تاحیات نا اہلی کیس ، سپریم کورٹ نے آئینی ترمیم کا راستہ کھلا رکھا

تاحیات نا اہلی کیس ، سپریم کورٹ نے آئینی ترمیم کا راستہ کھلا رکھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: سعید چودھری


 چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار، مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید، مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال ،مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن اور مسٹر جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے فل بنچ نے آئین کے آرٹیکل 62(1)ایف کی تشریح سے متعلق متعدد درخواستوں پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔عدالت نے 14فروری 2018ء کو ان درخواستوں کی سماعت مکمل کرکے اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔اس کیس میں میاں نوازشریف فریق نہیں تھے ،انہیں نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا تاہم انہوں نے اس کیس میں فریق بننے سے انکار کردیا تھا۔انہوں نے اپنے دستخطوں سے عدالت میں جواب داخل کیا تھا جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس کیس میں فریق نہیں ہیں اور نہ ہی فریق بننا چاہتے ہیں ،اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی تھی کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم اس بنچ میں دو ایسے جج جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں جنہوں نے انہیں پاناما کیس میں نااہل قرار دیا تھا ۔نوازشریف نے عدالت میں اپنے تحریری بیان میں کہاتھا کہ وہ اگر اس کیس میں فریق ہوتے تو ان دونوں ججوں کی بنچ میں شمولیت پر اعتراض کرتے کیوں کہ وہ پہلے ہی نااہلی کیس میں اپنا نقطہ نظر دے چکے ہیں ۔سپریم کورٹ نے اب قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62(1)ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے ،یہ غیر متوقع فیصلہ نہیں ہے ۔اس سے قبل بھی سپریم کورٹ متعدد کیسوں میں قرار دے چکی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی نااہلی سے متعلق ایسے آئینی آرٹیکلز جن میں نااہلی کی معیاد کا تعین نہیں ہے ،ان سے مراد مستقل نااہلی ہے ۔اس بابت 29جولائی 2017ء کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے تجزیہ میں تفصیلی بحث کی جاچکی ہے ۔اس کیس میں ایک اہم بات مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کا اضافی نوٹ ہے جس میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل62(1)اسلامی اقدار سے لیا گیا ہے جبکہ بنچ کے دیگر ارکان کے فیصلے میں یہ آبزرویشن موجود نہیں ہے ،اگر بنچ کے دیگر ارکان بھی مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کے اس نقطہ نظر سے اتفاق کرلیتے تو پھر اس آرٹیکل میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کے لئے نا ممکن ہوجاتا کیوں کہ سپریم کورٹ اسلامی احکامات کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کرچکی ہے ۔اس بابت متعدد فیصلے موجود ہیں جن کے تحت آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم نہیں کی جاسکتی ۔اس سے قبل یہ بحث بھی قانونی حلقوں اور میڈیا پر زیربحث رہی ہے کہ کیا آئین کے آرٹیکلز 62اور63بنیادی دستوری ڈھانچہ کا حصہ ہیں ؟ پاکستان اور بھارت کے دساتیر میں بڑی حد تک مماثلت موجود ہے ،یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں آئینی معاملات پر بھارتی عدالتوں کے فیصلوں کو نہ صرف عدالتی نظیر کے طورپر پیش کیا جاتا ہے بلکہ پاکستانی عدالتیں کیس کی صورتحال کے پیش نظر انہیں عدالتی نظیر کے طور پر قبول بھی کرلیتی ہیں ۔پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے دساتیر میں بنیادی ڈھانچہ کا پارلیمنٹ کی طرف سے تعین نہیں کیا گیاتاہم اعلیٰ عدالتوں نے دونوں ممالک میں اپنے فیصلوں کے ذریعے بعض معاملات کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیتے ہوئے ان کے بارے میں ترامیم کی بابت پارلیمنٹ پر پابند ی عائد کررکھی ہے ۔بھارت میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کا سوال پہلی مرتبہ 1964ء میں سپریم کورٹ کے جج جے آر مادھو لکر نے سجن سنگھ بنام سٹیٹ آف راجستھان کیس کے فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں اٹھایا تھا ۔