این اے 120کا معرکہ
پھول تھے کہ فضائے بسیط میں پتنگوں کی طرح ڈول رہے تھے ۔پھلجڑیاں تھیں جن کے رنگین شرارے فوارے کی ماننداچھلتے،ڈوبتے اورڈوب ڈوب کر پھر ابھرتے۔سخت دھوپ کا موسم تھا مگر جلسے اورریلی میں شام کے جھٹپٹے کا منظر تھا۔خنک اور سبک ہوا چلنے سے سورج ڈوبنے سے پہلے کے سماں کا گماں ہوتا تھا۔افق پر شفق کی لالی چھائی تھی اور کہیں کہیں یہی شفق گہری سرخ تھی یا پھر نارنجی۔
ایسا لگتا تھاکہ جھیل پر کھڑی کوئی گوری چٹی دوشیزہ اپنا رنگ برنگادوپٹہ سیدھا کررہی ہو۔بلا شبہ ریلی کامنظر تو انتہائی مبہوت و مسحور کرنے والا اور دل کش و دلربا رہا۔چودھری نثارکوچھوڑیئے کہ ان کے دکھوں کی دنیابہت دراز ہے۔ان کے سینے میں اسی خوف کا سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے کہ کہیں ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے ۔
فلک کج رفتارکی نیلی بوڑھی آنکھیں حیرت سے تکا کئے کہ نوازشریف پر پھر پیغمبری وقت آن پڑا ہے۔حالی کے الفاظ مستعار میں اب وقت دعا ہے۔مگر کیا کیجئے کہ قدرت کے قوانین اٹل اور غیر متبدل رہے،دعا کے ساتھ دوا اور تقدیر کے ساتھ تدبیر کا لا زمہ بھی لگا ہے۔دوااور تدبیر اب کی بار مریم نواز کرنے نکلی ہیں اورکیاعجب سرخروئی اور سرفرازی ان کا مقدر ٹھہرے۔جاننے والے جانتے ہیں کہ این اے 120کے میدان میں مقابلہ انسانوں اور جنوں کے درمیاں ہے ۔جناتی طاقت اور دستوری طاقت اول روز سے ہی آنکھ مچولی اور لکن میٹی کھیلتی آئی ہیں۔سامریوں اور ساحروں کے اشارہ ابرو پرقرطبہ چوک میں سٹیج سجا تھاتو دوسرے دن عابد مارکیٹ میں ووٹوں کے امیں اکھٹے ہوئے تھے۔قرطبہ چوک کے جلسہ عام میں اولیں و آخریں صفوں میں تو واقعی عوام کاہجوم تھالیکن درمیان میں؟دیکھنے والوں نے دیکھا کہ درمیان میں ’’تبدیلی‘‘ بیٹھی تھی۔
رات کی مسیں بھیگ چکی تھیں تو مریم نواز کی ریلی چھوٹی چھوٹی گلیوں سے نکل کر صفانوالہ چوک کے لئے افتاں وخیزاں رواں دواں ہوئی۔آنکھ جو کچھ دیکھتی،کان جو سنتے اور حواس جو محسوس کر سکتے ہیں۔۔۔وہ شاید شعور سے الفا ظ تک منتقل کم ہی ہوتا ہے۔تاجروں سے خطاب کے وقت مریم کی نظرجھکی رہی مگر جب اٹھی تو تیر کی طرح جگرمیں اتر گئی۔ریلی کے دوران لیگ کے جوشیلے متوالے تو ان کی گاڑی کاپہیہ سرکنے نہ دیتے تھے۔گاڑی میں بیٹھی جب وہ کارکنان کی جانب ہاتھ ہلا کر ہولے سے مسکراتی تو گماں گزرتا تھا گھپ اندھیری رات میں کوئی جگنو چمک رہا ہو۔
گزری صدی کے وسط میں بابی تحریک کو جب طاہرہ ایسی قتالہ اور شعلہ بار مقررہ میسر آئی تو اس نے مردہ تحریک میں گویاجان سی ڈال ڈالی۔اس فسوں ساز سا حرہ نے اپنی خطابت کے جادو سے بہائی پیروکاروں کے مردہ دلوں کو اک ولولہ تازہ دیا۔اس کانام طاہرہ تھا،وہ ایک چھوٹے سے طائفے کی سربراہ تھی لیکن قرۃالعین کے نام سے جانی اور پہچانی گئی۔یہ اپنے غیر معمولی حسن ،قادرالکلامی اور قائدانہ صلاحیتوں کے سبب مسلسل حکمرانوں کے لئے دردِ سر بنی رہی۔