کو اسرائیل کے تحفظ کے لیے اسرائیلی بحری حدود میں لا کھڑا کیا ہے لیکن صیہونی حکومت کو یہ پتہ ہی نہیں کہ آج مسلمان جہادی قوتیں جو فلسطین اور بیت المقدس کو آزاد کروانے کے لیے میدان عمل میں ہیں،وہ بھی حماس اور حزب اللہ کے ساتھ ہیں۔ یمن کے حوثی قبائل پر مشتمل تنظیم ’انصار اللہ‘ کے نوجوان بھی حماس کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں۔میں محسوس کر رہا ہوں کہ اس وقت اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ مجاہدین کی طرف سے سیز فائرہوگا تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہے۔ آج مجاہدین نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی قوت کے سہارے اس صیہونی شیطانی قوت کو خطے سے باہر نکال کریں گے۔ اگرچہ امریکہ یا یورپی ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی بھی میدان میں آجائیں، حالات بتارہے ہیں کہ جنگ ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اور فتح انشاء اللہ مسلمان جہادی نوجوانوں کی ہوگی۔جو حماس، حزب اللہ اور القدس فورس کی صورت میں بے خوف و خطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، یقینا اللہ کی نصرت سے یہی کامیاب ہوں گے۔

 میں یہ کہتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ جنگ کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور قوت کے بعد ایران کے رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا وہ بیان ہے جس میں وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ اسرائیل یا کسی بھی سامراجی قوت نے ایران پر حملے کی حماقت کی تو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔یہ بھی مجاہدین کی فتح ہی کی برکت سمجھئے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کردیے ہیں اور اس حوالے سے مجھے ایرانی صد ر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کا وہ بیان یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلم ممالک کے ساتھ اسرائیل کے مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔ 

ایک اور اہم بات پاکستانی عوام، حکمرانوں اور مذہبی تنظیمات کے سربراہان سے کرنا چاہتا ہوں کہ اتنے دن گزر چکے ہیں کہ ہماری طرف سے فلسطین کے عوام کی حمایت میں کوئی کیمپ لگائے گئے اور نہ ہی امداد کا اعلان کیا گیا۔جبکہ حکومت یا عوامی سطح پر فلسطینی عوام کہ جن پر پانی، ادویات، خوراک، بجلی اورگیس بند کی گئی ہے،اس حوالے سے امداد کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ پاکستان امت مسلمہ کے مسائل میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتارہا ہے۔ ہمیں عوام سے اپیل کرنی چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں اور قبلہ اول کے محافظوں کو خوراک اور ادویات پہنچانے کے لئے مدد کریں۔ پاکستان سے ادویات اور ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھیجنے کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور چاروں وزرائے اعلیٰ کی طرف سے بھی حمایت کا اعلان اور فنڈ ریزنگ کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ ہمارے سرمایہ داروں اوربڑے بڑے صنعتکاروں کو بھی اس کام کے لیے اگلی صفوں میں نظر آنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جماعت اسلامی سمیت بڑی تنظیمیں موجود ہیں جو امدادی کیمپ لگاسکتی ہیں اور ادویات اکٹھی کر کے فلسطین بھجواسکتی ہیں۔انسانیت کی خدمت میں ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -