ہارن دو ۔۔ راستہ لو
ملک کی کچی پکی سڑک پر ہارن بجنے لگے ہیں، وہ بھاری بھرکم ٹرک برسوں دھول اڑاتے رہے وہ جمہوریت کی بس سے رستہ مانگ رہے ہیں ، اس ٹرک کے ساتھ کچھ چنگ چی رکشوں والے بھی ہیں ،جن کے پاس سواریاں بٹھانے کی گنجائش تو بہت کم ہے مگر وہ بہرحال بس والوں کا کاروبار تباہ کرنا چاہتے ہیں، دوسری طرف بس کے اندر بھی دھما چوکڑی مچی ہوئی ہوئی ہے اور ڈرائیور کہتا ہے کہ اسے باقی گاڑیوں کی پرواہ نہیں، اس کے پاس اس سڑک پر بس چلانے کا لائسنس ہے جبکہ بغیر لائسنس والے اس کی بس کو سائیڈیں کرانا چاہ رہے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ بس والوں کا خیال ہو، ٹریفک وارڈنوں کا محکمہ اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ وہ ٹرک والوں کو روک لے ۔۔ انہیں بتائے کہ ان کا روٹ الگ ہے لیکن اگر اس روکنے اور بتانے سے پہلے ہی ٹرک والوں نے بس کو سائیڈ مار کے الٹا دیا تو پھر کیا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے بس کا ڈرائیوربہت محتاط تھا، کلینر اور کنڈکٹر سب بس کا تیل نکال کے بیچتے رہے مگر جب بھی ہارن بجا، ڈرائیور نے تھوڑی بہت تیوریاں تو چڑھائیں، بس دوڑانے کی کوشش بھی کی مگر آخر کار ہمیشہ رستہ دے دیا، بس کو گیارہ مئی کے اسٹیشن پر بغیر تباہی کے پہنچا دیا ، یہ الگ بات ہے کہ بس بہت گندی اور پٹرول ختم ہو چکا تھا، اندر پڑی ہوئی سٹپنی ، ائیر اور آئیل فلٹر تک بک چکے تھے مگر بس بہرحال سلامت تھی۔
اب کوئی بس کے نئے ڈرائیور مگر تجربہ کار ڈرائیور کو بتائے کہ مان لیا، و ہ گاڑی کے ٹینک میں پٹرول بھی فل ، اس کے ٹائر ، ائیر اور آئل فلٹر بھی تبدیل کروانا چاہتا ہے لیکن اس کی تما م کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی اگر بس اور ٹرک میں ٹکر ہو گئی، بس کے ایک دو کلینر اور کنڈکٹر ٹرک والوںکو اپنا راستہ ناپنے کے اشارے کر رہے ہیں مگر ٹرک والے اس پر غصہ کر رہے ہیں ، کیونکہ ٹرک طویل عرصے سے اسی سڑک پر اکیلے ہی چلتا رہا ہے، ٹرک کے ڈرائیور نے رستہ لینے کے لئے ہارن بجانے کے ساتھ ساتھ ڈپر بھی دینے شروع کر دئیے ہیں، اب بس کے ڈرائیور نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ رستہ دے گا یا نہیں۔
ملکی سیاست کی سڑک پرٹریفک میں بدنظمی پیدا ہو رہی ہے اگرچہ فی الوقت کسی فوری حادثے کا امکان نہیںمگر مجھے استعاروں سے نکل کر واضح کہنے دیں کہ محمد نواز شریف مسلم لیگ نون کے منتخب وزیراعظم کے طور پر جمہوریت کی جس بس کو چلا رہے ہیں، انہیں اسے حادثے سے بچانا ہو گا ورنہ معیشت سمیت تمام شعبوںمیں ہونے والے پیش رفت ضائع چلی جائے گی۔ مجھے ایک حکومتی سیاستدان نے پورے یقین کے ساتھ بتایا کہ میا ں نواز شریف ، سابق آمر پرویز مشرف کے معاملے پرانتقام نہیں لینا چاہتے، صرف اور صرف قانون کے مطابق عمل کرنا چاہتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے کہا ” مجھے، پرویز مشرف کے پاکستان رہنے یا چلے جانے، رہا ہونے یا سزا ہونے، کسی بھی بات میں دلچسپی نہیں مگر قانون پر عمل ہونا چاہئے “مگر دوسری طرف یہ امر بھی واضح ہے کہ اگر قانون پر عمل ہوتا ہے تو قانونی ماہرین کی آراءکو تو ایک طرف رہنے دیجئے، میں ایک عام تجزیہ کار کے طور پر سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کی باعزت رہائی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ میں نے بہت سارے حکومتی رہنماوں سے معلوم کیا اور ہر جگہ سے یہی علم میں آیا کہ پرویز مشرف کو فرد جرم عائد کروانے کی صورت میں ضمانت پر رہائی اور بیرون ملک روانگی کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی گئی تھی۔ یہ صرف سیاسی سٹنٹ ہے جس صرف خبر بنانے کے لئے چھوڑا گیا۔
دوسرا اہم ترین معاملہ طالبان سے مذاکرات کا ہے اور وزیراعظم اس سلسلے میں اپنی پارٹی کی اکثریتی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے بعض مخالف سیاسی رہنماوں سے سیاسی بلیک میل ہو رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے آپریشن کا راستہ اختیار کیاتو رائیٹ کا ووٹ بنک کوئی اوراڑاکے لے جائے گا، یہاںبھی کھل کے تجزیہ کرنے دیجئے، نواز شریف کے سامنے ایک خطرہ عمران خان کی صورت میں موجود ہے، اگر وہ اپنا ووٹ بنک بچانے کے لئے اپنی ہی پارٹی کی اکثریتی رائے نظرانداز کرتے ہوئے عمران خان کی پالیسی کا جھنڈا اٹھائے رکھتے ہیں تو پھر انہیں اس پاک فوج کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے افسروں اور جوانوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں اتنے زیادہ نقصانات برداشت کئے ہیں کہ اتنے توبھارت بھی نہیں پہنچا سکا یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اندرونی چیلنجوں کو بیرونی چیلنجوں سے زیادہ خطرناک قرار دیا گیا تھا۔ ایسا نہ ہوکہ نواز شریف ،عمران خان کے سیاسی خطرے سے بچتے ہوئے مارشل لاءکے قومی خطرے کو دعوت دے دیں۔ عمران خان کا مقابلہ پالیٹیکس اور گورنمنٹ کی سطح پر گورننس کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کو اس سے رام نہیں کیا جا سکتا ۔ کیا آپ اس دلیل سے اتفاق کریں گے کہ جماعت اسلامی کے ارکان سے زیادہ کوئی دوسرا اپنے ہم مسلک طالبان سے زیادہ ہم دردی رکھنے والا نہیں ہو سکتامگر انہوں نے اپنے ا س امیر کو بھی مسترد کر دیا جو طالبان کے ساتھ ایک حد سے بڑھ کے خود کو وابستہ کر رہے تھے، اس امیر نے پاک فوج کی قربانیوں کے سامنے تو سوالیہ نشان لگا دیا تھا مگر طالبان کے سربراہ کی ہلاکت کو شہادت قرار دیا تھا۔میں فوج کے اقتدار میں آنے کی ہمیشہ سے مخالفت کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا مگر مجھے کہنے دیجئے کہ ملکی سلامتی کے ایشوز میںسب سے بڑی سٹیک ہولڈرفوج کی ہر بات غلط بھی نہیں ہو سکتی ۔ پاک فوج کے تحفظا ت سامنے آنے کے بعد اب مذاکرات بارے ٹائم فریم طے کرنا ہو گا۔ دوسری طرف وقت آ گیا ہے کہ پرویز مشرف کے معاملے پر ڈپلومیسی سے کام لیا جائے، اسٹیبلشمنٹ کو یقین دہانی کروا دی جائے کہ پاک فوج کے سابق سربراہ کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔گیلپ سروے کہتا ہے کہ میاںنواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ نون کی حکومت اپنے اوپر عوامی اعتماد میں اضافہ کر رہی ہے مگر دوسری طرف یہ امر بھی حقیقت ہے کہ ان کی حکومت پر اعتماد گورننس بہتر ہونے اور معاشی منصوبے شروع کئے جانے پر بڑھ رہا ہے۔ اب اگر وہ فوج کے ساتھ تصادم کی پالیسی پر جاتے ہیں تو یہ تمام کامیابیاں زیرو ہوجائیں گی اور اس حوالے سے ان کا ماضی کا ریکارڈ بھی بہتر نہیں ہے، جمہوریت کو ہارٹ اٹیک سے بچانا ہے اور مریض کی ہسٹری بھی بہت خطرناک ہے۔ پرویز مشرف کی سزا کے تنازعے پر جمہوریت اور معاشی مستقبل کا جوا کھیلنا کسی طور دانش مندی نہیں، جیسے طالبان افغانستان میںنہ اپنی حکومت برقرار رکھ سکے اور نہ ہی اسامہ بن لادن کو بچا سکے۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ آئین اور قانون کی بالادستی ہونی چاہئے مگر سیاست میں ہر مرتبہ دو جمع دو چار نہیں ہوتے اور جو شاخیں طوفان میں جھکنا نہیں جانتیں وہ ٹوٹ جاتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری سے سیاست کے میدان میں بہت کچھ سیکھا ہے اور اب اس سیکھے جانے والے عمل کو دہرانے کا موقع آ گیا ہے۔ آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو ایک سے زیادہ مرتبہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا خاص طور پر میمو سکینڈل پر تو بہت سارے لوگوں نے سیاسی و جمہوری نظام کی فاتحہ خوانی کی تیاریاں کر لی تھیں۔ اب کچھ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ جنرل پاشا نے میمو سکینڈل پر سابق صدر آصف علی زرداری سے معذرت کر لی ہے کہ انہوں نے یہ عمل اس وقت جنرل کیانی کے حکم پر کیا تھا، اس وقت بھی سول ملٹری ریلیشن شپ میں سب اچھا نہیں ہے اور مجھے اپنے کچھ عرصہ پہلے ظاہر کئے ہوئے اس یقین کو قائم رکھنے دیجئے کہ ماضی کا سلطان راہی اب وحید مراد بن چکا ہے، سلطان راہی توپنڈ کے چودھری کی طرف سے ہیروئن کو گھر سے باہر جانے سے روکنے پر گنڈاسہ نکال لیتا ہے،کشتوں کے پشتے لگاتا ہے اور خود جیل پہنچ جاتا ہے جبکہ وحید مراد ایسی ہی سیچویشن میں ایک افسردہ سا گانا گاتا ہے اور واپس جا کے اپنا کاروبار شروع کر دیتا ہے، کچھ ہی عرصے میں اتنی کامیابی حاصل کر لیتا ہے کہ چودھری صاحب اپنی بیٹی کا ہاتھ، اس کے ہاتھ میں دینے کے لئے خود اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔
میاں صاحب! قومی سڑک پرہارن بجنے شروع ہو گئے ہیں اور جمہوریت کی بس کے ڈرائیور کی حیثیت سے اس کے شیشے صاف کرنا، تیل پانی پورا رکھنا ہی نہیںاسے کسی بھی بڑے حادثے سے بچاتے ہوئے چار سال بعد اگلے انتخابات کی منزل تک پہنچانا آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔۔۔ ٹرکوں کے ہارن بجنے پر ریسیں لگانے کی بجائے راستہ دے دینا ہی سمجھ دار ڈرائیور کی پہچان ہوتی ہے۔