نوازشریف کے سامنے دو راستے کھلے ہیں!
خوابوں کی دنیا میں رہنے کی بات اور ہے، وگرنہ یہ حقیقت اب مان لی جائے کہ نوازشریف کی انتخابی سیاست ختم ہوگئی ہے، وہ جو کہتے تھے نوازشریف چوتھی بار بھی وزیراعظم بنیں گے، وہ شاید اپنے ووٹروں کو طفل تسلی دینے کے لئے اب بھی یہی کہیں گے، مگر یہ قۂہ اب ختم ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے 62 ون (ایف) کے تحت نوازشریف کو تاحیات نا اہل قرار دے دیا ہے۔
یہ نااہلی تبھی ختم ہوسکتی ہے جب کوئی دوسرا فیصلہ نوازشریف کے حق میں آجائے، وہ بھی اب نہیں آنا، کیونکہ نوازشریف کی نظرثانی اپیل بھی مسترد کی جا چکی ہے۔
ملک میں سپریم کورٹ سے بڑی کوئی عدالت نہیں، جو اس فیصلے کو ختم کرسکے، سو نوازشریف اب صرف ایک سیاستدان ہیں، نہ تو پارٹی عہدہ رکھ سکتے ہیں اور نہ انتخاب میں حصہ لے کر کوئی حکومتی منصب سنبھال سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست بہت ظالم ہے، اس میں بے رحمی کی حد تک آنکھیں پھیر لینے کی بدعت موجود ہے، جلد ہی نوازشریف کو اندازہ ہوگا کہ جنہیں وہ دودھ پلاتے رہے ہیں، وہ انہیں سانپ بن کر ڈس رہے ہیں۔ یہ جو کشتی سے چھلانگ لگانے والے آج کل تیزی سے سامنے آ رہے ہیں، ان کے پیچھے بھی یہی سوچ کار فرما ہے، وہ جان چکے ہیں کہ نوازشریف کا اب کوئی سیاسی مستقبل نہیں، وہ سیاست میں ایک ایسے کردار کے طور پر موجود رہیں گے جو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا واویلا تو کر رہا ہے، مگر عملاً اس کے پاس کوئی اختیار نہیں رہ گیا۔
آج کے بعد اب ایک نیا مرحلہ شروع ہوگا، مسلم لیگ (ن) کی سیاست ایک نئے امتحان سے دوچار ہوگی۔ فیصلے کے خلاف لڑنا ہے یا اسے تسلیم کرنا ہے، یہ دو نظریے پارٹی کے اندر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوں گے۔ نظریہ وہی جیتے گا جو فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کردے گا۔
لوگ اسی کے ساتھ ہوں گے جو پارٹی کا عملاً سربراہ ہوگا۔ اب شہبازشریف کو کھل کر سامنے آنا پڑے گا، اگر وہ کھل کر سامنے نہیں آتے تو پارٹی کا شیرازہ بکھرنے میں دیر نہیں لگے گی۔
وہ آج کل ارکانِ اسمبلی سے ملاقاتوں میں خاصی سرگرمی دکھا رہے ہیں، یہ غالباً جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی کی بغاوت کے بعد کی حکمت عملی ہے، تاہم اب انہیں یہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی کہ نوازشریف کی عدم موجودگی میں پارٹی کو متحد کیسے رکھا جائے؟ اس کے لئے انہیں ایک واضح لکیر کھینچنی ہوگی، اگر یہ تاثر برقرار رہتا ہے کہ ایک طرف مریم نواز محاذ آرائی پر تلی ہوئی ہیں اور دوسری طرف شہبازشریف مرہم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو خود پارٹی کے اندر ابہام پیدا ہو جائے گا، جو خود وابستگانِ مسلم لیگ (ن) کے لئے مایوسی کا باعث بن سکتا ہے۔
یہی وقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) ایک نئے سربراہ کی قیادت میں مجتمع ہو جائے، اگر گومگو کی کیفیت برقرار رہی تو شاید مزید کئی ارکانِ اسمبلی نئی راہ پر چل نکلیں۔
شہبازشریف نے بہت اچھا کیا کہ سپریم کورٹ کے اولین فیصلے سے لے کر آج تک خود کو دوسرے مسلم لیگیوں کی طرح مولا جٹ نہیں بنایا، فیصلے پر اس طرح تنقید نہیں کی، جس سے عدالت عظمیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ وہ اعتدال پسند رہنما کے طور پر اپنا امیج برقرار رکھے ہوئے ہیں جو آج کی صورت حال میں مسلم لیگ (ن) کے بہت کام آ سکتا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر نوازشریف کی تاحیات نااہلی کا اس حوالے سے افسوس ہے کہ ایک تجربہ کار سیاستدان اور تین بار وزیراعظم رہنے والا رہنما انتخابی سیاست سے آؤٹ ہو گیا ہے۔
قوموں کی زندگی میں لیڈر روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ ایک عرصہ لگتا ہے تب کوئی رہنما بنتا ہے، جسے عوام کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔
نوازشریف کو پیپلزپارٹی کا توڑ کرنے کے لئے سیاست میں لایا گیا تھا، جنرل ضیاء الحق اور جنرل جیلانی نے انہیں میدان سیاست میں اتارا تھا، پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور نوازشریف نے پہلے وزارت عظمیٰ تک رسائی حاصل کی، پھر ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد بن گئے۔ ان کا سیاسی اثر و رسوخ اتنا بڑھا کہ ان کے بغیر پاکستانی سیاست نامکمل سمجھی جانے لگی۔
یہ موقع تھا کہ وہ خود کو ایک مضبوط لیڈر کے طور پر ابھارتے، جمہوریت اور پارلیمینٹ کی مضبوطی کے لئے کام کرتے، سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست کی بڑی حقیقتوں کو ساتھ لے کر چلتے، ٹکراؤ اور مطلق العنانیت کے حصول سے گریز کرتے، مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔
عوام کی حالت بدلنے پر توجہ دینے کی بجائے اس جنگ میں الجھ گئے کہ وزیراعظم کو لامحدود اختیارات حاصل ہونے چاہئیں۔ اس خبط کی وجہ سے انہیں بار بار وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے، حتیٰ کہ جلاوطنی بھی اختیار کرنا پڑ گئی۔
آپ کے ہاتھ صاف نہ ہوں تو خالی یہ نعرہ لگانے سے بات نہیں بنتی کہ ملک میں سول بالادستی ہونی چاہئے۔ کھربوں روپے کے اثاثے بیرون ملک بنتے رہے اور یہاں نوازشریف اپنی بالادستی کی جنگ لڑتے رہے۔ یہ دوعملی بھلا کیسے کارگر ثابت ہو سکتی تھی؟
سو پاناما لیکس کا جن بوتل سے باہر آتے ہی نوازشریف کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا۔ اس وقت بھی خبط عظمت میں مبتلا میاں نوازشریف نے اس کا کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیا، غلطی پر غلطی کی، معاملے کو پارلیمینٹ میں حل کرنے کی بجائے عدالت میں لے جانے کو ترجیح دی۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ پاناما لیکس میں جو انکشافات کئے گئے ہیں، انہیں عدالت میں جھٹلانا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ شاید میاں صاحب کی وہی ذہنیت تھی جس میں محاذ آرائی ایک بنیادی حقیقت کے طور پر موجود ہے، انہوں نے اس معاملے میں بھی لڑنے کا فیصلہ کیا، حالانکہ یہاں لڑنے کی بجائے مصلحت سے کام لینے کی ضرورت تھی۔
آج سب انہیں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے پاناما کیس کو عدالت میں لے جانے کی غلطی خود کی۔ یہ معاملہ پارلیمینٹ میں رہتا تو اس کا کوئی نہ کوئی سیاسی حل نکل آتا، مگر ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘۔۔۔ تاحیات نااہلی کے بعد اب نوازشریف پر نیب کیسوں میں سزا کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ ایک مقبول لیڈر سے معتوب لیڈر تک کا سفر جاری ہے۔
نوازشریف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ کسی صورت ان تک محدود نہیں رہے گا۔ اتنے بڑے لیڈر کے خلاف اگر نااہلی اور سزا کے فیصلے آ سکتے ہیں تو پھر ملک میں کون ایسا بچے گا، جس نے قوم کا پیسہ بھی لوٹا ہو اور قانون کی گرفت میں بھی نہ آئے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عوامی نمائندوں کو صادق و امین ہونا چاہئے، آئین بنانے والوں کی منشاء بھی یہی تھی۔ سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے لئے بہت سی شقیں تو آئین میں شامل کی گئیں، مگر اُن پر کبھی مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا، لیکن نوازشریف جیسے بڑے لیڈر کی تاحیات نااہلی سے جو ایک بڑی مثال قائم ہوئی ہے، اس کی وجہ سے اب شاید ایسا کوئی شخص مشکل ہی سے بچ سکے، جس نے 62ون (ایف) کی خلاف ورزی کی ہو اور اسمبلی کارکن بھی بن گیا ہو۔
اب یہ نظریہ بھی دم توڑ جائے گا کہ جسے ایک بار عوام نے ووٹ دے کر منتخب کرلیا، وہ ہر قسم کے احتساب سے محفوظ ہوگیا۔ ووٹ سے منتخب ہونا اس بات کا لائسنس نہیں کہ اب اگلے انتخابات تک آپ جو چاہے کرتے رہیں، آپ کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔
بلاول بھٹو زرداری جیسے نوآموز سیاستدان یہ بیان دیں کہ عوام کو سیاستدانوں کی اہلیت یا نااہلی کا اختیار ہونا چاہئے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کیونکہ یہی کلیہ حمزہ شہبازشریف نے بھی بیان کیا تھا۔
دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ عوامی نمائندے کی اہلیت کو عوام کے ووٹوں سے پرکھا جائے، اس کا فیصلہ تو ہمیشہ عدالتیں کرتی ہیں، جہاں اس کی اہلیت کو چیلنج کیا جاتا ہے۔
اس فیصلے کے بعد نواز شریف کے سامنے دو راستے کھلے ہیں، پہلا اور صائب راستہ تو یہ ہے کہ اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے بطور قائد، مسلم لیگ (ن) جماعت کے طور پر قائم رکھیں۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف احتجاجی تحریک جاری رکھیں، اپنے اس بیانیہ کی بنیاد پر جو انہوں نے سپریم کورٹ کے اولین فیصلے کے بعد سے اختیار کررکھا ہے یعنی۔۔۔ ’’مَیں نہیں مانتا، مَیں نہیں مانتا‘‘ کی گردان کرتے رہیں، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، البتہ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی امیدواروں پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ عوام کے سامنے میاں صاحب کے بیانیے کا دفاع کیسے کریں۔
خود شہبازشریف کے لئے بھی مشکل ہوگی، کیونکہ وہ عدلیہ مخالف مہم کے حق میں نہیں اور فیصلے کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
نوازشریف پر بہت مشکل وقت ہے، تاہم بڑے رہنما مشکلات سے ہی راستہ نکالتے ہیں، اگر میاں صاحب ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں تو ان کی مشکلات بھلے کم نہ ہوں، تاہم اُن میں اضافہ بھی نہیں ہوگا۔ دیکھتے ہیں وہ کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں؟