جمہوریت کو مضبوط کرنے کا موقع ہے
اس وقت پاکستان کی جو حالت ہے۔ جتنے مسائل ہیں ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم جس سے بھی یہ سوال پوچھیں گے وہ دوسرے کو ذمہ دار قرار دے مگر خود ذمہ داری قبول ہرگز نہیں کرے گا۔ راقم نے محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ سے گھنٹوں ملاقات کی اور پاکستان کی سیاست اور حالات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، میاں نواز شریف صاحب سے ملاقات اوربات چیت ہوئی، میاں شہباز شریف سے بھی لمبی گفتگو ہوئی۔ خان صاحب سے اس وقت بات ہوئی جب سیاست میں بالکل نئے تھے ان کے علاوہ بیسیوں سیاستدانوں، وزرا، فوجی افسران، دانشوروں اور بیوروکریٹس سے ملکی حالات پر بحث مباحثے ہوتے رہے ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ ملک ٹھیک ہونا چاہیے اور ہر کوئی شاکی ہے کہ ہمیں کام کا موقع نہیں ملا، پہلے صرف پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب رہی ہے اور باقی ساری جماعتوں کا اسٹیبلشمنٹ سے اتحاد رہا، پھر ایک وقت آیا جب میاں نواز شریف کی بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان بن ہوئی اور اب پی ٹی آئی بھی اسی فالٹ لائن پر آ گئی ہے اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اس ملک میں اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس رہی ہے۔ جس کی مدد کے لیے اس ملک کی سول بیوروکریسی، عدلیہ، سرمایہ دار اور مذہبی قوتیں ہمہ وقت موجود رہی ہیں زیادہ تر سیاستدان بھی اسٹیبلشمنٹ کی پیدوار ہیں اور انہی کے اشاروں کے منتظر رہتے ہیں تو پھر اس ملک کے جو حالات ہیں اس کی زیادہ ذمہ داری بھی اسٹیبلشمنٹ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ دوسری طرف سیاستدانوں کی اکثریت بدعنوانی میں ملوث رہی ہے یا ملوث کی جاتی رہی ہے اور سیاستدان اپنے رونے روتے رہتے ہیں مگر ہوش کے ناخن نہیں لیتے ہیں تمام بڑی جماعتیں جن کو اقتدار ملا سب ہی اقتدار سے نکالے جانے پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں راگ الاپتی رہی ہیں۔ لیکن جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ایک دوسرے سے بات کرنے سے آج بھی گریزاں ہیں یہی وہ وقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے آئینی کردار تک محدود کیا جا سکتا ہے۔
کیسے؟ وہ یوں کہ اگر ہر طرح کے تعصب سے بالاتر ہوکر اور حقائق کے مطابق بات کی جائے تو موجودہ پاکستان(1971تا 2022) میں جتنی قربانیاں پیپلزپارٹی یا بھٹو خاندان نے دی ہیں (یہ الگ بحث ہے کہ یہ قربانیاں پاکستان کے لیے تھیں۔ جمہوریت کے لیے یا اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے) کسی اور جماعت یا خاندان کے حصے میں نہیں آئی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب پہلے دن سے متنازعہ تھے۔ مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ بہت بڑے لیڈر تھے۔ اور بہادر بھی، ان کے ساتھ بہت بڑی عوامی حمایت بھی تھی یہی بات اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہ تھی، اسی لیے بھٹو صاحب کو راستے سے ہٹانے کے لیے مذہب اور عدلیہ کا ناجائز استعمال کیا گیا، بھٹو کو شہید کرنے کے بعد بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کے نظریاتی کارکنوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ 1999 کے بعد نواز شریف خاندان پر بھی کچھ مشکلات آئیں، اس سے پہلے زرداری صاحب نے بھی لمبی جیل کاٹی تھی، اس کے بعد پاکستان کی دو بڑی اور متحارب جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین میثاق جمہوریت ہوا اور اس کے بعد غیر ملکی قوتوں کی آشیرباد کے ساتھ این آر او ہوا پھر بینظیر بھٹو صاحبہ اور نواز شریف کی جلاوطنی سے واپسی ممکن ہوئی، محترمہ بینظیر کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی کو عوامی ہمدردی کے باعث 2008 کے عام انتخابات میں کامیابی ملی جبکہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت قائم ہوئی۔ اب ان دونوں جماعتوں کا امتحان تھا کہ کس طرح میثاق جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط کرتے مگر یہ دونوں بالخصوص ن لیگ ذاتی مفادات کے زیر اثر اس امتحان میں بری طرح ناکام ہوئے۔ جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے سر پر دست شفقت رکھا مگر ن لیگ نے ایک بار پھر تابع فرمانی کا عہد کر کے 2013 کے انتخابات میں موقع لیا۔ لیکن عہد پر من و عن عمل نہ کر سکے اور پھر اس کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے۔
اب جبکہ تمام جماعتیں متعدد بار زخم کھا چکی ہیں تو کیا اب بھی سمجھنے میں کوئی دقت باقی ہے؟ اب وقت ہے کہ مسٹر زرداری صاحب اور میاں نواز شریف تاریخ سے سبق سیکھیں اور خان صاحب کو بھی کچھ سکھائیں۔ اس وقت بلامبالغہ عمران خان کو سب سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ہے تو زرداری صاحب اور میاں صاحب کو عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے(ووٹ کو عزت دیتے ہوئے) عمران خان کو یقین دلانا چاہیے کہ ہم جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں اور فوری انتخابات کا اعلان کرتے ہیں۔ جو بھی فیصلہ عوام دیں گے اس کا احترام ہوگا اور اگر آپ انتخابات جیت جاتے ہو تو ہم اگلے 5 سال حزب اختلاف میں بیٹھ کر آپ کو مدت پوری کرنے کا موقع دیں گے اور آئندہ کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں دخل اندازی نہیں کرنے دیں گے ہم سب مل کر ایک بہترین عدالتی نظام بنائیں گے، آزاد اور مکمل خودمختار الیکشن کمیشن کی تشکیل کریں گے اور سول بیوروکریسی کو بھی قانون کے مطابق آزادی سے کام کرنے دیں گے، اسی طرح ٹیکس کے نظام کو بہتر کر کے معاشی مسائل حل کریں گے اگر ایسا ہو جائے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کم ہوتے ہوتے ختم ہو سکتی ہے۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان پیپلزپارٹی واقعی جمہوریت کی حامی ہے اور ن لیگ واقعی ووٹ کو عزت دینے میں سنجیدہ ہے؟ اور خان صاحب واقعی اس ملک کا نظام بدل کر نیا پاکستان چاہتے ہیں؟ اگر خان صاحب میاں صاحب اور زرداری صاحب کی مخلصانہ پیشکش کو ٹھکراتے ہیں تو پھر کم از کم عوام کو تو پتا چل جائے گا کہ اس ملک کے ساتھ کون مخلص ہے؟
جمہوریت چاہتے ہو تو جمہوری سوچ کے ساتھ فیصلے کرو۔