یہ سانحاتِ سیاست

یہ سانحاتِ سیاست
یہ سانحاتِ سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جس نے بھی یہ کہا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بہت پہنچا ہوا شخص تھا۔ سیاست سے جب اقتدار بھی جڑ جائے تو ان دونوں کا ملاپ سانحات کو ضرور جنم دیتا ہے۔ عالمی تناظر میں مثالیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، ہمارے اردگرد بھی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب یہی سیاست جو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتی ہے تو کبھی صرف غضب میں آ کر قیامت بھی ڈھاتی ہے۔ آج پاکستان کی فضا ایک ایسی کیفیت کی زد میں ہے۔ بیگم کلثوم نواز رحلت فرما گئی ہیں ایک خاتون جس نے جب مشکلات آئیں تو ان کے خلاف سینہ سپر ہو کر کردار ادا کیا، اس بار پردیس میں اپنے شوہر اور بیٹی سے دور جان جانِ آفریں کے سپرد کی آخر وقت پر ان کا جیون ساتھی ساتھ نہیں تھا، وہ جب انہیں چھوڑ کر پاکستان آیا تھا تب بھی وہ ہوش میں نہیں تھیں گویا آخری ملاقات کا تاثر بھی ان کے ذہن میں نہیں تھا، سیاست کا جبر نہ ہوتا تو شاید نوازشریف بیگم کلثوم نواز کو لندن چھوڑ کر نہ آتے۔ مگر انہیں آنا پڑا، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ شاید اب انہیں جلد واپس آنے کی اجازت نہ ملے اور نجانے ان کی اہلیہ پر کیا گزرے مگر انہیں اس سیاسی کردار کے لئے آنا پڑا جو انہوں نے اپنی جماعت اور کارکنوں کے لئے اپنا رکھا ہے۔ موت کی گھڑی ایک ایسی چیز ہے جو دوبارہ حاصل نہیں کی جا سکتی۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ جو ایک بار آنکھیں بند کر گیا ہے وہ ہمارے آنے پر دوبارہ آنکھیں کھول سکے۔ جیتے جی جس کے نصیب میں ہوتا ہے وہ اپنے پیارے سے مل لیتا ہے جس کے نہیں ہوتا وہ ساری زندگی پچھتاوے کے ساتھ گزارتا ہے۔
شریف خاندان کے ساتھ یہ دوسرا موقعہ ہے جب خاندان کے ایک بڑے کی دنیا سے رخصتی ہو رہی ہے اور اس کے بیٹے اس کی تدفین کے وقت موجود نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں میاں شریف کو جب پاکستان میں دفنایا گیا تو نوازشریف اور شہباز شریف اس موقعہ پر موجود نہیں تھے۔ اس صدمے کی انی غالباً ابھی تک شریف برادران کو محسوس ہوتی ہو گی۔ اب بیگم کلثوم نواز کو لاہور میں سپرد خاک کیا جائے گا تو ان کے بیٹے حسن اور حسین نواز اپنی ماں کو لحد میں اتارنے کے لئے یہاں موجود نہیں ہوں گے۔ نوازشریف سیاست میں نہ ہوتے، اقتدار میں نہ آتے تو چاہے ان کے بیرون ملک کتنے ہی اثاثے ہوتے، ان کی اولاد کو یوں قانون کے ڈر سے اس اہم موقع پر پاکستان سے دور رہنے کی اذیت نہ برداشت کرنی پڑتی۔ گویا صدمہ دونوں طرف موجود ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز اس غم کو کبھی نہیں بھلا سکیں گے کہ وہ آخری لمحات میں بیگم کلثوم نواز کے ساتھ نہیں تھے اور حسن و حسین نواز، اس دکھ کو برداشت کرتے زندگی گزاریں گے کہ وہ اپنی ماں کی قبر پر مٹی نہیں ڈال سکے۔ یہ سیاست کا جبر نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ تو حکومت نے اچھا کیا کہ نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صدر کو پیرول پر رہا کر دیا وگرنہ اذیت کے یہ لمحات نہ صرف ان کے بلکہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے لئے بھی طویل تر ہو سکتے ہیں۔
سیاسی سانحات کی تاریخ میں بھٹو کے آخری لمحات بھی کم اہمیت نہیں رکھتے۔ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو ان سے ملاقات کے لئے جن تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا تھا، ان کی مثال نہیں ملتی۔ پھر وہ آخری ملاقات جو پھانسی سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو سے کرائی گئی۔ اس سے بھی زیادہ جان لیوا وہ لمحات جب کسمپرسی کی حالت میں ذوالفقار علی بھٹو کا جنازہ پڑھا اور اس کی خاموشی کے ساتھ تدفین کی گئی۔ سیاست اس حد تک بھی ظالم ہو سکتی ہے؟ اس کا یقین لوگوں کو ضیا دور میں یہ سب کچھ دیکھ کر آیا۔ سیاست میں بعض اوقات ایسے لمحات آ جاتے ہیں جب نیام ایک ہوتی اور تلواریں دو، قبر ایک ہوتی ہے اور جسدِ خاکی دو ہوتے ہیں ایسے میں ظلم ہی ایک ایسا راستہ بچتا ہے جس پر چل کر منزل کو پانا ہوتا ہے سیاست کانٹوں کی سیج بھی ہے اور پھولوں کی وادی بھی۔ اس میں راستے کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا پڑتا ہے جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ کسی نہ کسی سانحے سے دو چار ہو جاتے ہیں۔ شریف خاندان اس کی حالیہ مثال ہے۔ نوازشریف کسی مکافات عمل کا شکار ہوئے ہیں، یا انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا اس بارے میں بحثیں ہوتی رہیں گی۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نوازشریف نے بیگم کلثوم نواز والا راستہ چھوڑ کر مزاحمت اور تصادم والا راستہ اختیار کیا، وہ خطرات کو بروقت نہ بھانپ سکے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ لندن میں موجود پراپرٹی کو ان کی ثابت کرنا آسان نہیں ہوگا۔
بیگم کلثوم نواز بیماری کے ہاتھوں مغلوب نہ ہوتیں اور پاکستان میں اس وقت موجود رہتیں جب نوازشریف کے خلاف کارروائی ہو رہی تھی اور وہ اداروں کے خلاف ایک بڑا علم لے کر میدان میں آ گئے تھے کلثوم نواز انہیں یہ بیانیہ اختیار کرنے کی قطعاً اجازت نہ دیتیں۔ وہ اسی قسم کا کردار ادا کرتیں جیسا انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف ادا کیا تھا۔ وہ محاذ آرائی سے دور رہتیں مگر ساتھ ہی ساتھ اپنی آواز بھی بلند کرتیں سب اس بات کو مانتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز مسلم لیگ (ن) میں ایک مدبر شخصیت تھیں وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ناطے تہذیب و تمدن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتیں ایم آر ڈی کی تحریک سے لے کر وفات سے پہلے جب وہ بقائمی ہوش و حواس تھیں، اس وقت تک ان کا کوئی ایسا بیان، خطاب یا تقریر کا حصہ سامنے نہیں آیا جس میں انہوں نے کسی مخالف پر کیچڑ اچھالا ہو یا پھر ایسی زبان استعمال کی ہو جسے غیر شائستہ کہا جا سکے۔ جب شوہر اور سیاسی جماعت مشکل میں تھی، بیگم کلثوم نواز نے سرگرم کردار ادا کیا، جب ان کے شوہر نوازشریف اقتدار میں آ گئے تو وہ پس پردہ چلیں گئیں۔ گویا وہ مشکل میں سامنے آنے والا فرد تھیں اور سکھ کو ہمیشہ انہوں نے مل بانٹ کر رکھا۔ نوازشریف پر کوئی مشکل بیگم کلثوم نواز کی وجہ سے نہیں آئی البتہ مشکل صورتِ حال سے نکالنے کے وہ آگے آگے رہیں۔ وہ پچھلے ایک برس سے کینسر جیسی سنگین بیماری سے لڑ رہی تھیں اگر وہ صحت یاب ہوتیں تو شاید مریم نواز کی جگہ وہ نوازشریف کے ساتھ جلسوں میں جاتیں اور محاذ آرائی کو مزید ہوا دینے کی بجائے جلتی پر پانی ڈالنے کا فریضہ سر انجام دیتیں۔ کامیاب سیاست دان اور حکمران وہی ہے جو سیاست کو سانحہ نہ بننے دے۔ اسے اتنا بالغ نظر کشادہ ذہین اور حالات کا شناور ضرور ہونا چاہئے کہ وقت سے پہلے کسی بھی مصیبت کو ٹال دے۔ بھٹو بھی اپنے خلاف سازش کو نہ بھانپ سکے اور نوازشریف بھی پہلے دن سے غیر سنجیدگی کا شکار نظر آئے۔ بھٹو بھی اس زعم میں رہے کہ انہیں کچھ ہوا تو ہمالیہ روئے گا اور نوازشریف بھی یہی سمجھتے رہے کہ ان کے خلاف کارروائی کی گئی تو پورا ملک سڑکوں پر آ جائے گا۔ انہوں نے اسی خوش فہمی میں نا اہلی کے بعد جی ٹی روڈ سے لانگ مارچ کی کال دی۔ مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ جو سوچ رہے ہیں وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوگا۔ وہ رفتہ رفتہ واپسی کے تمام راستے بند کرتے چلے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود ان کے اور ان کی فیملی کے لئے مشکلات کے پہاڑ بنتے چلے گئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ اپنی اہلیہ کی عیادت کے لئے لندن جانا چاہتے تھے، مگر انہیں اجازت نہیں مل رہی تھی۔ صورتِ حال اس حد تک ان کے غیر موافق ہو چکی تھی کہ عدلیہ اور حکومت یہ ماننے کو ہی تیار نہیں تھی کہ بیگم کلثوم نواز اتنی سخت بیمار ہیں کہ ان کی عیادت کے لئے جانا ناگزیر ہو۔ دباؤ اتنا بڑھا کہ جب لندن جانے کی اجازت ملی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ بیگم کلثوم نواز وینٹی لیٹر پر چلی گئی تھیں، ان سے ملاقات تو ہو سکتی تھی مگر خاموش اور صرف دیکھنے کی حد تک۔
جمعہ کو بیگم کلثوم نواز کی لاہور میں تدفین کے بعد ان کی سیاسی زندگی کا باب قبر کی منوں مٹی کے نیچے دفن ہو جائے گا لیکن ان کی زندگی کے مختلف ابواب کسی نہ کسی رنگ میں زندہ رہیں گے۔ تاریخ انہیں جب یاد کرے گی تو یہ بھی یاد کرے گی کہ ایک بار فیملی کو بحران سے نکالنے کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی تو انہوں نے بخوبی نبھائی۔ فیملی کو ڈکٹیٹر کے چنگل سے نکال کر سعودی عرب بھجوایا لیکن جب وہ بستر پر دراز تھیں تو ان کی فیملی پھر شدید بحران کا شکار رہی۔ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ان کی عدم موجودگی سے فیملی کا شیرازہ بکھر گیا۔ شوہر اور بیٹی جیل میں، بیٹے مفرور اور قانون کو مطلوب اور اقتدار سے محرومی ایسے حالات سیاست اور اقتدار کی سفاکی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سانحاتِ سیاست اس امر کا اظہار ہیں کہ ہماری سیاست اپنے اندر مٹھاس سے زیادہ زہر رکھتی ہے وہ زہر جو زہریلے سانپ کی طرح جب بھی موقعہ ملے ڈس لیتا ہے اور جانبر بھی نہیں ہونے دیتا۔

مزید :

رائے -کالم -