بعدازاں 1973ء میں سپریم کور ٹ نے اس بابت کیسا ونندا بھارتی کیس میں لینڈ مارک ججمنٹ کے ذریعے بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا تعین کردیا ۔اس کیس میں 23معاملات کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیا جس میں آئین کی بالادستی ،قانون کی حکمرانی ، سیکولرازم ، پارلیمانی طرز حکومت ، علیحدگی اختیارات ،بعض آئینی حقوق، صاف شفاف الیکشن کااصول ،عدلیہ کی آزادی ، قومی یکجہتی اور فلاحی ریاست جیسے معاملات شامل تھے ۔اس کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ پارلیمنٹ کواس آئینی ڈھانچے سے متصادم دستور ی ترمیم کا اختیار حاصل نہیں ہے ۔1971ء کے عام انتخابات میں رائے بریلی کے حلقہ سے اندرا گاندھی نے راج نارائن کو بھاری اکثریت سے شکست دی جسے راج نارائن نے ا لہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا اور الہ آبا د ہائی کورٹ نے سرکاری وسائل کے استعمال اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت اندرا گاندھی کو نااہل قرار دے کر ان کی جیت کا نوٹیفکیشن کالعدم کردیا۔اندرا گاندھی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرکے عبوری حکم امتناعی حاصل کرلیاجس کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ میں کانگرس (آئی )کی بھاری اکثریت کے بل بوتے پر 1975ء میں 39ویں آئینی ترمیم منظور کروالی جس کے تحت جو شخص بھارت کا صدر ،نائب صدر ،وزیراعظم یا لوک سبھا کا سپیکر رہا ہو ،انتخابات کے وقت اس کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال نہیں ہوگی اور وہ الیکشن لڑنے کا اہل ہوگا۔اس ترمیم کے تحت یہ بھی طے کردیا گیا کہ ان عہدوں پر منتخب ہونے والوں کے الیکشن پربھی (کسی عدالت میں )سوال نہیں اٹھایا جاسکے گا۔بھارتی سپریم کورٹ نے اندرا نہرو گاندھی بنام راج نارائن کیس میں اس آئینی ترمیم کو دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دے کر کالعدم کردیا۔بھارتی سپریم کورٹ نے قراردیا کہ 39ویں آئینی ترمیم کے تحت صدر ،نائب صدر ،وزیراعظم اور سپیکر کے انتخابات کے عدالتی جائزہ کا اختیار ختم کردیا گیا جو بنیادی آئینی ڈھانچہ کے منافی ہے ،علاوہ ازیں اس ترمیم سے صاف شفاف الیکشن سے متعلق بنیادی آئینی ڈھانچہ کی فہرست میں شامل نکتہ نمبر 17بھی غیر موثر بنا دیا گیا ہے تاہم عدالت نے قرار دیا کہ اگر کوئی جماعت اس 23نکاتی بنیادی آئینی ڈھانچے کے برعکس کوئی ترمیم کرنا چاہتی ہے تو اسے متعلقہ معاملے کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کرنا پڑے گا ،اگر انتخابات میں عوام اسے مینڈیٹ دے دیں تو پھر وہ بنیادی آئینی ڈھانچے میں شامل متعلقہ معاملہ پر بھی ترمیم کرسکتی ہے ۔پاکستان میں1997ء میں پہلی مرتبہ محمود خان اچکزئی کیس میں سپریم کورٹ نے بنیادی آئینی ڈھانچے کے تصور کو قبول کیا۔اس سے قبل بنیادی آئینی ڈھانچے کا پاکستان میں کوئی تصور موجود نہیں تھا ۔ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے اسلامی تشخص ،پارلیمانی نظام حکومت اور آزاد عدلیہ کو بنیادی آئینی ڈھانچہ قرار دے رکھا ہے۔فوجی عدالتوں کے کیس سمیت پاکستانی سپریم کورٹ کے ایسے متعدد فیصلے موجود ہیں جو پارلیمان کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کی اجازت نہیں دیتے۔آئین کے آرٹیکل238کے تحت پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرسکتی ہے جبکہ آرٹیکل 239(6)میں اس بات کی وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ آئین میں ترمیم کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اختیار پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے ،دوسرے لفظوں میں پاکستانی پارلیمنٹ کوئی بھی آئینی ترمیم کرنے کی مجاز ہے۔1997ء سے قبل پاکستانی عدالتیں آرٹیکل 238اور 239(6)کے تحت پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم کے کلی اختیار کو تسلیم کرتی چلی آرہی تھیں ۔سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار اور سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ قرار دے چکے ہیں کہ پارلیمنٹ آئین میں ہر قسم کی ترمیم کرنے کی مجاز ہے ۔