گرینڈ اپوزیشن،چہ معنی دارد؟
صدارتی الیکشن میں اپوزیشن کی تقسیم صرف پی ٹی آئی کے لئے صدارتی امیدوار کامیاب کرانے میں مدد گار ہی ثابت نہیں ہوئی، بلکہ یہ تفاوت خود اپوزیش جماعتوں کے لئے بھی سہولت کا کچھ سامان کر گیا، اپوزیشن اگر متحد ہو کے صدارتی الیکشن لڑتی تو بھی کامیابی تو درکنار اس میں نواز لیگ سمیت ایم ایم اے اور پیپلزپارٹی اپنے کئی ممبران کی وفاداریوں سے ہاتھ دھو سکتی تھیں،عام انتخابات کے علاوہ مرکز اور پنجاب میں کم ووٹوں کے باوجود حکومت سازی میں کامیابی کی طرح صدارتی الیکشن میں بھی بہرصورت پی ٹی آئی کو ہی جیتنا تھا اور فی الحال مخالفین کے لئے عمران کی کامیابیوں کی اس لہر کو روکنا ممکن نظر نہیں آتا،چنانچہ اپوزیشن کی پراگندگی پہ آنسو بہانے کی بجائے اس تقسیم کو نعمت غیر مترقّبہ سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا،ہمارے خیال میں اس تھکا دینے والی اور ناشائستہ بنا دینے والی کشمکش میں کوئی فرسودہ سی گرینڈ اپوزیشن بنانے کی بجائے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے لئے اپنی موجودہ پوزیشنوں پہ رہ کر الگ الگ سیاست کرنا خود ان کی اپنی بقا اور جمہوریت کے دوام کے لئے زیادہ سود مند ثابت ہو گا۔پیپلز پارٹی نے بیرسٹر اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار بناکر نواز لیگ کے ساتھ جس مبارزت کی ابتدا کی دراصل مستقبل کی سیاست میں یہی جدلیات اس کی بقا کا تقاضا بنے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی سیاست میں نواز لیگ ہی پیپلزپارٹی کی موثر حریف اور مستقبل کے دبستانوں کی نقیب بن کے ابھرے گی، پیپلزپارٹی نے سیاسی جماعتوں کے اُس اولین اجلاس میں شرکت سے انکار کر کے دھاندلی کے خلاف پہلے مجموعی ردعمل کو کمزور بنانے کی مساعی بھی شاید نواز لیگ کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کی خاطرکی ہو گی، لیکن پہلے اجلاس میں جب ایم ایم اے سمیت تمام چھوٹی جماعتوں نے اسمبلیوں کے بائیکاٹ اور نومنتخب ممبران اسمبلی کو حلف لینے سے روکنے جیسا خطرناک فیصلہ کیا تو پیپلزپارٹی کے مفادات بدل گئے چنانچہ دوسرے اجلاس میں پی پی پی نے اپوزیشن کو نہ صرف سسٹم گرانے کی کوشش سے باز رکھا، بلکہ پارلیمنٹ کے اندر آئینی طریقوں سے عمرانی حکمرانی کی راہ روکنے کی حکمت عملی پہ متفق بھی کر لیا،لیکن اپنی ذاتی مجبوریوں کی بنا پر تیزی سے پوزیشنیں بدلنے والے زرداری نے بعد میں وزیراعظم کے چناؤ میں نواز لیگ کے امیدوار کو ووٹ دینے سے منحرف ہونے میں کوئی خِفّت محسوس نہیں کی۔بلاشبہ، نئے سیاسی بندوبست کی دوسری بڑی بینفشری پارٹی ہونے کے ناطے پیپلز پارٹی کی عافیت اسی میں تھی کہ وہ مسلم لیگ کو پیچھے دھکیلنے کے علاوہ اس نوزائیدہ نظام کو احتیاط سے آگے بڑھانے کی کوشش کرے ،جس کے قیام کا مقصد نواز لیگ کوکمزور کرنا ہے۔
پیپلزپارٹی اس حقیقت سے واقف ہے کہ خان صاحب کسی نہ کسی طریقہ سے وزیراعظم تو بن گئے ہیں ،لیکن سیاستدان کبھی نہیں بن پائیں گے،تحریک انصاف غیر نظریاتی لوگوں کا ایسا جذباتی گر وہ ہے جو امیدوں کے بھوکے افراد پہ مشتمل ہے،جنہیں وقت کی صرف ایک کروٹ جھاگ کی طرح بٹھا دے گی،دوہزار چودہ کے دھرنوں اور پھر دوہزار سترہ کے لاک ڈاون کے دوران پی ٹی آئی کے ورکرز کی بے ثباتی اسی امر کی زندہ مثال تھی،اگر سنہ دو ہزار چودہ کے لانگ مارچ میں تحریک انصاف کا ورکر میدان میں نکل آتا تو نوازشریف کو تراشیدہ مقدمات کے تحت عدالتوں کے ذریعے نااہل کرانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔بہرحال،مستقبل کی سیاست میں مزاحمت کی راہ اختیار کرنے والی مسلم لیگ کا کردار وقت کے ساتھ زیادہ موثر ہوتا جائے گا اسی لئے گرگ باراں دیدہ کی طرح آصف زرداری کا ہدف پی ٹی آئی نہیں مسلم لیگ ہی ہو گا کیونکہ یہی اس کی سیاسی مخالف اور اصلی حریف ہے۔
