وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر65

Sep 13, 2017 | 01:17 PM

شاہد نذیر چودھری

ادھر لاہور میں فتح کے شادیانے بجائے جارہے تھے تو ادھر گوجرانوالہ میں شادی مرگ کا ساماں تھا۔ یونس پہلوان اپنی شکست پر انتہائی رنجیدہ تھا۔ رحیم بخش نے اسے یوں پژمردہ دیکھا تو اسے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا۔
’’جونے!اس طرح دل ہارے گا تو پھر کبھی کشتی نہ لڑ سکے گا۔ اوئے جھلے، شکست اور فتح تو مولا کے ہاتھ میں ہے۔ آج اگر تو ہار گیا ہے تو کیا ہوا۔ تیاری شروع کراور پھر بھولو کوللکار۔ اللہ نے چاہا تو اپنا داغ رسوائی بھی دھو ڈالے گا۔‘‘
یونس پہلوان نے استاد وقت کو رنجیدہ نظروں سے دیکھا اور کہا۔’’استاد جی!بندے کو اپنی شکست پر شرمندہ ضرور ہونا چاہئے۔۔۔میں انشا اللہ نئے سرے سے تیاراں کرو ں گا۔مجھے دکھ تو اس بات کا ہے کہ آپ کے شملے کو اونچا نہ رکھ سکا۔‘‘
’’اوئے جونے پتر!رب نے چاہا تو تجھے میرا شملہ اونچا کرنے کی توفیق بھی دے گا۔ پتر، اصل بات تو یہ ہے کہ گاماں جی اب زیادہ تگڑے ہو گئے ہیں۔ اس میں تمہارا قصور نہیں ہے۔ تو بس اپنا دل میلا نہ کر اور اب اکھاڑے میں آنا شروع کر دے۔‘‘

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر64  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یونس پہلوان نے اپنی شکست کی رسوائی کا داغ دھونے کے لیے دوسرے ہی دن اکھاڑے میں بوریا بستر ڈال لیا۔ وہ تحمل مزاج اور فن کار شاہ زور اب تک کئی نامی گرامی پہلوانوں کو پچھاڑ چکا تھا۔ جن میں پورن سنگھ، اچھا پہلوان ،صوبہ سنگھ، تیجا سنگھ،چراغ نائی، غونثہ پہلوان، کیسر سنگھ شامل تھے۔ بھولو سے ہزیمت کا دکھ ایک آتش فشاں مادے میں بدل گیا اور یونس پہلوان نے اپنے زوروں میں پہلے سے اضافہ کرلیا۔
****
مرادوں کے دن آگئے۔ رستم زماں اور رستم ہند کے گھرانوں میں خوشیاں رقص کرنے لگی تھیں۔ یونس پہلوان جیسے طاقت کے طوفان کو شکست فاش دینے کے بعد بھولو کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ وہ اپنی بے مثال فتح کی سرشاری میں مبتلا ہو گیا تھا۔ بلاشبہ اس دور میں بھولو کا سب سے بڑا حریف اگر کوئی تھا تو وہ صرف یونس پہلوان تھا لہٰذا اب بھولو کو کوئی فکر نہیں تھی کہ اس کے مقابلے پر کوئی اور بھی اتر سکتا ہے۔ اپنی فتح پر ناز اس کا حق تھا۔ اس کے باوجود اس نے خوشیوں کے شادیانے بجانے میں حدسے تجاوز نہ کیا۔
ایک روز جب بھولو اپنی پالتو ٹچل بٹیر اور کبوتروں کے ساتھ مصروف تھا، امام بخش پہلوان بھی اندھر آدھمکا۔بھولو اپنی نظروں کو تیز کرنے کے لیے آسمان پر اپنے اڑتے کبوتروں کو دیکھ رہا تھا۔امام بخش بھولو کے قریب آیا اور آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا بنا کر اڑتے کبوتروں کو دیکھنے لگا۔ آسمان کی بلندیوں میں گم کبوتر جب نظر نہ آئے تو اس نے اپنی ران پر ہاتھ مارا اور بھولو سے کہنے لگا۔
’’یار تیرے کبوتر کچھ زیاہ ہی اوپر جانے لگے ہیں۔‘‘
بھولو کی محویت ٹوٹ گئی۔ اس نے فخر سے کہا۔’’ابا جی آخر کبوتر کس کے ہیں۔‘‘ اس نے بٹیر کو ہاتھ میں سہلاتے ہوئے کہا۔’’میں کبوتروں کو سچے موتی اور کشتے کھلاتا ہوں۔یہ بھی پہلوان ہیں اباجی۔اب تو میں اپنی بٹیروں کو دیسی گھی کھلاتا ہوں۔ میرے مولا نے کرم کیا تو ان کا کوئی جوڑ نہیں ہو گا۔‘‘
امام بخش نے اپنے شاہ زور سپوت کے لہجے میں حد سے زیادہ تفاخر محسوس کیا تو ناصحانہ انداز میں بولا۔’’پتر جی دیسی گھی اور منقے تو سارے ہی کبوتر باز کھلاتے ہیں۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ زیادہ خوراک بھی سستی اور بے عزتی کا باعث بن سکتی ہے۔ اب دیکھو کلو جی نے اپنے کبوتروں کو کیا کیا کچھ نہیں کھلایا مگر وہ پھر بھی باز نہ لے سکے۔خوراک اور طاقت کا نشہ بڑی بری چیز ہوتی ہے بھولو پتر۔تو اپنی اڑانوں پر بہت زیادہ فخر کرنے لگا ہے۔ تیرا خون کچھ زیادہ ہی گرم ہو رہا ہے ۔اب تیرا علاج کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
بھولو نے چونک کر باپ کی طرف دیکھا اور کہا۔’’ابا جی بندہ اپنے زوروں میں ہو تو اسے اپنی طاقت کا احساس ضرور ہونا چاہیے۔ میں بھی آخر آپ کا ہی پتر ہوں یہ گھمنڈ کی بات نہیں ہے مگر مجھے یقین ہے کہ اب میرا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ اس لیے میں اگر اپنی اڑانوں پر فخر کرتا ہوں تو کوئی غلط تو نہیں کررہا۔‘‘
’’ہونہہ۔‘‘امام بخش نے معنی خیز انداز میں ہنکارا بھرا۔’’تو اس کا مطلب ہے کبوتر اپنے چھجے پر ٹکتا نہیں ہے۔‘‘امام بخش نے بھولو سے پوچھا۔’’پتر جی ذرا یہ بتاؤ کے جب کبوتر زیادہ ہی اپنی اڑانوں پر رہنے لگیں اور اپنے چھجے پر بیٹھنے کو تیار نہ ہوں تو ان کا کیا علاج کیا جاتا ہے۔‘‘
’’ابا جی !سیدھی بات ہے۔ ان کے پر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔‘‘
امام بخش نے کہا۔’’کبوتر اصیل ہو اور پر کاٹنے کو دل نہ چاہے تو میرا خیال ہے اس کے پر باندھے بھی جا سکتے ہیں۔‘‘
’’ہاں یوں بھی ہو سکتا ہے۔‘‘بھولو نے باپ کے خیال کی تائید کی۔
’’میرا کبوتر بھی کچھ زیادہ ہی اڑنے لگا ہے۔ میں اس کے پر کاٹ تو نہیں سکتا البتہ باندھ ضرور دوں گا۔‘‘
’’ابا جی!ناں یہ تو پتہ چلے آپ کا کبوتر کون سا ہے۔ اب تو سارے کبوتر میرے ہیں۔‘‘
’’ذرا فارغ ہو کر نیچے آنا،خود ہی پتہ چل جائے گا۔‘‘امام بخش چھت سے نیچے اترا اور اپنی بیگم کو بلایا۔ بیگم نے آتے ہی بھانپ لیا کہ رستم ہند کچھ متفکر ہے۔
