پاکستان میں تعلیم کو ’’تعلیم‘‘ کی ضرورت ہے !
قیام پاکستان کے ستر سال بعد بھی ملک نے تعلیمی میدان میں تسلی بخش ترقی نہیں کی اور ابھی بھی میلینیم ترقیاتی اہداف سے کہیں دور ہے۔ ملک کا موجودہ تعلیمی نظام اس کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ملک میں تعلیمی نظام اور نصاب کی مختلف اقسام موجود ہیں جو معاشرے میں پہلے سے موجود تقسیم کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ بہت سے غیرملکی اثرورسوخ روبہ عمل ہیں اور ان سے بچاؤ اور مفادات کے تحفظ کے لیے نگرانی کا کوئی طریق کار موجود نہیں ہے۔ نجی شعبہ حکومت کے تعلیمی شعبے پر حاوی ہوتا جا رہا ہے ،خواتین کی تعلیم پر بہت زور دیا گیا ہے لیکن اس کی موجودہ وضع معاشرے کی بہتری پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے مغربی طریقوں پر عمل پیرا ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہماری اخلاقی، سماجی، مذہبی اور نظریاتی اقدار کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ نہ تو کسی معیار کو سامنے رکھا گیا ہے اور نہ کسی تحقیق پر مبنی نقط نظر کی پیروی کی جارہی ہے۔ روزگار کے لیے منصوبہ بندی کا کوئی طریق کار موجود نہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک کا موجودہ تعلیمی نظام ملک کی معاشی، سماجی اورنظریاتی ضروریات کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ مغرب کے وضع کردہ تعلیمی نظام ہمارے معاشرے میں بھی اسی طرح کے نتائج مرتب کرسکیں کیونکہ ہمارا معاشرہ مختلف نوعیت کی اقدار، معیارات اور طرزِزندگی پر عمل پیرا ہے۔ 18ویں ترمیم نے اس تقسیم کو مزید بدتر بنا دیا ہے۔ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے پر کم توجہ دی گئی ہے اور زیادہ توجہ تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھانے پر ہے اور اس صورتحال میں جو انسانی وسائل پیدا کیے جا رہے ہیں وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے ملک سے چلے جانے (brain drain) کی صورت میں ضائع ہو رہے ہیں۔
ماہرین تعلیم ہر تعلیمی ادارے اور یونیورسٹی کی طرف سے معیار پر سمجھوتہ کیے بغیر نئے ماتحت تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں کھولتے چلے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ملک کے ہر ضلع میں یونیورسٹی کے قیام سے تربیت یافتہ اور قابل اساتذہ کی کمی ہو گی۔ اس اقدام سے نہ صرف تعلیم کا معیار متاثر ہو گا بلکہ اس سے قومی اتحاد بھی شدید طور پر متاثر ہو گا۔
پاکستان میں تعلیمی نظام کو غیر متوازن سرکاری پالیسیوں اور غلط ترجیحات کی وجہ سے بیک وقت ترقی اور تنزلی کا سامنا ہے۔ ایک طرف یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھی ہے تو دوسری طرف ناخواندگی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں خواندگی میں اضافہ اور ناخواندگی میں کمی یونیورسٹیوں کا کام نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں پرائمری کی سطح پر تعلیمی شعبہ مجموعی طور پر اتنی غفلت کا شکار ہے کہ تعلیمی شعبے کے غیر سرکاری اداروں کے مطابق قریب بیس کروڑ کی ملکی آبادی میں سے سوا دو کروڑ بچے آج بھی سکول نہیں جاتے۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کے مطابق یہ صورت حال اس لیے بہت پریشان کن اور فوری توجہ کی متقاضی ہے کہ پاکستان میں چودہ برس یا اس سے کم عمر کے بچوں کی تعداد ملکی آبادی کا قریب پینتیس فیصد بنتی ہے۔
پاکستان میں عام طور پر خواندہ شہری ان افراد کو قرار دیا جاتا ہے، جو کوئی خط وغیرہ لکھ پڑھ سکتے ہوں۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ برس ملک میں ناخواندہ افراد کی تعداد میں دو فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس سے ایک سال قبل اس تعداد میں دو فیصد کمی ہوئی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سے بھی ایک برس پہلے، یعنی مالی سال دو ہزار چودہ پندرہ میں اس تعداد میں کوئی زیادہ تبدیلی آئی ہی نہیں تھی۔ اس طرح پاکستان میں گزشتہ قریب چار برسوں میں ناخواندگی کی شرح میں عملی طور پر کوئی فرق نہیں پڑا جبکہ یونیورسٹیوں کی تعداد مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیمی ماہرین کے مطابق یہی حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی شعبہ غلط ترجیحات کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے۔
تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری پاکستانی تنظیم کے مطابق ملک میں اس وقت بھی دس سال اور اس سے زیادہ عمر کی آبادی میں خواندگی کا تناسب 58 فیصد ہے۔ یہ شرح شہری علاقوں میں تو 74 فیصد بنتی ہے لیکن دیہی علاقوں میں یہ ابھی بھی صرف 49 فیصد ہے۔
دوسری جانب سرکاری جامعات کا تعلیمی معیار بھی گذشتہ دہائیوں میں متاثر ہوا ہے۔ معیار کی بہتری کے لیے جو کوششیں خود جامعات اور ان کی سرپرست ایچ ای سی کو کرنی چاہییں تھیں، وہ بھی ہر سطح کے تعلیمی نصاب کی بہتری کے باب میں مجموعی طور پر بے نیاز اور لاپروا ہیں۔ برسوں بلکہ عشروں تک بھی نہ نصابات پر نظر ثانی کی جاتی ہے نہ ان کی تجدید کے بارے میں کوئی عمل ہوتاہے اور نہ نصابات کو قومی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوئی مخلصانہ اور شعوری کوشش ہوتی ہے۔ بالعموم ہمارے سارے ہی قومی اور صوبائی نصابات فرسودہ اور طلبہ کے لیے بے فیض ہیں اوروہ ان میں کسی طرح بھی قومی اور اجتماعی سو چ پیدا کرنے کے لائق نہیں۔ایک مقصدی اور تعمیری نصاب کی عدم موجودگی ہمارے اکثر قومی اور سیاسی و سماجی مسائل اور مشکلات کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم ایک قوم اب تک نہ بن سکے۔نظامِ تعلیم اورنصاب کی طرح ہم نے جامعات میں اپنے مطالعات اور تحقیقات کو بھی قومی تقاضوں اور عہد حاضر کی معاشرتی اور علمی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کی جانب بھی کبھی نہیں سوچا۔ سائنسی شعبوں کے تحقیقی موضوعات سے قطع نظر،سماجی علوم اور زبان و ادبیات کے شعبوں میں تحقیق کے لیے بالعموم ایسے موضوعات کی بھرمار رہتی ہے جو سطحی، سرسری اور فرسودہ و ہوتے ہیں،جن سے نہ متعلقہ علم کوکوئی فائدہ پہنچتاہے ، نہ ان سے کوئی علمی و تحقیقی خلا پْر ہوتا ہے۔ جامعات میں سندی سطح کے امیدواروں میں اگرموزوں و مفید یا تعمیری موضوعات کے انتخاب کا شعور نہیں تو ان کے نگران اساتذہ بھی اس شعور سے بمشکل ہی کہیں بہرہ مند ہوتے ہیں۔ تعلیمی معیارکی بہتری اور طلبہ میں قومی سوچ کو عام کرنے کے لیے جہاں ایک قومی سطح کی منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے ،وہیں ایچ ای سی کو ایک فعال کردار ادا کرتے ہوئے اپنے فرائض میں تعلیمی معیار کی بہتری،جامعات میں نظم و نسق کے قیام کی نگرانی، جامعات اوراساتذہ کو اس کے اپنے ہدایت کردہ قواعد و ضوابط کا پابند کرنا اور اساتذہ اور سربراہوں میں اہلیت، فرض شناسی اور دیانت داری کی صفات کے جانچنے اور اس کے اپنے عائدکردہ ضوابط سے انحراف پرمناسب سزا کا اہتمام کرنابھی شامل ہونا چاہیے۔ پندرہ سال پہلے پاکستان میں انسٹھ یونیورسٹیاں تھیں۔ اب یہ تعداد ایک سو اٹھاسی ہو چکی ہے۔ ایچ ایس سی کے مطابق اس تعداد میں مزید اضافے کے لیے مختلف منصوبوں پر بھرپور کام جاری ہے اور سن دو ہزار پچیس تک اس تعداد میں مزید اضافہ یقینی ہے۔ پاکستان میں دو ہزار پچیس تک یونیورسٹیوں کی مجموعی تعداد تین سو تک پہنچا دینے اور ان میں طلبہ و طالبات کی رجسٹریشن کی شرح پندرہ فیصد تک لے جانے کے اہداف پر عمل پیرا ہے۔کمیشن کے مطابق نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی راہ میں حائل مشکلات کے خاتمے کے لیے دو ہزار انیس تک ہر ضلع میں ایک ادارہ قائم کیا جائے گا۔ ایچ ای سی اعلیٰ تعلیمی شعبے کی مضبوطی کا خواہاں ہے، جو تعلیم تک مساوی رسائی، جامعات کی لیڈر شپ اور گورننس کی بہتری اور بہتر تحقیق کے لیے کوشاں ہے۔
پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق اس ادارے کا قیام کے وقت ملک میں جامعات کی تعداد ساٹھ سے کم تھی، تحقیقی مجلے صرف آٹھ سو چھپتے تھے اور یونیورسٹیوں میں انرولمنٹ کی شرح صرف دو اعشاریہ چھ فیصد تھی۔ اب یونیورسٹیوں کی تعداد ایک سو اٹھاسی ہو چکی ہے، تحقیقی مجلوں کی سالانہ تعداد پندرہ ہزار بنتی ہے اور یونیورسٹیوں میں داخلے اور تعلیم کی شرح بھی نو فیصد ہو چکی ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں سرکاری طور پر بہت سے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دے دینے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا اس حوالے سے بہت سے ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ اس طرح یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانے کے حق میں نہیں ہیں،سن دوہزار دو میں، پرویز مشرف نے ڈاکٹر عطاالرحمٰن کو چیئرمین بنا کر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائر ایجوکیشن کمیشن میں بدل دیا تھا۔ اس وقت تصور یہ تھا کہ اعلیٰ تعلیم تک عام آدمی کی رسائی ہونی چاہیے۔ دور دراز علاقوں تک بھی اعلیٰ تعلیم پہنچائی جائے۔ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد بڑھائی جائے اور علم کی بنیاد پر معیشت کی تشکل کی جائے۔ یوں دور دراز علاقوں تک میں یونیورسٹیاں بنائی گئیں، جن میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقے بھی شامل تھے۔ لیکن اب اس کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں، وہ درست نہیں ہیں۔ ڈگریاں تو دی جا رہی ہیں، لیکن اعلیٰ تعلیم کے ساتھ جو ذہنی تبدیلی آنا چاہیے تھی، وہ نہیں آ رہی۔ اس لیے کہ بات صرف ڈگری کی نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ جو دوسرے بہت سے کام بھی کیے جانا تھے، وہ نہیں ہونے چاہئیں۔
اگر ہم تعلیمی اخرا جات پر بات کریں توپاکستان میں اس وقت یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم اور تعلیمی اخراجات کی صورت حال خاص کر نئی نجی یونیورسٹیوں میں ایسی ہے کہ چار سالہ تعلیمی پروگرام کی صرف فیس ہی چھ سے آٹھ لاکھ روپے تک بنتی ہے۔ لیب فیس اور دیگر اخراجات ان کے علاوہ ہوتے ہیں۔ زیادہ معروف دوسری نجی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے اخراجات پورا کرنے کا تو کوئی غریب طالب علم سوچ بھی نہیں سکتا۔ کئی طلبا و طالبات تو اسی لیے ویب ڈیزائننگ یا کوئی پارٹ ٹائم ملازمت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ملک میں تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ خوش آئند ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے معیار میں اضافے اور طلبہ کی تعداد کی اخلاقی تربیت پر بھی زور دیا جا نا ہیے حکومت ملک میں کثیر نوعیت کی ضروریات کو پورا کرنے کے نقط نظر سے تعلیمی نظام وضع کرنے اور نصاب کا ازسرِنو جائزہ لے تاکہ اسے قوم کو یکجا کرنے کا ذریعہ بھی بنایا جاسکے۔
ہمارا مقصد دنیا کا مقابلہ ہونا چاہیے جو سائنسی، تکنیکی، پیشہ ورانہ، کاروباری، تجارتی اور صنعتی تعلیم میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ دنیا بھر میں روایتی تعلیم کا نظام جدید تعلیمی نظام میں تبدیل ہورہا ہے جو کہ پہلے سے زیادہ ٹیکنالوجی پر مبنی ہے اور اس کے نتیجے میں علاقائی معاشرے عالمی معاشرے میں ضم ہو رہے ہیں۔ اگر ہمیں تیز رفتار دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنے گھر کے حالات کو درست کرنا ہو گا۔ جہاں ہمارے قومی تعلیمی نظام میں بہت سی ناکامیاں ہیں وہاں کچھ کامیابیاں بھی موجود ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم بیانیہ کی اْس جنگ میں جس میں ہمیں صرف منفی کردار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ، اپنی کامیابیاں بھی دنیا کے سامنے نمایاں کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی چاہیے کہ ہم اپنی ناکامیوں کو تسلیم کریں اور انہیں درست سمت دینے کے لیے بہتر مواقع میں تبدیل کریں۔