کلبھوشن اور بھارتی رویہ! ہماری حکمت عملی کیا؟

ہم یہ پختہ ارادہ کر کے آئے تھے کہ گھر پہنچتے اور دفتر جاتے ہی پہلا کام کراچی میں گزرے چند روز کے حوالے سے احوال تحریر کریں گے،لیکن یہاں واقعات اتنی تیزی کے ساتھ سامنے آتے چلے جا رہے ہیں کہ اِس خیال کو ذرا ملتوی کرنا ہو گا، انشا اللہ ذکر ضرور کریں گے کہ کراچی میں گزرے چار پانچ روز کئی حوالوں سے قابلِ ذکر ہیں۔بہرحال آج کل تو گرما گرم موضوع بھارتی جاسوس کلبھوشن کی سزا اور اِس حوالے سے پاک بھارت تعلقات ہیں، پہلے سے موجود کشیدگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
رموزِ مملکت والا معاملہ ہے،اِس لئے ہم یہ الزام نہیں لگاتے کہ حکومت نے قریباً ایک سال تک اِس بھارتی جاسوس کے حوالے سے کچھ نہ بتا کر عوام کو محروم رکھا اور پھر یکایک آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز نے بتا دیا کہ کلبھوشن بھارتی فوج کا حاضر سروس افسر ہے، اِس لئے اس کا فیلڈ کورٹ مارشل ہوا اور فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا اور اسے صفائی کا پورا موقع بھی دیا گیا۔ وکیل بھی مہیا ہوا اور اس کے بعد قانونی تقاضوں کی تکمیل ہو جانے پر فیصلہ سنایا گیا اور سزائے موت دی گئی کہ کلبھوشن نے نہ صرف ریاست پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور مُلک میں مکمل انتشار پھیلانے کی بھرپور کوشش کی، بلکہ یہاں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے لئے مقامی لوگوں کو خریدا اور یہ سب کرایا، ان امور کا اس نے خود اعتراف بھی کیا اور ضابطہ کے مطابق مجسٹریٹ کے روبرو اقبالی بیان بھی دیا یوں یہ مسئلہ سب پر حاوی ہو گیا۔میڈیا اور مُلک کے دانشوروں سے تھڑا باز تک اِسی حوالے سے گفتگو کرتے چلے آ رہے ہیں۔
’’سیکریسی‘‘ کے حوالے سے حکومت کا استحقاق تسلیم کرتے ہیں اس کے باوجود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وزیر دفاع محترم خواجہ آصف بھارتی حکومت کی دھمکیوں کا جواب دینے کے لئے پارلیمینٹ کے ایک حصے میں آ کر بیان دے سکتے ہیں تو کلبھوشن کے مقدمہ اور سزا کا اعلان بھی تو اسی پارلیمینٹ میں کیا جا سکتا تھا کہ یہاں پارلیمانی جمہوری نظام ہے اور ہم جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے ڈھنڈورچی ہیں، یہ بھی تعجب والی بات ہے کہ حکومت نے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کی تخریب کاری اور بھارتی حکومت کی سازشوں اور بلوچستان میں مداخلت کے حوالے سے ڈوزیئر تیار کئے جو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے حوالے کئے گئے تو دیگر اہم ممالک کو بھی پیش کر دیئے گئے تھے، یہاں بھی اعتراض ہے کہ اس سب معاملے سے پارلیمینٹ کو بے خبر کیوں رکھا گیا؟ کہ اب اراکین شکوہ کر رہے ہیں، کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ تفتیش مکمل ہو جانے اور مقدمہ فوجی عدالت کے سپرد کر دیئے جانے کے بعد پارلیمینٹ کو اعتماد میں لیا جاتا ؟ آج جو صورتِ حال پیش آئی ہے اور یہ سب اچانک سامنے آیا تو حیرت ہوئی تاہم جذبہ حب الوطنی یہ ہے کہ ہر ایک نے اِس اقدام کی بھرپور حمایت کی اور قرار دیا کہ غیر ملکی جاسوسوں کی یہی سزا ہونی چاہئے اور اس پر عمل بھی ہو۔ یوں پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر نظر آئی۔ اگر پہلے پارلیمینٹ کو ہی اعتماد میں لے لیا جاتا تو تاخیر کا سبب بھی بتایا جا سکتا تھا یقیناًقبول کر لیا جاتا کہ یہ خاموشی حکمت عملی کا حصہ تھی،لیکن ملاحظہ فرمائیں کہ بھارت نے سب کچھ پارلیمینٹ میں کیا۔دھمکی اور اگلے اقدامات کا راگ بھی وہیں الاپا اور پوری اپوزیشن نے بھی ساتھ دیا، ایسا یہاں بھی ہو سکتا تھا،بے شک وزیراعظم خود نہ بولتے تاہم پارلیمینٹ میں موجود ہوتے اور ان کے وزراء ہی حکومتی موقف بیان کرتے تو بھی بہتر ہوتا اور اعتراض و تحفظات نہ ہوتے۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو وہ بھی اس پورے عرصے میں خاموش نہیں تھا،افغانستان میں دہشت گردوں کی تربیت،اسلحہ اور رقوم سے امداد کر کے پاکستان میں تخریب کاری کراتا رہا، حتیٰ کہ مبینہ طور پر ایک ریٹائرڈ پاکستانی کرنل کو دھوکے سے جال میں پھنسا کر اغوا کرنا بھی اِسی کھیل کا حصہ ہے۔ اگرچہ کرنل(ر) حبیب کی موجودگی کا اب بھی ذکر نہیں کیا جاتا، مگر بھارتی میڈیا سے یہ بات منظر عام پر لائی گئی ہے، اب تو پاکستان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہو گئی کہ اس پاکستانی کی برآمدگی کے لئے بھرپور وسائل اختیار کرے۔
یہ امر بالکل واضح ہے کہ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے شدید ترین ردعمل سے بوکھلا کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتری ہوئی ہے، کنٹرول لائن پر فائرنگ اور معصوم شہریوں کی زندگی لینے سے ان کو زخم پہنچانے تک سے دریغ نہیں کیا جا رہا، پاک فوج جواب دے رہی ہے، لیکن یہ شکوہ اپنی جگہ موجود ہے کہ پارلیمان کی کشمیر کمیٹی کا وجود بے کار ہو کر رہ گیا۔ چیئرمین فضل الرحمن یہ عہدہ اپنی جماعت کی مقبولیت اور اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں،کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس کمیٹی کا چیئرمین مشاہد حسین جیسی کوئی شخصیت ہوتی اور شیری رحمن جیسے افراد اس کے رکن ہوتے،اس کمیٹی کو بہت فعال ہونا چاہئے،لیکن ایسا نہیں، یوں بھی مولانا فضل الرحمن جتنے بھی محترم ہیں، دُنیا میں ان کی کوئی نہیں سنتا، اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماسوا دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ، حکومت کی طرف سے اِس حوالے سے کچھ نہیں کیا جا رہا، حالانکہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر پوری دُنیا کی توجہ مبذول کرائی جا سکتی ہے، مگر معلوم نہیں یہ کیسے رموز مملکت ہیں کہ بیان بازی سے آگے قدم نہیں بڑھایا گیا۔ کشمیری تو اپنے خون سے تاریخ لکھ رہے ہیں، ان کو ایسی سیاسی اور اخلاقی مدد کی ضرورت نہیں، جو اب ہو رہی ہے۔ ضرورت بھرپور مہم کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کو پامال کیا جا رہا ہے،اس پر غور ہونا ضروری ہے اور حکومت کے لئے لازم ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری رکھے اور روزمرہ حالات پر بات کی جائے کہ اس پر سب متفق ہیں۔