کوئی بھی پانامہ تحقیقات کے لئے تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی آؤٹ
چیف جسٹس پاکستان جناب انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ عدلیہ پر تنقید کی جاتی ہے ۔ ہم سے کہا جا تا ہے کہ سو موٹو ایکشن لیں۔ سپریم کورٹ کمیشن کیوں نہیں بناتی۔ یہ بتائیں کہ تفتیش کی ذمہ داری ایگزیکٹو کی ہوتی ہے یا عدلیہ کی۔ کمیشن بنانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور انتظامیہ کے پاس تحقیقات کے لئے ادارے موجود ہیں۔
ان کے اس بیان سے مجھے تو یہ سمجھ آئی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس پر کمیشن بنانا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔مجھے تو یہی سمجھ آرہی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پانامہ لیکس پر اپنی سربراہی یا کسی اور جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے سے انکار کر دیا ہے۔ بلکہ انہوں نے تو واضح کر دیا ہے کہ تحقیقات کا کام عدلیہ کا نہیں ہے۔ بلکہ تحقیقات کے لئے حکومت کے پاس ادارے موجود ہیں۔ اور کسی معاملہ پر حکومت نے اگر کوئی تحقیقات کروانی ہیں تو وہ تحقیقاتی اداروں سے کروائے۔
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بھی گزشتہ روز یہ اعلان کیا ہے کہ حکومت نے کئی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس صاحبان اور ججز صاحبان سے رابطہ کیا ہے کہ وہ پانامہ لیکس کی کمیشن کی سربراہی قبول کر لیں۔ لیکن تمام جج صاحبان نے بغیر وجہ بتائے معذرت کر لی ہے۔ اس لئے اب سادہ صورتحال یہ ہے کہ حکومت تو پانامہ لیکس پر کسی سابق جج پر کمیشن بنانے کے لئے تیار ہے لیکن کوئی نیک نام سابق جج اس کمیشن کی سربراہی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ لہذا اب صورتحال یہ ہے کہ نہ تو کئی حاضر جج اور نہ ہی کوئی سابق جج پانامہ لیکس کے تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی قبول کرنے کے لئے تیار ہے ۔
اگر ایک خاص تناظر میں دیکھا جائے تو چیف جسٹس صاحب کے بیان کو دیکھا جائے تو انہوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کیونکہ عدلیہ کا کام کسی بھی تحقیقات کا جائزہ لیکر اس پر فیصلہ دینا ہے۔ خود تحقیقات کرنا نہیں ہے۔ کیونکہ اگر کوئی جج تحقیقات کرے گا تو بعد میں جب ان تحقیقات کو کسی عدالت میں پیش کیا جائے گا تواس جج کو بطور گواہ اس مقدمہ میں پیش ہونا پڑے گا۔ہر تحقیقاتی افسر کو اپنی تحقیقات کے دفاع میں عدالت میں کٹہرے میں پیش ہونا پڑتا ہے۔ اور شائد کوئی بھی جج گواہ کے کٹہرے میں کھڑا ہونے کے لئے تیار نہ ہو۔
اسی تناظر میں اب وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے یہ پیشکش کی ہے کہ اگر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایف آئی اے یا کسی اور تحقیقاتی ادارے کے کسی افسر کے نام پر تحقیقات کے لئے اتفاق ہو جا تا ہے تو اس افسر سے بھی تحقیقات کروائی جا سکتی ہیں۔ لیکن ایسا ہو تا بھی ممکن نظر نہیں آرہا۔ کیونکہ اول تو ساری اپوزیشن مل کر کسی ایک نام پر متفق نہیں ہو سکتی۔ پہلے عمران خان نے شعیب سڈل کا نام دیا تھا ۔ لیکن بعد میں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے ان کے نام سے اختلاف کر دیا تھا۔ اس طرح ان کا نام بھی متنازعہ ہو گیا تھا۔ لہذا یہ ماننا بھی مشکل نہیں کہ پاکستان کے اندر کسی بھی تحقیقاتی ادارے میں ایسا کوئی افسر موجود نہیں ہے جس پر پوری سیاسی قیادت متفق ہو جائے کہ ان سے تحقیقات کروا لی جائیں ۔اب اگر منظر نامہ یہی ہے تو پانامہ لیکس پر تحقیقات کے لئے کوئی ایسا موزوں شخص پاکستان میں موجود نہیں ہے ۔ جس سے تحقیقات کروانے پر تمام فریقین متفق ہو جائیں۔
حکومت اب اس موقف کے ساتھ بھی سامنے آئی ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے کو جمہوری حکومت کے خاتمہ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں صحافت کے قبیلہ کے سردار مرحوم مجید نظامی نے میاں نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں جب ایٹمی دھماکہ کا وقت تھا، تو ایک تاریخی فقرہ کہا تھا کہ میاں صاحب آپ ایٹمی دھماکہ کریں تو بھی امریکہ آپ کا دھماکہ کر دے گااور اگر آپ دھماکہ نہیں کریں گے تو عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔ اور اب سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں میاں نواز شریف دوبارہ ایک ایسے موڑ پر پھنس گئے ہیں جہاں سے جدھر بھی جائیں ۔ ان کے لئے مشکلات ہی ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ صورتحال اتنی گھمبیر نہیں ہے ۔ جتنی سمجھی جا رہی ہے۔ حکومت مشکل میں ہے۔ لیکن یہ مشکل جان لیوا نہیں ہو سکتی۔ حکومت کمزور ہو سکتی ہے۔ اس کی ساکھ کمزور ہو گی۔ لیکن موت کا خطرہ نہیں ہے۔ میاں نواز شریف کے دورہ لند ن نے مشکلات پیدا کی ہیں لیکن یہ مشکلات بھی عارضی ہیں۔
پیپلزپارٹی میں بھی واضح طور پر دھڑے بندی نظر آرہی ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والی پیپلزپارٹی اس وقت موجودہ جمہوری نظام کو غیر مستحکم نہیں کرنا چاہتی۔ اسی لئے سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے عمران خان کی جانب سے رائے ونڈ پر چڑھائی کی مخالفت کی۔ رحمٰن ملک اسحاق ڈار سے مل رہے ہیں۔ جبکہ اعتزاز احسن کا موڈ مختلف ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی وہی فیصلہ کرے گی جو پیپلزپارٹی سندھ کا فیصلہ ہو گا۔ اسی لئے پہلے مرحلہ میں عمران خان کے رائے ونڈدھرنے کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بات صرف اسمبلی میں مخالفت تک محدود رکھی جائے گی۔ جہاں تک اعتزاز احسن کی بات ہے تو یہ پہلا موقع نہیں ہو گا کہ وہ پیپلزپارٹی میں رہتے ہوئے پیپلزپارٹی سے الگ لائن لیں گے۔ اس سے قبل سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے موقع پر بھی وہ پیپلزپارٹی سے انحراف کر چکے ہیں اور پھر واپس آگئے تھے۔ اس لئے اگر چودھری نثار علی خان سے محاذ آرئی میں اگر وہ آگے نکل گئے تو وہ پیپلزپارٹی سے دور ہو جائیں گے ۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کے قریب ہو جائیں گے۔ لیکن اس سے قبل انہوں نے پیپلزپارٹی کی پالیسی سے انحراف تو کیا ہے لیکن پیپلزپارٹی کو چھوڑا نہیں ہے۔ اب دیکھیں کیا ہو تا ہے۔