پاکستان کو آگے بڑھنا ہے

پاکستان کو آگے بڑھنا ہے
پاکستان کو آگے بڑھنا ہے
کیپشن: naseem

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 شعبہ ماس کمیونیکیشن کے طالب علموں کا ایک وفد ملنے آیا تو ایک طالب علم نے دلچسپ سوال کیا۔ اُس نے کہا، جب کسی ریل گاڑی کو حادثہ پیش آتا ہے تو حادثے کی زد میں آنے والی بوگیوں کو چھوڑ کر باقی ٹرین منزل مقصود کی طرف روانہ کر دی جاتی ہے۔ اُس کا سوال تھا کہ یہ فارمولا پاکستان کے لئے استعمال کیوں نہیں کیا جاتا۔ کیوں کوئی ایک مسئلہ لے کر پورے ملک کو منجمد کر دیا جاتا ہے۔ ایسا بار بار ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اب تک ایک ہی دائرے میں کولہو کے بیل کی طرح گھوم رہے ہیں۔ سچی بات ہے میرے پاس اُس طالب علم کے سوال کو جھٹلانے کے لئے کوئی ایسا جواب نہیں تھا ، جس کے ذریعے مَیں اُسے کہہ سکتا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے، آگے کی طرف چل رہا ہے۔ مَیں نے اُس کے سوال پر جتنا غور کیا، اُتنا ہی مجھے لگا کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ کتنا ظلم کیا ہے۔ ہر دور میں ایسے سپیڈ بریکرز بنائے ہیں ،جنہوں نے پاکستان کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا۔ سب سے بڑا ظلم تو یہ ہوا کہ یہاں جمہوریت ہی نہیں پنپ سکی۔ سانپ نکلتا رہا اور ہم لکیر پیٹتے رہے۔ یہ سب کچھ بعض عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کا نتیجہ ہے یا ہمارے جرنیلوں اور سیاستدانوں کی خواہش اقتدار، جس نے ملک میں بار بار مارشل لاءکی راہ ہموار کی۔ معیشت تو خیر ایک دوسرا مسئلہ ہے، اگر ہمارے ہاں جمہوریت ہی جڑ پکڑ لیتی اور ہم ایک جمہوری معاشرے میں ڈھل جاتے تو شاید ہمارا ہر قدم آگے کی طرف اُٹھتا۔ایک نوجوان نے مجھے کہا: ”سر! یہ پرویز مشرف والے معاملے میں ہم کہیں پھر کوئی غلطی کرنے تو نہیں جا رہے؟ پرویز مشرف کو سزا دے کر مارشل لاءکو روکنا تو دور کی بات ہے ،اگر اُنہیں سزا دینے کی نیت کرنے پر ہی مارشل لاءلگ گیا تو کیا ہوگا؟ مَیں حیران ہوا کہ آج کی نوجوان نسل کتنی گہرائی کے ساتھ حالات کو دیکھ رہی ہے۔ میرا یہ نظریہ غلط ہو گیا کہ نوجوان اپنے اردگرد سے بے خبر اپنے موج میلے میں مصروف ہیں۔ ویسے بھی مجھے اُس وقت منو بھائی کی یہ بات یاد آئی کہ جو آپ سے 20 سال چھوٹا ہوتا ہے، وہ در حقیقت آپ سے 20 سال بڑا ہوتا ہے، کیونکہ اس کا سفر آپ کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مَیں سوچنے لگا کہ آج کی جذباتی فضا میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ پرویز مشرف کو سزا دینے کی سوچ کیا گل کھلائے گی؟ کہا تو جا رہا ہے کہ ایک بار کسی آمر کو سزا مل گئی تو پھر کسی کو جرا¿ت نہیں ہو گی کہ ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کرے، مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اس حوالے سے فوج کے اندر کیا ردعمل ہے؟ کیا اس خواہش کی وجہ سے کہیں فوج اپنی تاریخ تو دہرانے پر مجبور نہیں ہو جائے گی؟اب تو فوج کے حوالے سے بلے بلے ہو رہی ہے کہ اس نے گزشتہ چھ برسوں میں جمہوریت کی مضبوطی اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے بہت قربانی دی ہے، طعنے بھی سنے ہیں، لیکن جمہوری حکومت کے معاملات میں دخل نہیں دیا۔ اگر یہ صورتِ حال بن چکی ہے تو پھر ایک نئے اکھاڑے میں کودنے کی کیا ضرورت ہے۔ فوج نے اگر اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اب بدل چکی ہے اور اس کا حکومتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں رہا، جمہوریت کو اس کی مکمل حمایت حاصل ہے تو پھر ایک ٹیسٹ کیس بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
