جنوبی ایشیاکی بدامنی:ذمے دار کون؟

جنوبی ایشیاکی بدامنی:ذمے دار کون؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

15مارچ 2013ءکو بھارتی پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر کو ایک بار پھر اپنا اٹوٹ انگ بتایا ہے ،جبکہ بھارتی آرمی چیف نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈین سیکیورٹی فورسز کو حاصل خصوصی اختیارات ختم نہیں ہونے چاہئیں۔بھارتی فوج کے سالار کے اس غیر انسانی بیان کے علاوہ دہلی سرکار نے 15مارچ سے پاکستانی شہریوں کو مجوزہ طور پر دی جانے والی ”گروپ ویزہ“ کی سہولت بھی ختم کردی ہے ،اس کے علاوہ ہاکی ٹیم کے 5اپریل سے شروع ہونے والے دورئہ بھارت کو بھی رد کردیا ہے....دوسری طرف پاکستان کی قومی اسمبلی نے 13مارچ 2013ءکو ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کی تحریک آزادی میں اپنی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے یہ قرارداد پیش کی،جسے ایوان نے اتفاق رائے سے منظور کرلیا، اس میں افضل گرو کی پھانسی کی مذمت بھی کی گئی ہے اور شہید کا جسدِ خاکی اس کے لواحقین کے سپرد کئے جانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے ۔ اس سانحہ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے اضافے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دہلی سرکار مقبوضہ ریاست میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ فوراً بند کرے۔
اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ اس کھلی حقیقت سے ہر ذی شعور آگاہ ہے کہ امن پسندی اور جمہوریت کے تمام تر دعوﺅں کے باوجود بھارتی حکمران پورے جنوبی ایشیا کو عدم استحکام کا شکار بنانے پر تلے ہوئے ہیں، تبھی تو ایک جانب گولہ بارود اور خطرناک ہتھیاروں کے ذخائر میں اضافے کے لئے دہلی سرکار اپنی تمام تر توانائیاں صرف کررہی ہے تو دوسری طرف سبھی پڑوسی ملکوں میں بدامنی کو فروغ دینے کی منظم حکمت عملی پورے زور شور سے جاری ہے ۔ دہلی کی انہی منفی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ علاقائی اور عالمی امن کو درپیش خطرات ہرآنے والے دن کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں، بلکہ مکافاتِ عمل کے ابدی اصولوں کے تحت خود بھارت بھی طرح طرح کی داخلی مشکلات سے دوچار ہورہا ہے۔تبھی تو بھارت کی اہم سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسٹ)کے جنرل سیکرٹری پرکاش کرات نے کہا ہے کہ افضل گرو کو پھانسی لگا کر جموں و کشمیر میں حالات کو مزید بگاڑنے کے لئے خود دہلی سرکار کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔پرکاش کرات کا یہ بیان 14مارچ 2013ءکے اکثر بھارتی اخبارات، بشمول ”سہارا“ میں نمایاں طور پر شائع ہوا ہے۔
”بھارت ٹائمز“ نے لکھا ہے کہ سری نگر میں سی آر پی ایف کے کیمپ پر حملے میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں، ابھے سنگھ، ستیش، سبھاش، پرمل اور اوم پرکاش کو شردھا نجلی(خراج عقیدت) پیش کرنے کے لئے (مقبوضہ) جموں و کشمیر کے (کٹھ پتلی) وزیراعلیٰ عمر عبداللہ تک بھی نہیں آئے،جس سے بخوبی اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ مقبوضہ ریاست میں بھارت نوازی کی روائتی شہرت رکھنے والی شخصیات اور جماعتیں بھی کشمیری عوام کے جذبات و احساسات کی وجہ سے کس قدر دباﺅ میں ہیں۔ ایسے میں عام کشمیریوں ، حریت رہنماﺅں اور کارکنوں کے جذبات و احساسات کا اندازہ لگانا کسی کے لئے بھی مشکل نہیں ہونا چاہیے۔اس کے ساتھ اسلحہ خریداری میں بھارت گزشتہ سات برسوں سے پوری دنیا میں صفحہ اول پر ہے۔بھارتی عوام کے خون پسینے کی کمائی کو دہلی کا حکمران ٹولہ بالادستی کے اپنے روائتی عزائم کی تکمیل پر صرف کررہا ہے۔
اس صورت حال کا منطقی نتیجہ ہے کہ بھارتی ائر فورس کے سابق چیف تیاگی اور ان کے ساتھیوں پر 400کروڑ سے زائد رشوت کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت کے سابق ائر چیف نے اٹلی کے اسلحہ ساز حلقوں سے 350کروڑ روپے رشوت لی، جس کے بدلے میں جنگی ہیلی کاپٹر خریدنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ان ہیلی کاپٹروں کی مالیت 3500کروڑ سے بھی کہیں زائد ہے۔بھارت برطانیہ ،روس اور فرانس سے بھی دھڑا دھڑ اسلحہ خرید رہا ہے، اسی وجہ سے ان ملکوں کے حکمران گزشتہ ایک برس میں مسلسل دہلی کے دورے کرتے رہے ہیں۔دوسری طرف پاکستان میں فرقہ واریت اور بدامنی کو بھی فروغ دیا جارہا ہے ، یہی سلسلہ مختلف اوقات میں سری لنکا،بنگلہ دیش، نیپال اور مالدیپ میں بھی جاری رہا ہے ، افغانستان کے راستے بلوچستان میں بھارتی شہ پر دہشت گردی کو ہوا دی جارہی ہے۔ایسے میں خود بھارت کے انسان دوست حلقوں اور عالمی رائے عامہ کے اعتدال پسند طبقات کا فریضہ ہے کہ دہلی سرکار کو مجبور کریں کہ وہ جنوبی ایشیا کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی اپنی روش ترک کرکے مثبت طرزعمل اپنائے۔    ٭

مزید :

کالم -