مقتدرہ کے ساتھ وابستگی اور نواز لیگ کے ساتھ سیاسی کشمکش کو برپا رکھنا پیپلزپارٹی کی سیاسی ضرورت ہے،قرائن بتاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اگلے پانچ سالوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اسی طرح دوستی و دشمنی کے خطِ امتیاز پہ چل کے کبھی ایک قدم اپوزیشن کی طرف اور کبھی ایک قدم مقتدرہ کے کورٹ میں رکھتی رہے گی۔صدارتی الیکشن میں پیپلزپارٹی نے اعتزازاحسن کو امیدوار نامزد کر کے اصل میں نواز لیگ کو تنہا کرنے کی چال چلی، لیکن کہنہ مشق لیگی قیادت کے جوابی وار سے آصف زرداری خود سیاسی تنہائی کے آشوب میں اترگئے۔اگر زوال کے فطری اصولوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو اگلے پانچ سالوں کی سیاست میں نوازشریف،زرداری اور عمران خان کی بجائے مریم نواز اور بلاول بھٹو کا رول زیادہ نمایاں ہو جائے گا اور ان پرانی انٹی اسٹبلشمنٹ جماعتوں کے خلاف کسی نئے عمران خان کو پیدا کرنے کے امکانات بعید تر ہوتے جائیں گے، اس وقت تک دنیا کا سیاسی منظرنامہ تبدیل اور ملک کے اندر بھی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہو گا۔
اسی لئے پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کو ریاست سے ٹکرانے کی حماقت کرنے کی بجائے مستقبل کے روشن امکانات کی طرف دیکھنا چاہیے،انہیں جمہوریت کے تسلسل اور اصلاحات کے عمل کی وکالت کرنی چاہیے۔نواز لیگ بھی اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہے کہ مستقبل کی سیاست میں عمران خان کا رول وقت کے ساتھ محدود اور تحریک انصاف کا نظم و ضبط ڈھیلا ہوتا جائے گی چنانچہ انہیں بھی مستقبل کی سیاست میں پیپلزپارٹی ہی اپنی اصل حریف دکھائی دیتی ہے،اسی لئے انہوں نے اعتزازاحسن کو ووٹ دیکر پیپلزپارٹی کو مضبوط کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کے عارف علوی کو باسہولت صدر قبول کر لیا۔بلاشبہ نواز لیگ اگر پارلیمنٹ میں صحت مند اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی بجائے حکومت گرانے کی خاطر گرینڈ اپوزیشن کے فرسودہ تصور کو اپنا کر اپنی بہترین توانائیوں کو ضائع کرنے کی راہ اختیار کرے گی تو یہ اس کی غلطی ہو گی،جمہوریت اورخود اس کی اپنی بقا سیدھی راہ پہ چلنے میں مضمر ہے،کسی غلطی کا جواب دوسری غلطی سے نہیں دیا جا سکتا،جمہوری عمل میں رکاوٹ اور مملکت کو نقصان پہنچانے کی کوشش،عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے بڑی حماقت ہو گی۔
اس حقیقت کو ہمارے سیاستدانوں سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ماضی میں گرینڈ اپوزیشن کے کیموفلاج کے ذریعے حکومتیں گرانے اور بنانے والی قوت سیاسی اتحاد نہیں کوئی اور ہوتی تھی،اپوزیشن کا کردار تو صرف اس واردات کے نقاب ابہام کے طور پر استعمال ہوتا تھا، اس لئے مولانا صاحب خاطر جمع رکھیں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ملکر بھی پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو اس وقت تک گرا نہیں پائیں گی جب تک مقتدرہ اسے برقرار رکھنا چاہیں گی، اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ مسلم لیگ گرینڈ اپوزیشن کے فریب میں پھنسنے کی بجائے پارلیمنٹ میں موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی خاطر اپنی جماعت کو منظم کرے،قومی اسمبلی میں اس کے پاس ارکان کی قابل لحاظ تعداد موجود ہے، وہ آئینی اور جمہوری طریقوں سے صحتمند مزاحمت دیکر حکومت کو راہ راست پر رکھ سکتی ہے، انہیں اس زندہ حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ پیپلز پارٹی نئے بندوبست کی دوسری بڑی بنیفشری جماعت ہے اور آصف علی زرداری کے لئے اس سسٹم سے حاصل مراعات کو مسترد کرنا آسان نہیں ہو گا، پیپلزپارٹی کے مدارالمہام آصف علی زرداری اور اس کی بہن فریال تالپورکے خلاف جس قسم کے مقدمات پراگرس میں ہیں ان سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کو حکومت کے خلاف صف آراء ہونے سے روکنے کی خاطر اپنے ساتھ انگیج رکھ کے ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے روکے۔