ایک بے نظیر بھٹو بھی تھی جو غیر مرئی حکمرانوں کے لئے مسلسل مصیبت بنی رہی اور سلیمانی ٹوپیاں پہننے والوں سے پے در پے ٹکر لیتی رہی۔ہائے ری قسمت کہ بی بی کا نصیبا!وہ انسان ہوتے ہوئے بھی جنوں و جادوگروں کو راست مبارزت کی دعوت دیتی رہی۔کہا جاتا ہے کہ ان کی آواز پی پی کے جیالوں کے کانوں میں سریلے نغموں کی طرح رس گھولتی ۔گاہ گاہ اس کی باتوں سے موتی جھڑتے اور مسکراہٹ سے رت حسیں ہوئی جاتی۔ان کے لہجے میں نرمی،چلنے میں دلربائی اور بولنے میں بلا کا وقاراور اعتماد ہوتا تھا۔کوئی بے نظیربھٹو ہو کہ مریم نواز۔۔۔ووٹ کی طاقت مانگنے کے لئے انہیں کسی سرخی پاؤڈر کے سنگھار،گجروں کے تار،موتیوں کے ہاراور زیب وزینت کی جھنکارکی کبھی احتیاج نہیں رہی۔بے نظیر بھٹو جب سیاست کی خارزار وادی میں اتریں تو بچی ہی تھیں۔یہ بچی لیکن وقت آنے پر بڑے بڑے مہان اور سان پہلوان کی باپ ثابت ہوئی۔آثارو قرائن اور شب و روز شہادت دیتے ہیں کہ مریم نواز بھی انہی راہوں پر چل نکلی ہیں۔
بھائی وہ بہشت کی ہی زندگانی ہو گی کہ جب ماند نہ پڑنے والی خوشی و شادمانی اور ختم نہ ہونے والی کامیابی و کامرانی ملے گی۔فنا نہ ہونے والی راحتیں اور واپس نہ لی جانے والی آسائشیں نصیب ہوں گی۔یہ فانی دنیا ہے اور این اے 120کا آتش بھرا سمندر ہے اور اس میں سے کود کے جانا ہے ۔این اے 120کا معرکہ محض نوازشریف کے مستقبل کا ہی فیصلہ نہیں کرے گا،کو ہ قاف کے جنوں اور جادوگروں کے جنتر منتر کی قسمت بھی اسی سے بندھی ہے۔خرانٹ اور پختہ سے تجزیہ نگار خبر دیتے ہیں کہ یہاں کی نشست پر 20ہزار ووٹ فیصلہ کن ہیں۔سامریوں اور ساحروں نے بھانت بھانت کی مسلم لیگوں سے الگ ایک ملی لیگ کھڑی کر کے ۔۔۔دو دائیں بازو کی جماعتوں کو میدان میں لا کر ن لیگ کا ووٹ کاٹنے کے لئے سحر پھونک دیا ہے۔اب آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟بااسالیب مختلف یوں کہئے کہ جادوگراورجن ہوائی طریقے سے مصنوعی حکمران تخلیق کرنے کے لئے پہلے کی طرح اب بھی سرگرم ہیں۔مصنوعی حکمران یامصنوعی انسان؟جوبھی ہو گور کنارے بیٹھے سامریوں نے اپنی ادھیڑعمری کی صلاحیتیں اور بڑھاپے کی توانائیاں اس راہ میں جھونک رکھی ہیں۔
ارض و سما کے بعض قوانین کی بنیادی تفہیم سے نئے عالم طلسم کا قیام سائنس دانوں کا بھی اک خواب رہا ہے۔اساطیری کیمیا گری پر دنیا بھر کے چوٹی کے سائنس دان اپنی عمر کا آخری لمحہ اور دماغی قوت کا آخری ذرہ تک صرف کرتے رہے مگر من کی مراد پانہ سکے۔دنیامیں کتنے لوگ تھے جوسستی دھاتوں کو کسی افسانوی فارمولے کے ذریعے سونے میں بدل ڈالنے کے لئے مرے جاتے رہے ۔کائنات کے کیمیائی فہم اور ریاضیاتی تفہیم پر جابربن حیان سے بھی بڑھ کر بھلا کسی کو عبور اور دسترس حاصل ہو گی ۔کہا جاتا ہے کہ جابر مختلف اشیا کے اجزا کی ترتیب میں ردو بدل کے ذریعے مصنوعی مخلوق بلکہ مصنوعی انسان بنانے کا خواب دیکھنے لگا تھا۔کوئی جائے اور جادوگروں کو بتائے کہ جابر بن حیان اور آئن سٹائن اپنا اپنا خواب لئے دنیا سے چلے گئے۔