’’اللہ خیر کرے۔ کسی سے پھڈا تو نہیں ہو گیا۔‘‘
’’نہیں بھئی پھڈا تو نہیں ہوا مگر تمہارے پتر کے تیور بدل رہے ہیں۔میری مان تو بھا جی سے بات کرلے اور اس کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دو۔‘‘
’’شکر ہے اللہ کا۔آپ کو خیال تو آیا۔میں تو آج ہی بھاجی سے بات کرنے جاؤں گی۔میرا گھر تو خوشیوں کو ترس را ہے۔ آپ ایسا کریں خود بھی میرے ساتھ چلیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔جانے کی تیاری کرو‘‘ امام بخش نے کہا اور صندوقچے میں سے اپنا نیا بوسکی کا کرتہ اور لٹھے کا تہبند باندھ کر تیار ہو گیا۔پاؤں میں کڑ کڑ کرتا کھسا پہنا اور کوچوان کو تانگہ تیار کرنے کا حکم دیا۔
دونوں سہ پہر کے وقت کامران بارہ دری پہنچے اور گاماں رستم زماں سے حرف مدعا بیان کیا اور کہا۔’’بس بھاجی!اب زیادہ انتظار نہیں ہو سکتا۔ہمیں ہماری بیٹی رشیدہ دے دیں۔اپنی بیگم کا گھر میں دل نہیں لگتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے یار!تمہاری بیٹی ہے۔ جب چاہے لینے آجاؤ۔‘‘گاماں جی نے کہا تو گھر کے دوسرے افراد نے مل کر تاریخ طے کرلی۔
یہ یونس پہلوان سے پہلی کشتی میں جیت کا انعام تھا کہ ٹھیک تین ماہ بعد بھولو پہلوان کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ہجرت کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے۔سردار بیگم نے بہو لانے کے لیے جو زیورات اور کامدار قیمتی جوڑے تیار کررکھے تھے سب ہجرت کی نذر ہو گئے تھے۔ لوٹ مار کرنے والوں نے رستموں کے گھر میں ایک بھی قیمتی چیز نہ چھوڑی تھی۔ وہ لٹے پتے امرتسر سے لاہور پہنچے تھے۔ بھلا ہوا کہ انہیں کوئی جانی گزند نہیں پہنچی تھی مگر مال جاتا رہا تھا۔ بھولو کی بارات میں پنجاب بھر کے علاوہ امرتسر اور دوسرے بھارتی علاقوں سے بھی نامی گرامی پہلوان میٹھے چاول کھانے آئے تھے۔لاہور میں تو اس شادی کے بڑے چرچے تھے۔ رستموں کے پرستار تو گلی گلی شور مچاتے پھر رہے تھے۔
’’بھئی ہم تو بھولو کی شادی کے چاول کھانے جارہے ہیں تم بھی ساتھ چلو۔‘‘
رستم ہند امام بخش کے بیٹے اور رستم زماں گاماں جی کی بیٹی کی شادی کے پنجاب بھر میں چرچے ہو رہے تھے۔ دوسرے شہروں میں مقیم ان کے شیدائیوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنے محبوب رستمو ں کی اولاد کی خوشیوں میں شرکت کر سکیں۔
شادی سادگی سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر بن بلائے مہمانوں کی آمد کے پیش نظر بھولو کی بارات میں خوب رونق جم گئی۔ پنجاب بھر کے بھانڈ، میراثی بارات کے روز کامران کی بارہ دری آدھمکے۔بھولو دولہا کے روپ میں شہزادہ لگ رہا تھا۔اسے کار میں سوار کیا گیا۔باراتی بسوں میں ڈھول ڈھمکے کے ساتھ کامران کی بارہ دری کی طرف روانہ ہوئے تو سارا لاہور بھولو کی بارات دیکھنے کے لیے دریائے راوی پر آگیا۔
گاماں رستم زماں نے دریا کے کنارے بارات کا استقبال کیا۔ باراتی پانچ سو سے زیادہ تھے۔ کھانا بھی بے تحاشا تھا۔ رشیدہ بیگم دلہن بنی اپسرا لگ رہی تھی۔ بری میں اس کے لیے ڈھیروں جوڑے نہ آسکے تھے۔سسرال نے جو بھی تیار کرایا تھا ہجرت کے دوران لوٹا جا چکا تھا۔ رشیدہ کو اس کا قطعی رنج نہ ہوا کہ سسرال والے اس کے لیے ڈھیروں زیورات اور جوڑے کیوں نہیں لائے۔رشیدہ بیگم بڑی تحمل مزاج،قناعت پسند اور صابر بیوی،بہو اور بھابی ثابت ہوئی۔
اٹھائیس سالہ بھولو پہلوان اور اٹھارہ سالہ رشیدہ کی جوڑی آسماں سے اتری تھی۔دونوں گھروں میں ہفتوں تک دعوتیں ہوتی رہیں۔ادھر گوجرانوالہ میں بھی ایک ایسی ہی خوشی رقصاں تھی۔ یونس پہلوان بھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گیا۔ اس کی بارات لاہور آئی تو بھولو کی شادی کے چند ہفتے بعد ایک اور بڑی شادی کے چاول کھانے کا موقع ملا تھا۔یونس کی شادی نتھو پہلوان کی دختر نیک اختر اور ناجھ پہلوان ،چھپڑا پہلوان،بلا پہلوان کی ہمشیرہ سے ہوئی۔
1948ء میں پاکستان کے دونوں بڑے شاہ زور ازدواجی بندھن میں بندھ گئے اور یوں کوئی دو ماہ تک دونوں نے اکھاڑوں کا رخ نہ کیا۔(جاری ہے )

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں