سپریم کورٹ کی چارج شیٹ
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدلیہ کی طرف سے بطور ادارہ ایک ایسی رائے کا اظہار کیا ہے، جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ شاید عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے فورم نے ملک میں احتساب کے عمل پر اس قدر کھل کے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ بطور ادارہ ہم احتساب پر سیاسی انجینئرنگ کے عمل کو بہت خطرناک سمجھ رہے ہیں، بہت اہم بات ہے۔ اس کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ عدلیہ کے پاس جو کیسز آ رہے ہیں، ان میں ایک خاص طرف احتساب کا جھکاؤ نظر آ رہا ہے۔ پھر اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اختلافِ رائے کو دبانے سے پیدا ہونے والی بے چینی جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے۔ گویا عدلیہ کی طرف سے بطور ادارہ دو باتیں سامنے آئی ہیں، پہلی یہ کہ احتساب سوچا سمجھا عمل لگ رہا ہے اور دوسرا پہلو سیاسی ہے کہ اختلاف رائے کو دبایا جا رہا ہے، اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ عدلیہ نے نیب اور حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ پیش کر دی ہے تو اسے غلط کہنا مشکل ہوگا، یہ بات کسی سیاسی فورم سے نہیں کی گئی، بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے غیر جانبدار فورم کے ذریعے سامنے آئی ہے۔ اسے آسانی کے ساتھ نظر انداز کرنا ممکن نہیں، کیونکہ اگر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں تک یہ تاثر پہنچ گیا ہے تو اس کا نتیجہ ان کے فیصلوں میں بھی نظر آئے گا۔ اس آبزروریشن نے سب سے بڑا سوالیہ نشان نیب پر لگایا ہے۔ جس نے اپنے کئی فیصلوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ یکطرفہ چل رہا ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال خود عدلیہ کا حصہ رہے ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب اعلیٰ عدلیہ کا فورم اس قسم کی رائے کا اظہار کرتا ہے، تو اس کی اہمیت اور طاقت کیا ہوتی ہے۔
غور کیا جائے تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ادارے کی طرف سے جو کچھ کہا وہ آئین اور جمہوریت کی حقیقی تعبیر ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اختلاف رائے کو دبانے کی جمہوریت اور آئین میں قطعاً گنجائش موجود نہیں بلکہ اختلاف رائے کی بنیاد پر ہی جمہوریت کھڑی ہے۔ جمہوریت میں اپوزیشن ایک ناگزیر ستون ہے۔ اس کے بغیر جمہوریت کھڑی ہی نہیں ہو سکتی اور اپوزیشن جسے دوسرے لفظوں میں حزب اختلاف بھی کہا جاتا ہے، اختلاف رائے رکھتی ہے اور اس کے اس حق کو آئین بھی تسلیم کرتا ہے۔ حکومت کے لئے سوچنے کا سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ اس کی کئی باتوں سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ اختلاف رائے کو دبا رہی ہے۔ پارلیمینٹ کی موجودگی میں تو یہ تاثر اور زیادہ تشویشناک بن جاتا ہے کیونکہ پارلیمینٹ تو ہے ہی ایک ایسا فورم جہاں ہر کوئی آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔ کیا وہاں اپوزیشن کی آواز کو دبایا جا رہا ہے؟ کیا پارلیمینٹ میں قانون سازی کی بجائے حکومت صدارتی آرڈی ننسوں کے ذریعے کام چلا رہی ہے؟ جب پارلیمینٹ کی موجودگی میں آرڈی ننسوں کی تعداد بڑھ جائے تو اس کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی پھر یہ بات بھی زبانِ زد عام ہے کہ میڈیا کو بھی انجینئرڈ انداز سے چلایا جا رہا ہے۔ غیر اعلانیہ سنسر شپ موجود ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر کیا چلنا ہے کیا نہیں چلنا اس کا فیصلہ چیف نیوز ایڈیٹر یا ڈائریکٹر نیوز نہیں بلکہ کوئی اور کرتا ہے۔ یہ اختلاف رائے کو دبانے کی کوششیں ہی تو ہیں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی غالباً انہی شواہد کی بنیاد پر اختلافی آواز کو دبانے کی نشاندہی کی ہے۔ میرے نزدیک سپریم کورٹ کا بطور ادارہ یہ ردعمل حکومت کے لئے کوئی نیک شگون نہیں۔
یاد رہے کہ یہ سب کسی رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران نہیں کہا گیا، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا یکطرفہ احتساب کے ضمن میں دائر کی گئی ہو بلکہ یہ سپریم کورٹ کا جنرل تاثر ہے جو ظاہر ہے مختلف ٹھوس شواہد کے بعد قائم ہوا۔ تو کیا حکومت اور نیب اتنی بے احتیاطی کے ساتھ سب کچھ روا رکھے ہوئے ہیں کہ اس کی گونج اعلیٰ عدلیہ تک سنائی دے رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ نیب مختلف حکومتی شخصیات کو کلین چٹ دے رہا ہے۔ ان کے خلاف انکوائریاں عدم ثبوتوں کی بنیاد پر ڈراپ کی جا رہی ہیں سوال یہ ہے کہ صرف حکومت سے منسلک افراد کو ہی یہ ”سہولت“ کیوں فراہم کی جا رہی ہے۔؟ یہ کون طے کرے گا کہ انکوائری درست ڈراپ ہوئی ہے یا کروائی گئی ہے۔ آخر نیب نے کس بنیاد پر یہ انکوائریاں شروع کی تھیں؟ وہ کون سے شواہد تھے جن کی وجہ سے کیس بنے اور اب کیوں ان شواہد کو ناکافی اور بے بنیاد قرار دیا جا رہا ہے؟ جب وزیر اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالی تھی تو واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے چاہے
وہ حکومت کا حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ ان کی اس بات پر بہت تالیاں بجائی گئیں اور لوگوں نے سراہا، شروع میں علیم خان اور سبطین کاظمی جیسے صوبائی وزراء کو گرفتار بھی کیا گیا، انہیں حکومتی عہدوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑے مگر اس کے بعد اس سارے عمل کو بریک لگ گئی۔ وفاقی کابینہ میں موجود وزراء کے خلاف انکوائریاں دبا دی گئیں اور وہ بیورو کریٹس جو اب موجودہ حکومت میں بڑے عہدوں پر ہیں نیب کے لئے شجر ممنوعہ قرار پائے۔ اپوزیشن اس سارے عمل میں صرف احتجاج ہی کرتی رہی مگر اس کے احتجاج کی شنوائی ہونے کی بجائے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اب موجودہ صورت حال میں جب ایک عام آدمی کو بھی نظر آ رہا ہے کہ گرفتاریوں میں پہلے نمبر پر مسلم لیگ (ن) دوسرے پر پیپلزپارٹی اور تیسرے پر بیورو کریٹس ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کا ذکر کہیں کہیں آ جاتا ہے، تو یہی تاثر ملتا ہے کہ احتساب عام نہیں بلکہ منتخب ہے۔ قانون سب پر نہیں خاص لوگوں پر نافذ ہو رہا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ تحریک انصاف کی حکومت اس یک طرفہ احتساب اور اختلاف رائے کو دبانے کی اس چارج شیٹ کا جواب کیا دیتی ہے۔؟ یا کم از کم اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے۔؟ تاہم یہ حقیقت ایک بڑے فورم کے ذریعے بے نقاب ہو چکی ہے کہ جمہوریت کی کشتی بھنور میں ہے۔ یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ فوج اور منتخب حکومت کا ایک صفحے پر ہونا اتنی بڑی کامیابی نہیں جتنی بڑی کامیابی یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت اور آزادیئ رائے کا احترام موجود ہے، آپ گلا دبا کر ایک مصنوعی جمہوریت کا غبارہ پھلا تو سکتے ہیں لیکن یہ ضمانت نہیں دے سکتے کہ وہ پھٹے گا نہیں حکومت کے لئے یہ بات اس لئے بھی قابل توجہ، بلکہ تشویناک ہونی چاہئے کہ یہ سب کچھ اس بڑی عدالت کی طرف سے کہا گیا ہے، جس نے میرٹ پر بڑے فیصلے دیئے، ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے کو تا عمر نا اہل قرر دیا۔ احتساب عدالت میں کیس بھیجے اور مقدمات کی خود نگرانی کی، گویا سیاسی حوالے سے نہیں سپریم کورٹ نے قانونی و آئینی حوالے سے فیصلے کئے اس لئے آج اگر اس بڑے آئینی فورم سے یہ آواز آئی ہے کہ ملک میں احتساب سے سیاسی انجینئرنگ کی بو آ رہی ہے یا بنیادی انسانی حق، یعنی آزادیئ رائے کو کچل کر اختلافی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں اس نکتے پر بھی غور ہونا چاہئے کہ سپریم کورٹ کے فورم نے جمہوریت کو خطرے میں کیوں قرار دیا ہے۔ حالانکہ جمہوریت کی ضمانت تو خود سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں دے چکی ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب جمہوری اقدار کو چھوڑ کر آمرانہ انداز سے جمہوریت کے نام پر حکومت چلائی جاتی ہے تو وہ شاخِ نازک پر بنائے گئے آشیانے کی طرح کمزور ہوتی ہے۔
امید کی جانی چاہئے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے جو اپنی مشترکہ رائے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی وساطت سے قوم کے سامنے رکھی ہے اسے حد درجہ اہمیت دی جائے گی۔ اس کی روشنی میں جمہوریت اور احتساب کے حوالے سے جو کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان کا فوری ازالہ کیا جائے گا۔ احتساب اور انصاف صرف باتوں سے نہیں، عملی اقدامات سے پروان چڑھتا ہے اور جمہوریت میں اختلافِ رائے کو دبانے سے جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ نقصان کا احتمال بڑھ جاتا ہے، جس کی طرف سپریم کورٹ نے بھی اشارہ کیا ہے۔