مجھے یقین ہے کہ میری اس بات پر بہت سے لوگ ناک بھوں چڑھائیں گے۔ اُن کے خیال میں یہ باتیں میں کسی ایسی ایجنسی کے ایماپر کہہ رہا ہوں، جسے پرویز مشرف کو بچانے کا ٹاسک ملا ہے۔ چلیں اگر وہ کہتے ہیں تو کہتے رہیں، لیکن مَیں اُس نوجوان کے سوال میں اُلجھا ہوا ہوں، جس نے کہا تھا کہ پاکستان کو آگے بڑھنا چاہئے یا دائرے میں گھومتا رہنا چاہئے؟ پاکستان کو آگے بڑھنا چاہئے، یہ ایسی بات ہے جس کی مخالفت کوئی عقل کا اندھا ہی کر سکتا ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھ اب تک جو ہو چکا ہے، وہ کوئی کم نہیں ہے، فرد جرم تک نے اُن کی شخصیت کو داغدار کر دیا ہے۔ پھر جس طرح انہوں نے خود کو قانون سے بچانے کے لئے مختلف احمقانہ ہتھکنڈے اختیار کئے، اُن کی وجہ سے وہ ہیرو سے زیرو بن گئے۔ ایسے شخص کو سزا دینے کا جنون کہیں پاکستان کو پھر کسی سانحہ سے دو چار نہ کر دے۔ پچھلے دنوں جو کچھ ہوا، اُسے خطرے کی گھنٹی نہ سمجھنے والے اپنے دماغ کا معائنہ کرائیں۔ ایک ایسے چیف آف آرمی سٹاف، جنہیں چند ماہ پہلے ہی وزیر اعظم نے ایک سینئر جرنیل کو نظر انداز کر کے تعینات کیا، اگر ایک سخت بیان دینے پر مجبورہ ہو گئے ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اُن پر اپنے ادارے کی حرمت و وقار بچانے کے لئے خاصا دباﺅ موجود ہے۔ اب ایک لمحے کو سوچیں کہ اس بات کو اہمیت نہیں دی جاتی ا ور پرویز مشرف کے سلسلے میں سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے جو کابینہ کے اجلاس میں دیکھنے کو ملا اور جس کی بنیاد پر بعد ازاں خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق نے سخت زبان استعمال کی، تو میرا نہیں خیال کہ صورتِ حال جوں کی توں رہے گی، معاملہ سنجیدہ حالات کی طرف بڑھے گا اور ساری قیاس آرائیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ اب تک یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ حکومتی وزراءکس بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے مقدمے کا فوج سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے لفظوں میں اُن کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے کہ فوج پرویز مشرف کی پشت پناہی نہیں کر رہی۔ اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ فوج اپنے سابق کمانڈر انچیف سے لاتعلق نہیں ہے۔ فوج اگر ساتھ نہ ہوتی تو کیا پرویز مشرف فوجی ہسپتال میں داخل رہتے۔ فوج اگر ساتھ نہ ہوتی تو اُنہیں اتنا بڑاسیکیورٹی حصار فراہم کیا جاتا، جو اس وقت اُن کے اردگرد موجود ہے۔ فوج اُن کی پشت پر نہ کھڑی ہوتی تو آرمی چیف کو یہ ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آتی، جس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے؟ حیرت ہے کہ وزراءبڑی ڈھٹائی سے سامنے کی حقیقت کو جھٹلا رہے ہیں۔ وہ کسے دھوکہ دے رہے ہیں، یا دوسرے لفظوں میں وہ کسے خوش کر رہے ہیں۔ مجھے اکتوبر 1999ءکی صورتِ حال یاد آ رہی ہے۔ اس زمانے میں مشاہد حسین سید کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا۔.... ”میاں صاحب کڑاکے کڈھ دیو“ ....میاں صاحب تو کڑاکے نہیں نکال سکے تھے، البتہ اُن کے کڑاکے نکل گئے تو مشاہد حسین سید نے اپنی جان بچالی تھی اور میاں برادران کو دس سال کے لئے ملک بدر ہونا پڑا تھا۔ اب بھی وزراءکے بیانات کچھ ایسے ہی لگ رہے ہیں، جیسے وہ وزیر اعظم میاں نوازشریف کو کڑاکے نکالنے کا مشورہ دے رہے ہوں۔ شنید ہے کہ حکومت پرویز مشرف کو ریلیف دینے کے لئے قانون میں ترمیم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ پرویز مشرف کو باہر بھیجنے کے لئے سنجیدہ غور و فکر ہو رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت پر یہ دباﺅ بھی بڑھ رہا ہے کہ وہ آرٹیکل 6 کے تحت صرف پرویز مشرف کا ہی نہیں ، بلکہ اُن سب کا ٹرائل کرے جو اُس حکم میں شریک تھے یا نافذ کرنے میں اُن کی مدد کی، جس کے تحت ملک میں ایمر جنسی نافذ کی گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین اور مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین نے تو اس پر باقاعدہ مہم شروع کر رکھی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ پرویز مشرف کو رہائی ملتی ہے یا اُن پر مقدمہ چلتا ہے۔ مجھے تو اُس طالب علم کے اس سوال سے غرض ہے کہ پاکستان کو آگے بڑھنا چاہئے یا کولہو کے بیل کی طرح دائرے میں گھومتے رہنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب اس کے سوا کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا کہ پاکستان کو آگے چلنا ہے، ہر قیمت پر ہر حالت میں اس کے لئے اگر ایسے فیصلے بھی کرنے پڑیں جو بظاہر غیر مقبول نظر آتے ہوں تو کر گزرنے کی ضرورت ہے۔ بقول آتش:گل مراد ہے منزل میں، خار راہ میں ہیں

مزید :

کالم -