’’آج اپنی انا قربان کر لیں‘‘

’’آج اپنی انا قربان کر لیں‘‘
’’آج اپنی انا قربان کر لیں‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بکرے بیل اور اونٹ تو ہر سمت ذبح ہو رہے ہیں،یہ جو ہر بات پر میں میں کرتی ہے، کیوں نہ ا س عید پر ہم اپنی یہ انا ذبح کر لیں تو ا س سے بڑھ کر کوئی دوسری قربانی نہیں ہو سکتی، ہم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے، دوسروں سے اخلاق میں بہتر ہو ۔ اللہ کے نزدیک تو وہی زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے۔ میں دیکھوں گا آج صبح عید کی واجب نماز کے لئے مسجدیں کھچا کھچ بھری ہوں گی، دالان ایک طرف رہے راستے اورمیدان تک نمازیوں سے بھرے ہوں گے مگر چند گھنٹوں کے بعد ظہر کی نماز کے وقت میری مسجد میں پہلی صف مکمل کرنا مشکل ہوجائے گا۔


ہر کالم سیاسی نہیں ہوتا اور اسلام بھی سیاست کے لئے کسی متعین نظام کی شرط عائد نہیں کرتا کہ وہ وفاقی ہی ہو، پارلیمانی ہی ہو، صدارتی ہی ہو، ہاں، مگرنظام کوئی بھی ہو اس کے لئے رہنما اصول ضرور متعین کردیتا ہے، سیاست کوئی معاشرت سے باہر کی چیز نہیں، اس پر بھی وہی قاعدے قانون لاگو ہوں گے جو ہمارے معاشرے پر بالعموم ہونے چاہئیں ۔ ہم بار بار کہتے ہیں کہ قرآن ہمار ے لئے مکمل دستور کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اگر اس پر عمل کیاجائے، عمل کرنا تو بہت دورکی بات ہم تو اسے پڑھنے کے لئے وقت نہیں نکال پاتے حالانکہ قرآن وہ کتاب ہے جس کو آپ جتنا زیادہ پڑھتے چلے جائیں گے یہ اتنی ہی روانی کے ساتھ آپ کے دل میں سمانے، آپ کی زبان پر آنے لگے گی۔ اگر آپ قرآن کے قاری نہیں ہیں تو پھر آپ کو ایک پارہ پڑھتے ہوئے ایک گھنٹہ بھی لگ سکتا ہے لیکن اگر مسلسل پڑھتے رہے ہیں تو یہ آپ کا دوست بن جاتا ہے، حفاظ کرام ایک پارہ پندرہ منٹ میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور عام ناظر بیس سے تیس منٹ میں بھی، مگر شرط تو پڑھنا ہے۔ ہم پڑھتے رہیں تو ایک پارے کا ایک چوتھائی یعنی پاو پڑھنے میں ہمیں چھ سے آٹھ منٹ لگیں گے اور آدھا پارہ پڑھنے میں بارہ سے پندرہ منٹ، اگر ہم ایک پاو روزانہ پڑھیں تو چار ماہ میں، آدھا پارہ روزانہ پڑھیں تو دو ماہ میں قرآن پاک مکمل پڑھ سکتے ہیں،چاہیں تو ترجمے کے لئے چند منٹ اضافی شامل کر لیں مگر وہ بھی شرط نہیں ہے، جب آپ قرآن پاک کو کھولیں گے تو یقینی ہے کہ آپ ترجمے کو ضرور چکھتے چلے جائیں گے، اس کا لطف ہی اور ملے گا۔


میں نے کہا، اس عید پر انا ذبح کر لیں کہ اس سے بڑی قربانی اور کیا ہو سکتی ہے ، آج اس کتاب سے ہی کچھ حکمت چن لیتے ہیں جو ہم سب کے گھروں میں طاقوں پر دھری ہے۔سورۃ حجرات قرآن پاک کی انچاسویں سورۃ ہے، اس کی صرف اٹھارہ آیات ہیں، حکم ہوتا ہے،’’ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے سامنے پہل نہ کرو،اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، جاننے والا ہے‘‘۔ اگر اس حکم پر عمل کیا جائے تو ہماری بہت ساری بحثیں ہی ختم ہوجائیں، قربانی کرنی چاہیے یا نہیں کرنی چاہیے جیسے سوال کا جواب ہمیں رسول اکرمؐ کی سنت سے ہی مل جائے، پھر ہم اپنے نبی کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کریں، اپنی دلیل کو آپؐ کے عمل سے بڑا ثابت نہ کریں۔ آگے بڑھتے ہیں، حکم ہوتا ہے، ’’اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تواس کی تحقیق کیا کروکہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جاپڑواور پھر اپنے کئے پر پشیمان ہونے لگو‘‘۔ میں پھر کہتا ہوں کہ یہ کالم سو فیصد غیر سیاسی ہے اور میں کسی سیاسی رہنما پرقرآن پاک کی آیات کے انطباق بارے سوچ بھی نہیں سکتا لیکن ان اصولوں کو اگر ہم سب اپنی اپنی جماعتوں، خاندانوں اور گروہوں پر لاگو کر لیں توبہت سارے تنازعات سے بچا جا سکتا ہے۔حکم ہوا، ’’ اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ا نکے درمیان صلح کروا دو، پس اگر ایک ان میں سے دوسرے پر ظلم کرے تو اس سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم سے رجوع کرے تو ان دونوں میں انصاف سے صلح کروا دو اور انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے، بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سو اپنے بھائیوں میں صلح کروا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔


آہ ! اس حکم بارے کیا کہوں،’’اے ایمان والو! ایک قوم دوسری سے ٹھٹھا نہ کرے عجب نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے ٹھٹھا کریں کچھ بعید نہیں وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور ایک دوسرے کے نام نہ دھرو، فسق کے نام لینے ایمان لانے کے بعد بہت برے ہیں اور جو باز نہ آئیں سو وہی ظالم ہیں‘‘۔ بارہویں آیت میںیہ حکم بھی ہماری سیاست اورمعاشرت بارے ہی ہے، ’’ اے ایمان والو بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو کیونکہ بعض گمان تو گناہ ہیں اور تجسس بھی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو، اللہ سے ڈرو ، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والانہایت رحم والا ہے‘‘۔میں نے سوچا اس تحریر کے ذریعے آپ کو دیکھنے اور سوچنے پر مجبور کروں کہ جب آپ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ قربانی کا گوشت کھا رہے ہوں تو کیا واقعی آپ اسی جانور کا گوشت کھا رہے ہوں گے جس کو آپ نے قربان کیا ہو گا، تیرہویں آیت میں ارشاد ہوا، ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔‘‘


پندرہویں اور سولہویں آیت میں کہا گیا، ’’ بے شک سچے مسلمان تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنے مالوں اوراپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، وہی سچے ( مسلمان ) ہیں‘‘اور ’’ کہہ دو کیا تم اللہ کو اپنی دین داری جتاتے ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے‘‘۔ ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کلمہ اور نماز پڑھ لی، حج کر لیا اور زکوٰۃ ادا کر لی تو ہم نے بہت بڑا احسان کر دیا مگر حقیقت تو کچھ اور ہے جو اگلی آیت میں بیان ہو رہی ہے۔ ’’ آپ پر اپنے اسلام لانے کا احسان جتاتے ہیں کہہ دو مجھ پر اپنے اسلام لانے کا احسان مت جتاو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے ایمان کی طرف رہنمائی کی اگر تم سچے ہو‘‘ اور اس سورۃ کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے،’’ بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی سب مخفی چیزوں کو جانتا ہے اور دیکھ رہا ہے جو تم کر رہے ہو‘‘۔


میں نے سوچا کہ ہم فساد کیوں برپا کرتے ہیں، ہنگامے کیوں اٹھاتے ہیں کیونکہ ہم ایمان، صبر اور حکمت سے کام نہیں لیتے، یہ ہماری ’’میں‘‘ ہی تو ہے جو ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، ہم دنیا کے سب سے دانا اور سب سے باخبر شخص سے بھی زیادہ دانا اور باخبر ہونے کے دعوے کرتے ہیں، دلیلیں گھڑتے ہیں، ٹھٹھے کرتے ہیں ، طعنے دیتے ہیں، نام دھرتے ہیں، بدگمانیوں کا شکار ہوتے، تجسس میں پڑے رہتے ، غیبت کرتے ہیں۔ میرے آقا سے پوچھا گیا، حضور میں تو اپنے مسلمان بھائی کی وہ خامی بیان کرتا ہوں جو واقعی اس میں موجود ہے، جواب ملا، یہی تو غیبت ہے اور اگر وہ خامی اس میں موجود نہ ہوتو پھر تُو الزام لگا رہا ہے، بہتان کا مرتکب ہو رہا ہے۔ جانور قربانی کر دینا میرے رب پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ احسان تو یہ ہے کہ اس نے ہمیں اپنی بندگی کے لئے چن لیا، ہمیں وہ راہ دکھا دی جو امن کی ہے، عزت خلوص اور محبت کی ہے ،آج عید کے روز دسترخوان پر دھرے ہوئے لذت سے بھرے گوشت کو دیکھیں، اس میں سے قربانی کے نیک جذبے کی مہک آ رہی ہے یا ہم نے اپنے اپنے مردہ بھائیوں کی نعشیں سامنے رکھی ہوئی ہیں، انہیں نوچ رہے ہیں، کھسوٹ رہے ہیں اور ان سے اپنے پیٹوں کو بھر رہے ہیں؟

مزید :

کالم -