5اگست 2015ء کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام سمیت 18ویں اور 21ویں آئینی ترامیم کے خلاف درخوستوں پر ایک تاریخی فیصلہ سنایا تھا۔عدالت عظمیٰ کے17میں سے13ججوں نے اکثریت رائے کے ساتھ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے نظریہ کو قبول کیا جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک ، جسٹس میاں ثاقب نثار ، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اورجسٹس اقبال حمید الرحمن نے آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے تصور کو قبول نہیں کیا تھااور قراردیا تھا کہ پارلیمنٹ آئین میں جو چاہے ترمیم کرسکتی ہے اور عدالت کسی آئینی ترمیم کا جائزہ لینے کی مجاز نہیں ہے ۔فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں 17میں سے 11ججوں نے مسترد کی تھیں تاہم 4کے سوا دیگرتمام 13ججوں نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے تصور کو تسلیم کیا تھا،جس کا مطلب ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم کوئی آئینی ترمیم نہیں کی جاسکتی اور کسی بھی آئینی ترمیم کا عدالتی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔اس کیس میں مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کے تحریر کئے گئے فیصلے سے سپریم کورٹ کے 7دیگر ججوں نے اتفاق کیا ،انہوں نے بنیادی آئینی ڈھانچے کو تو مانا تاہم مذکورہ ترامیم کو اس سے متصادم قرار دینے سے انکارکیا۔مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کے تحریری فیصلے کے اختتامی پیراگراف نمبر180میں پاکستانی آئین کے جو نمایاں خدوخال یا بنیادی ڈھانچہ بیان کیا گیا ہے وہ جمہوریت ،وفاقی پارلیمانی طرز حکومت اور عدلیہ کی آزادی پرمشتمل ہے۔مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید سمیت 8ججوں نے اپنے تحریری فیصلے کے پیراگراف نمبر60میں محمود خان اچکزئی کیس ،وکلاء محاذ کیس ، ظفر علی شاہ کیس اور پاکستان لائیرز فورم کیس کے حوالے سے قرار دیا ہے کہ ان کیسوں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق جمہوریت ، وفاقی نظام ، اسلامی شقوں کے ساتھ پارلیمانی طرز حکومت ، عدلیہ کی آزادی ،بنیادی حقوق ،مساوات،انصاف اور فیئر پلے آئین کے بنیادی خدوخال ہیں۔ان ججوں کے فیصلے کے پیراگراف نمبر65میں قرار داد مقاصد کا بھی ذکر کیا ہے جوآرٹیکل 2(اے)کے تحت اب آئین کا حصہ ہے۔مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں کے کیس میں قرار داد مقاصد کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیا ہے جیسا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتی آئین کی تمہید سے بنیادی ڈھانچہ اخذ کیا ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے قرار دیا ہے کہ کوئی آئینی ترمیم پاکستان کا اسلامی تشخص ختم نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی ایسی آئینی ترمیم عمل میں لائی جاسکتی ہے جو اسلام کے منافی ہویا پھر پاکستان کا اسلامی تصور ختم کرتی ہو۔اس کیس میں مسٹر جسٹس اعجاز افضل خان اور مسٹر جسٹس اعجاز احمد چودھری نے اپنے تحریری فیصلے میں نہ صرف اسلام کو بنیادی ڈھانچے میں پہلے نمبر پر رکھا بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947ء کی اس تقریر پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے جس میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو پورے حقوق حاصل ہوں گے۔ان دونوں فاضل ججوں نے قرار دیا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اسلام ہی اس کے آئینی ڈھانچہ کی بنیاد ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے مذکورہ خطاب سے یہ بات قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتی کہ وہ ایک سیکولر سٹیٹ چاہتے تھے۔مسٹر جسٹس دوست محمد خان اور مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی اپنے فیصلوں میں اسلام کو آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں شامل کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں آئین کے بنیادی ڈھانچے میں جمہوریت ، وفاقی نظام ، اسلامی شقوں کے ساتھ پارلیمانی طرز حکومت ، عدلیہ کی آزادی ،بنیادی حقوق ،مساوات،انصاف ، فیئر پلے آئین اورقرارد مقاصد شامل ہیں۔