قائداعظم ؒ اور ماﺅنٹ بیٹن (3)
کالنز اور لیپرے رقم طراز ہیں14:اگست 1947ءکو قائداعظم ؒ گورنمنٹ ہاﺅس سے ایک کار میں آئین ساز اسمبلی کی عمارت کی طرف گئے۔ ماﺅنٹ بیٹن اور ان کی اہلیہ دوسری گاڑی میں ان کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ چند روز پہلے کی اس اطلاع کے پیش نظر کہ سکھوں اور ہندوﺅں نے مل کر14اگست1947ءکو قائداعظم ؒ کے قتل کا منصوبہ بنایا ہے، راستے میں سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ماﺅنٹ بیٹن نے کہا کہ پاکستان کا قیام تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ تاریخ کبھی گلیشیر کی رفتار سے بہت آہستہ آہستہ چلتی ہے اور کبھی تیز رفتار ندی کی طرح آگے بڑھتی ہے۔ اب دنیا کے اس حصے میں ہماری متحدہ کوششوں نے برف کو پگھلا دیا ہے.... اب پیچھے مڑ کر دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔ اب صرف آگے دیکھنے کا وقت ہے۔ یہ کہہ کر وائسرائے نے جناح ؒ کی طرف دیکھا، اس سپریم لمحے میں بھی ان کے چہرے سے جذبات کا کوئی سراغ نہیں ملتا تھا۔اس کے بعد قائداعظم ؒ کی باری تھی۔ انہوں نے سفید شیروانی پہنی ہوئی تھی، جس کے بٹن گلے تک بند تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی رواداری اور خیر سگالی کی روایات.... 1300سال پرانی ہیں، جب ہمارے پیغمبر نبی پاک نے یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح پانے کے بعد نہ صرف الفاظ، بلکہ اپنے عمل سے بھی ان کے ایمان اور اعتقاد کے بارے میں انتہائی رواداری اور احترام سے کام لیا.... ہمیں انہی روایات کی پیروی کرنی چاہئے.... پاکستان کی طرف سے اپنے ہمسائیوں اور دُنیا کی دوسری قوموں سے دوستی میں کسی قسم کی کمی نہیں ہو گی۔تقریب ختم ہونے پر وہ دونوں کھلی گاڑی میں بیٹھ کر گورنمنٹ ہاﺅس جاتے ہوئے کراچی کی سڑکوں سے گزرے۔ ماﺅنٹ بیٹن کے کہنے کے مطابق وہ جب بھی جناح ؒ سے ملے انہیں کشیدہ خاطر پایا، لیکن اس وقت تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ ان کی کشیدگی کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں۔ ماﺅنٹ بیٹن نے بعد میں کہا کہ تین میل لمبے راستے کی یہ آدھ گھنٹے کی مسافت مجھے24گھنٹے کا سفر محسوس ہوا۔ کار آہستہ آہستہ چل رہی تھی، راستے میں ہر جگہ لوگ کھڑے تھے، جن کو جگہ نہیں ملی تھی وہ روشنی اور ٹیلی فون کے کھمبوں کے ساتھ چمٹے ہوئے، کھڑکیوں سے لٹکے ہوئے اور چھتوں پر کھڑے تھے۔ سب لوگ پاکستان زندہ باد اور قائداعظم ؒ زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ کار میں ماﺅنٹ بیٹن اور جناح اپنے خدشات کو اپنی پُروقار مسکراہٹوں اور ہاتھوں کے اشاروں کے پیچھے چھپائے ہوئے تھے۔ وہ اپنے خیالات میں ایسے گم تھے کہ انہوں نے ایک دوسرے سے بات تک نہیں کی، جب کار گورنمنٹ ہاﺅس میں آ کر کھڑی ہوئی، تو ان کے تعلقات میں پہلی اور آخری بار جناح ؒ نرم پڑے۔ سرد مہری کے آثار غائب ہو گئے اور ایک پُرجوش تبسم سے ان کا چہرہ جگمگا اُٹھا۔ انہوں نے اپنا استخوانی ہاتھ وائسرائے کے گھٹنوں پر مارا اور کہا: ”خدا کا شکر ہے مَیں آپ کو زندہ واپس لے آیا“۔ہندوستان کے آخری وائسرائے کے طور پر ماﺅنٹ بیٹن کی قائداعظم ؒ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور وہ قائداعظم ؒ کے بارے میں اپنے تاثرات ریکارڈ کراتے رہے، جو کبھی بھی خوشگوار نہیں تھے، لیکن اپنی موت سے چند سال پیشتر انہوں نے اکتوبر1975ءمیں بی بی سی کے نمائندے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مَیں عمر کے آخری دور میں ہوں۔ میرے تمام ساتھی اور اہلیہ بھی فوت ہو چکے ہیں۔ پتہ نہیں مجھے کب بلاوا آ جائے، اس لئے مَیں کوئی غلط بات نہیں کہوں گا۔ مَیں اپنی پوری سیاسی زندگی میں جس شخص سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہوں، وہ محمد علی جناح ؒ ہے۔ مَیں نے ان میں منافقت کا شائبہ تک نہیں دیکھا۔ اتنا بلند کردار انسان اور قومی لیڈر مسلمانوں کو شاید ہی دوبارہ مل سکے۔ جناح ؒ بڑی نمایاں اور ممتاز شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اپنے مقام پر پہاڑ کی طرح مستحکم اور سخت تھے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ٹھنڈے دل و دماغ کے آدمی تھے۔ میرے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ مَیں اُن کے دلی خیالات کو بھانپ سکوں۔ وہ علم نفسیات کے ماہر، نہایت ہی ذہین و فطین اور انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھنے والے تھے۔ نہرو اور گاندھی بھی انگریزی میں اچھے تھے، مگر جس روانی کے ساتھ جناح ؒ انگریزی زبان پر حاوی تھے وہ دونوں اس کا عشر عشیر بھی نہیں تھے۔جناح ؒ میں ضد تو تھی، لیکن منافقت نہیں تھی۔ سیدھے چلنے والے، صراط مستقیم کے پابند، سچی بات مُنہ پر کہنے والے، راست بازی میں دریکتا، ظاہر و باطن میں یکساں، انگریزی میں درجہ اول کے مقرر، نحیف جسم و جان کے ساتھ ایک با رعب اور پُرہیبت شخصیت۔ مسلمانان ہند کو صرف یہ ایک شخص بام عروج پر لے گیا۔مجھے صرف اس مقصد کے لئے ہندوستان بھیجا گیا تھا کہ مَیں اس ملک کو کسی نہ کسی طرح متحد رکھ سکوں اور ایک متحدہ ہندوستان کو اقتدار منتقل کروں۔ اگر ایسا ہو جاتا تو یہ نہ صرف میرا بلکہ ایٹلی حکومت کا بھی ایک تاریخی کارنامہ ہوتا۔ مَیں نے اس ملک کو متحد رکھنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن میری راہ میں ایک شخص چٹان کی طرح حائل تھا اور وہ تھا محمد علی جناح ؒ۔ ان کو قائل کرنے کے لئے میری ہر کوشش ناکام ہو گئی اور بالآخر جناح ؒ کی ضد کے سامنے مجھے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ماﺅنٹ بیٹن نے پوری کوشش کی کہ قائداعظم ؒ اسے ہندوستان اور پاکستان کا مشترکہ گورنر جنرل بنانے کی تجویز پر اتفاق کر لیں، لیکن قائداعظم ؒ نے کبھی ماﺅنٹ بیٹن کو پاکستان کا گورنر جنرل بنانے کا وعدہ نہیں کیا۔ ماﺅنٹ بیٹن نے خود بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ ان سے کوئی ایسا وعدہ کیا گیا تھا اور قائداعظم ؒ نے اپنی14جولائی1947ءکی پریس کانفرنس میں ایسی کسی پیشکش کی صاف تردید کر دی تھی۔ دراصل، مشترکہ گورنر جنرل کا تصور ہی قائداعظم ؒ کی سوچ کے خلاف تھا۔ وہ طبعاً بھی اور اپنے پیشے کے اعتبار سے بھی قانونی ذہن رکھتے تھے۔ ان کے لئے یہ بات ناقابل فہم تھی کہ دونوں مملکتوں کا گورنر جنرل ایک ہی ہو۔ اگر دونوں حکومتوں میں اختلاف رائے ہو گا تو گورنر جنرل کی کیا پوزیشن ہو گی؟ اگر وہ ایک حکومت کے حق میں بات کرتا ہے، تو دوسری حکومت اس کا کیا بگاڑ لے گی؟ اگر ماﺅنٹ بیٹن کوئی اہم فیصلہ کر لیتے، جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہوتا تو کیا اس صورت میں پاکستانی افواج یا حکومت ان کا فیصلہ مانتی اور اگر نہ مانتی تو کیا اس دور رستا خیز میں مزید شورش پاکستان کے قیام کو پائیدار ہونے دیتی؟ یہ کہہ دینا کہ ماﺅنٹ بیٹن اگر مشترکہ گورنر جنرل ہوتے تو کشمیر کا فیصلہ مختلف ہوتا، ان اذہان کی سوچ ہے، جو انگریزوں اور ان کے طور طریقوں سے واقف نہیں۔ ایسے فیصلے افراد کی سطح پر نہیں، حکومتوں کی سطح پر ہوتے ہیں۔ ایک مشترکہ گورنر جنرل کے لئے حکومت برطانیہ کے خفیہ فیصلوں پر عمل درآمد کرانا زیادہ آسان ہوتا۔ اس امر کے پیش نظر قائداعظم ؒ نے ماﺅنٹ بیٹن کو اثاثوں کی تقسیم کے لئے ثالث اعلیٰ بنانے کی پیشکش کی تھی، کیونکہ اس صورت میں حکومتی معاملات میں دخل دینے کے لئے ان کے پاس کوئی اختیارات نہ ہوتے۔ ماﺅنٹ بیٹن بھی اس بات کو سمجھتے تھے اور انہوں نے اِسی میں بہتری سمجھی کہ ہندوستان ہی کے گورنر جنرل بننے پر اکتفا کریں!اس مسئلے پر مہاراشٹر کے سابق ایڈووکیٹ جنرل سیروائی لکھتے ہیں: ”درحقیقت یہ سارا واقعہ ہی افسوس ناک ہے، کیونکہ یہ ناقابل یقین بات ہے کہ دو ممالک کا آئینی گورنر جنرل ایک ہو۔ گورنر جنرل کواپنی وزارت، یعنی حکومت کے مشورے کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے اور دونوں ممالک کو اپنی علیحدہ پالیسیوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کی پالیسیاں آپس میں متصادم بھی ہو سکتی ہیں، جس سے گورنر جنرل کے لئے ناممکن سے حالات پیدا ہونے کا امکان ہے، کیونکہ دونوں ملکوں کی حکومتیں یا وزارتیں ایسے مشورے دے سکتی ہیں، جو ایک دوسرے سے متصادم ہوں“۔چودھری محمد علی لکھتے ہیں:اب ذرا ان آئینی نکتوں سے ہٹ کر بھی سوچئے کہ پاکستان کی تینوں افواج آرمی، فضائیہ اور بحریہ کے اعلیٰ ترین افسر انگریز تھے۔ پاکستان کے تین صوبوں کے گورنر بھی انگریز تھے۔ فوج میں بہت سے اعلیٰ عہدوں پر بھی انگریز ہی متعین تھے۔ اس صورت میں پاکستان دولت مشترکہ میں ہوتا، تو نئی مملکت کے بارے میں پاکستان کے عوام اور دُنیا کو کیا تاثر ملتا؟ وہ ایک انتہائی مشکل دور تھا اور دشمن پاکستان کے قیام کو عارضی ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ادھر کانگریس زبردست پروپیگنڈہ کر رہی تھی کہ پاکستان کا وجود عارضی ہے اور وہ پھر ہندوستان میں آ ملے گا۔ قائداعظم ؒ کی قد آور شخصیت کے گورنر جنرل ہونے پر نہ صرف سب انگریز عہدیدار دَب گئے، بلکہ عوام کو ایک نیا حوصلہ اور عزم ملا اور اُن کو پختہ یقین ہو گیا کہ پاکستان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہندوستان سے علیحدہ ہو چکا ہے۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ماﺅنٹ بیٹن پاکستان کا گورنر جنرل کیوں بننا چاہتے تھے۔ تمنا اور شدید آرزو کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن اس مقصد کے لئے تو انہوں نے اپنا وقار، اپنی عزت نفس، اپنی شہرت، اپنا طظنہ، اپنا دبدبہ، اپنی شخصیت کا سحر، سب کچھ داﺅ پر لگا دیا تھا۔ انہوں نے دھمکیاں بھی دیں اور منتیں بھی کیں۔ آخر کیوں؟ ایک خیال تو یہ ہے کہ ماﺅنٹ بیٹن نے حکومت برطانیہ کو یہ تاثر دے رکھا تھا کہ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں ان پر والہ و شیدا ہیں اور وہ انہیں اپنا مشترکہ گورنر جنرل چن لیں گے۔ قائداعظم ؒ کا یہ کہنا کہ وہ خود ہی پاکستان کے گورنر جنرل ہوں گے، ماﺅنٹ بیٹن کے لئے ایک دھچکا تھا، جس سے انہیں بہت تکلیف پہنچی۔ ایسی تکلیف جس کے ذمہ دار وہ تھے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ وہ پاکستان کے گورنر جنرل بن کر اس نوزائیدہ مملکت کو ختم کر کے نہرو، گاندھی اور پٹیل کا اکھنڈ ہندوستان کا خواب پورا کرنا چاہتے تھے تاکہ ساری دُنیا کو یہ معلوم ہو کہ قیام پاکستان مسلمانوں کا ایک جذباتی فیصلہ تھا، جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں تھی۔ ان کی نیت نیک نہیں تھی، قائداعظم ؒ نے یہ بات نوٹ کر لی اور کسی قیمت پر بھی اُن کی اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیا۔قراردادِ پاکستان 23مارچ1940ءکو منظور ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تقریباً ساڑھے سات سال کی جدوجہد کے بعد قائداعظم ؒ کی رہنمائی میں مسلمانوں نے14اگست1947ءکو پاکستان حاصل کر لیا۔(ختم شد) ٭