اس بحث سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آئین کے آرٹیکلز62اور63کے وہ ذیلی آرٹیکلز جو آئین کے مذکورہ بنیادی ڈھانچے کے تابع ہیں ان میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی ۔آئین کے آرٹیکل63میں اسلامی تشخص کے حوالے سے کوئی شق شامل نہیں ہے تاہم آئین کے آرٹیکل62(1)ڈی میں رکن پارلیمنٹ کی اہلیت کے لئے شرط عائد کی گئی ہے کہ وہ ایسے شخص کے طور پر موسوم نہ کیا جاتا ہو جواسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہوجبکہ 62(1)ای میں کہا گیا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتاہو اور اسلام کے مقرر کردہ لازمی فرائض پر عمل کرنے اور کبیرہ گناہوں سے بچنے والا ہو۔عدالت کی طرف سے قرار دیئے گئے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا بغور جائزہ لیا جائے تو نظریہ پاکستان کے مخالف کو نااہل قرار دینے سے متعلق آرٹیکل 62(1)جی میں بھی ترمیم نہیں کی جاسکتی ۔جہاں تک آئین کے آرٹیکل 62(1)ایف کے تحت رکن پارلیمنٹ کی نااہلیت کا سوال ہے اس میں ترمیم سپریم کورٹ کی طرف سے قرار دیئے گئے بنیادی آئینی ڈھانچے سے بادی النظر میں متصادم نہیں ہے،چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم مذکورہ 5رکنی بنچ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی قراردیا ہے کہ آرٹیکل 62(1)ایف کا اطلاق مسلم اور غیر مسلم دونوں پر ہوگا۔دوسرے لفظوں میں فاضل بنچ نے اس آرٹیکل کو آئین کے بنیادی اسلامی ڈھانچے میں شامل نہیں کیا ہے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے اس کے برعکس آبزرویشن دی ہے ۔اب پارلیمنٹ کو اس آرٹیکل میں ترمیم یا اسے منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ یہ معاملہ اسلامی احکامات کے تحت آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں شمار نہیں کیا گیا۔ اگرمزید احتیاط مقصود ہو تو اس آرٹیکل میں صادق اور امین کی شرط کو برقرار رکھتے ہوئے بھی ایسی ترمیم عمل میں لائی جاسکتی ہے جس سے سابق وزیراعظم سمیت مختلف سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے غیر موثر ہوجائیں گے۔جیسا کہ 2010ء میں( 18ویں آئینی ترمیم کے تحت )آئین کے آرٹیکل62،63اور63(اے)میں متعدد ترامیم کی گئی تھیں۔ان ترامیم کو کسی عدالت میں چیلنج کیا گیا اور نہ ہی انہیں کسی عدالت نے آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیا ۔علاوہ ازیں یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ جس آئینی آرٹیکل کو سپریم کورٹ یا دیگر اعلیٰ عدالتیں جائز قرار دے چکی ہوں انہیں منسوخ یا ختم نہیں کیا جاسکتا۔مختلف مقدمات میں سپریم کورٹ نے صدر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اختیار سے متعلق آئین کے آرٹیکل 58(2)بی کو "سیفٹی والو "قراردیا تھا اس کے باوجود پارلیمنٹ نے اس آرٹیکل کو منسوخ کردیا تھا۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ کواختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے سابقہ فیصلوں کو نظر انداز کردے اور زیرسماعت مقدمے کا حالات وواقعات کی روشنی میں ایسا فیصلہ جاری کردے جو ماضی کے فیصلوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار سمیت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ فوجی عدالتوں کے کیس میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کے تصور کو قبول کرنے سے انکار کرچکے ہیں اور قرار دے چکے ہیں کہ پارلیمنٹ کو ہر قسم کی آئینی ترمیم کا اختیار حاصل ہے ۔پارٹی صدارت کیس میں بھی چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم بنچ نے آئینی ترمیم کو کالعدم نہیں کیا تھا بلکہ آئین اور قانون کے متعلقہ آرٹیکلز کی تشریح کرکے قرار دیا تھا کہ اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل شخص کسی پارٹی کا سربراہ نہیں ہوسکتا۔علاوہ ازیں اگر مسلم لیگ (ن) بنیادی آئینی ڈھانچہ میں ترامیم کی تجاویز اپنے انتخابی منشور میں شامل کرلے اورپھر وہ آئندہ عام انتخابات میں اکثریت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ اپنے منشور کے مطابق آئین میں ترامیم کرنے میں آزاد ہوگی کہ اس بابت اسے عوام نے مینڈیٹ دیا ہوگا ۔
آئینی ترمیم کا راستہ

مزید :

تجزیہ -